Columnعبدالرشید مرزا

جماعت اسلامی، سودی نظام اور نجم ولی خان

جماعت اسلامی، سودی نظام اور نجم ولی خان

عبدالرشید مرزا

ایک صحافی اور ماہر معاشیات ہونے کی حیثیت سے مجھے نجم ولی خان اور مجیب الرحمان شامی کے ساتھ سراج الحق کی قیادت میں حرمت سود پر سیمینار میں شرکت کا موقع ملا، جس میں پاکستان کے معروف ماہر معاشیات، ممبر ایگزیکٹو باڈی چیمبر آف کامرس اور علما اکرام نے شرکت کی، ایک خوبصورت مجلس تھی، میرے ساتھ ہی نجم ولی خان بیٹھے تھے، انہوں نے بھی گفتگو کی، جس کا اظہار انہوں نے 15جولائی کے اپنے کالم میں بھی کیا۔ مجیب الرحمان شامی صاحب نے کہا میرا اسلامی معیشت مضمون نہیں ہے، اس لئے میں تو سیکھنے کے لئے آیا ہوں، میرے خیال میں یہ میرے بھائی نجم ولی خان کا مضمون بھی نہیں ہے، اس لئے انہوں نے ایسے سوالات کئے ہیں میں جوابات دینا ضروری سمجھتا ہوں۔
بنیادی بات تو یہ ہے عصری اقتصادیات کا سارا تانا بانا سائنس کو اخلاقیات اور مذہب سے الگ کرنے کے تصور کے اردگرد بُنا گیا ہے۔ معاشیات کو سماجی سائنس ہونے کے باوجود ایک فطری سائنس کے سانچے میں ڈھالنے کی منظم کوشش کی گئی، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اس نے خود کو معاشرے اور انسانیت سے بھی دُور کرلیا۔ نتیجتاً سارے ہی معاشی اُمور کے بارے میں فیصلہ سازی میں منڈی نے مرکزی حیثیت حاصل کرلی۔ پوری معاشی فکر انسان کے ایک یک جہتی تصور کے گرد منڈلا رہی ہے، جس کا محرک منافع کا حصول بن گیا۔ اس کے نتیجے میں ایک بے رحم صورتِ حال نے جنم لیا، کیونکہ ایک طرف مغرب نے پیداوار اور دولت کی تخلیق میں شان دار ترقی کی تو دوسری طرف ایک ایسی معیشت اور معاشرہ تخلیق کیا، جہاں دولت کی وسیع پیمانے پر غیر مساویانہ تقسیم اور بڑے پیمانے پر معاشی استحصال پایا جاتا ہے ۔ میرے بھائی کا یہ کہنا کہ جہاں سود ہے وہاں معاشی ترقی ہے حقیقت میں ایسا نہیں ہے امریکہ اس وقت دُنیا کے امیر ترین ممالک میں سے ایک ہے۔ دُنیا کی 5فیصد آبادی کے ساتھ یہ دُنیا کی مجموعی پیداوار کے 20فیصد کا حامل ہے۔ اس کے باوجود خود 20فیصد امریکی خاندانوں کے پاس کوئی اثاثہ نہیں ہے۔37فیصد سیاہ فام امریکی خاندانوں کی صورتِ حال ابتر ہے کیونکہ ان کے پاس کوئی اثاثہ نہیں ہے۔ امریکہ میں ایک مڈل ایگزیکٹو اور اعلیٰ کارپوریٹ ایگزیکٹو کی تنخواہوں کے درمیان فرق 1950میں 20گنا تھا لیکن اب یہ بڑھ کر 200گنا ہوگیا ہے۔ معاشی بحران کے ذمہ دار عوامل میں ربا ( سود)، میسر ( تخمینے کی بنا پر خرید و فروخت) اور غرر ( تلون اور ابہام) شامل ہیں۔ عالمی مالیاتی فنڈ کے ایک ( ایکشن پلان) میں یہ دلچسپ تبصرہ موجود ہے، ’’ اسلامی بینکوں کی کارکردگی کا عالمی سطح پر روایتی بینکوں سے موازنہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یورپ اور امریکہ میں معاشی بحران کے نتیجے میں روایتی بینکوں کو جو بڑا نقصان اٹھانا پڑا ہے، اس کے پیش نظر اسلامی بینکوں کی کارکردگی بہتر رہی ہے‘‘۔ امریکہ جو ترقی یافتہ ممالک میں سرفہرست ہے اس کی معیشت میں سود کی وجہ سے آخری سانسیں لے رہی ہے امریکہ 32.50ٹریلین ڈالر کا مقروض ہے اس کی جی ڈی پی سے قرضوں کی شرح 116.1فیصد ہے، اور ہر امریکی باشندہ 97358ڈالر کا مقروض ہے۔
ایک عالم دین کی رائے پر کہ زکوٰ ۃکا نظام رائج ہونا چاہئے، جس پر نجم کا سوال یہ تھا زکوٰ ۃ سے سڑکیں نہیں بنائی جا سکتیں، ملازمین کو تنخواہیں نہیں دی جا سکتیں، میرے بھائی آج پاکستان کے اندر حالات یہ ہیں 10کروڑ عوام سطح غربت سے نیچے زندگی گزار رہیں ہیں، 40فیصد لوگ صاف پانی نہ ہونے کی وجہ سے مر جاتے ہیں،3کروڑ بچے سکولوں سے باہر ہیں، 3کروڑ عوام سیلاب سے متاثر ہیں، 130ارب ڈالر کا پاکستان مقروض ہے ان تمام امور پر زکوٰۃ خرچ ہو سکتی ہے اور ہمارے کرپٹ حکمرانوں کی وجہ سے ملک کے غیر ترقیاتی اخراجات، وطن عزیز کے اثاثوں پر زرداریوں اور شریفوں کا قبضہ ہے، یہ ہی تو ٹیکس چور ہیں، ان جیسے سرمایہ داروں سے اسلامی ریاست ضرورت کے مطابق ٹیکس وصول کر سکتی ہے۔ ایک اسلامی ریاست کے اخراجات کا انحصار محض زکوٰۃ کی آمدنی پر نہیں بلکہ اس کے اور بھی بہت سے ذرائع ہیں، مثلاً سرکاری زمینوں کی فروخت ان کا لگان اور ٹھیکے، جنگلات سے حاصل ہونے والی پیداوار، بیرونی ممالک سے درآمد شدہ اشیا پر محصول، قدرتی خزانوں مثلاً معدنیات، تیل، گیس سے حاصل ہونے والی رائلٹی، زکوٰ ۃ سب سے بڑا اور اہم مصرف غریب طبقہ کی بنیادی ضروریات کی کفالت ہے جبکہ ٹیکس ملکی ضروریات کو پورا کرنے اور رفاہ عامہ کے کاموں پر خرچ ہوتے ہیں، لوگوں کی آمدنی میں غریبوں کا جو حق ہے یا جس سے نظم و نسق حکومت چلایا جاسکتا ہے وہ حصہ اللہ تعالیٰ نے مقرر کر دیا ہے۔ زکوٰ ۃ کے علاوہ دوسرے ذرائع بیت المال میں اتنی گنجائش ہے کہ ہر دور میں اخراجات کے ساتھ متوازن ہوسکیں، زکوٰ ۃ علاوہ دوسرے ٹیکس تو کجا، صدقات و خیرات، جو محض غریبوں کی خدمت کی غرض سے لئے جاتے ہیں۔ قانوناً وصول نہیں کئے جاسکتے، اسلام نے بغیر حق کے جس طرح کسی مسلمان کا خون حرام قرار دیا ہے، بالکل اسی طرح اس کے مال کو بھی حرام قرار دیا ہے، حجۃ الوداع کے موقع پر آنحضرتؐ نے جو خطبہ ارشاد فرمایا تھا اس میں یہ ہدایت واضح طور پر موجود ہے۔ ’’ لوگوں تمہارے خون، اموال اور عزت و آبرو ایک دوسرے پر اسی طرح حرام ہیں جیسے آج کا ( عرفہ کا ) دن اور یہ مہینہ ( ذی الحج) اور یہ شہر ( مکہ) تمہارے لیے با حرمت ہے۔‘‘ ( بخاری و مسلم)۔
’’ ٹیکس کی حقیقت‘‘ ایک اسلامی ریاست میں ٹیکس غیر مسلم رعایا پر لگایا جاتا ہے اور اس کی شرح میں تبدیلی ممکن ہے۔ جبکہ مسلمانوں پر صرف زکوٰ ۃ عائد ہوتی ہے اور زکوٰ ۃ کے علاوہ دوسرے ٹیکس اور ان کی مختلف صورتیں مکس ہیں، جو ایک جرم عظیم ہے۔ اور جو لوگ حضور اکرمؐ کے اس ارشاد ’’ لوگوں کے مال میں زکوٰ ۃ کے سوا بھی حق ہے‘‘۔ اس ارشاد سے تو صرف یہ وضاحت ہوتی ہے کہ مسلمانوں کو فقراء کی ضروریات پوری کرنے کی ذمہ داری محض حکومت پر نہ ڈال دینی چاہیے بلکہ زکوٰ ۃکے علاوہ بھی اپنے طور پر ملاقات کے ذریعہ ان کی خبر گیری کرتے رہنا چاہیے۔ اس عام حکم سے حکومت کے دوسرے ٹیکسوں کے لیے استدلال کرنے کی کوئی وجہ نظر نہیں آتی جبکہ دوسری طرف ایسے ٹیکسوں کے لیے سخت وعید سنائی گئی ہے۔ عجیب اتفاق ہے کہ حکومت کو دوران جنگ جنگی اخراجات کے لیے۔ اگر اپیل سے کام نہ چل رہا ہو تو جبری ٹیکس لگانے کا حکم دیا گیا ہے۔
نجم ولی اسلامک بینکنگ پر ہونے والے کام سے ہی لاعلم ہیں، ان کا یہ کہنا ہے ایک ریٹائرڈ آدمی اگر اپنے پیسے پر سود نہیں لے گا تو گھر کیسے چلائے گا، بلکہ اگر ناتجربہ کار لوگوں کو اپنا پیسہ دے گا تو ڈوب جائے گا، حالانکہ ایسا نہیں ہی موجودہ اسلامی بینکنگ جدید ماہرین کی بڑی ٹیم رکھتی ہے، جس کی وجہ سے آج اور 2008ء میں بھی جب سودی معیشت ڈوب رہی تھی، اسلامک بنکنگ Riskسے بالاتر تھی۔ پوری دنیا میں تقریباً 4ٹریلین ڈالر کی اسلامک بینکنگ میں سرمایہ کاری ہے۔ Mutual Fundsاور Sukukمیں سرمایہ کاری حلال ذرائع سے مستقل ماہانہ آمدن حاصل کی جاسکتی ہے۔ آخری بات جو نجم ولی کی خدمت میں پاکستان میں سود کے علاوہ بھی کچھ ہے جو غربت اور معاشی بحران کی وجہ ہے، وہ ہیں پاکستان کے حکمران، جن میں خاص طور پر میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف ہر دور میں سودی معیشت کے لئے جدو جہد کرتے ہوئے پائے گئے۔ اگر آصف علی زرداری کو شامل کریں تو کرپشن کی بھی داستانیں ملتی ہیں، جو پاکستان میں معاشی بحران کی وجہ ہیں، اگر سود کو ختم کرنے کے ساتھ کرپشن بھی ختم ہو جائے تو زکوٰۃ کے بغیر پاکستان کی سالانہ آمدن اتنی ہو گی جس سے وطن عزیز ترقی کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button