Editorial

بھارت کی آبی دہشت گردی

بھارت کو ابتدا سے ہی پاکستان کا وجود ہضم نہیں ہوا ہے۔ اُس نے کبھی دل سے اسے تسلیم نہیں کیا۔ وہ وطن عزیز کے خلاف پچھلے 75برس سے سازشوں میں مصروفِ عمل ہے۔ جنگیں مسلط کیں۔ ہربار منہ کی کھائی، ذلیل اور رُسوا، ہر جارحیت کا منہ توڑ جواب ملا اور بھاگنے پر مجبور ہوا۔ جنگوں کے حربے میں ناکامی کے بعد وطن عزیز میں اپنے ایجنٹوں کے ذریعے دہشت گردی کے منصوبے بنائے۔ کئی دہشت گرد حملے کروائے۔ اس کے دہشت گردوں کے نیٹ ورکس پکڑے گئے۔ بھارتی جاسوسوں نے اپنے خبثِ باطن کا اقرار کیا۔ بھارت کا مکروہ چہرہ دُنیا کے سامنے بے نقاب ہوا۔ اس کے بعد اس نے ڈس انفولیب کے ذریعے پاکستان سے متعلق جھوٹے پروپیگنڈے گھڑے۔ یہ نیٹ ورک بھی پکڑا گیا اور دُنیا بھر میں بھاگ کی جگ ہنسائی ہوئی۔ برصغیر پاک و ہند میں مون سون کی جب بھی بارشیں ہوتی ہیں اور تیز بارش ہوجائے اور اس سے بھارت میں تباہ کاری پھیلے تو یہ اس کے بداثرات سے پاکستان کو بھی دوچار کرنے کے لیے آبی دہشت گردی کا حربہ اختیار کرتے ہوئے اپنا پانی پاکستان کی جانب چھوڑ دیتا ہے، جس سے وطن عزیز میں سیلابی صورت حال جنم لیتی ہے اور بڑے نقصانات دیکھنے میں آتے ہیں۔ بڑی تعداد میں خلق خدا اس سے متاثر ہوتی ہے۔ یہ سلسلہ عرصۂ دراز سے جاری ہے۔ پاکستان اس حوالے سے بارہا اپنا احتجاج ریکارڈ کراچکا ہے، لیکن بھارت اپنی اس مذموم کوشش سے باز نہیں آتا۔ گزشتہ روز بھی اُس نے آبی جارحیت کا مظاہرہ کیا ہے۔ بھارت آبی جارحیت سے باز نہ آیا، دریائے راوی میں ایک لاکھ 85 ہزار کیوسک پانی چھوڑ دیا، پی ڈی ایم اے نے سیلابی صورت حال سے متعلق الرٹ جاری کر دیا۔ ترجمان کے مطابق بھارت نے185000کیوسک پانی اجھ بیراج سے دریائے راوی میں چھوڑا ہے۔ ریکارڈ کے مطابق پچھلے سال بھی بھارت نے173000کیوسک پانی چھوڑا تھا، آخری اطلاعات تک چھوڑے گئے پانی کا قریباً ایک تہائی یعنی60000کیوسک جسر تک پہنچا تھا، جس کی وجہ سے سیلاب کی نچلی سطح (دریائے راوی پر گیجنگ پوائنٹ) بنی تھی۔ ترجمان کے مطابق قریباً 65000 کیوسک اگلے 20سے 24گھنٹے کے اندر پہنچنے کی توقع ہے، جسر کے مقام پر دریائے راوی کی سیلابی حدود کے مطابق سیلابی میدانی علاقوں میں کم سیلاب متوقع ہے۔ پراونشل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی نے الرٹ جاری کرتے ہوئے کہا کہ دریائے چناب اور راوی سے منسلک نالہ جات میں آئندہ 48گھنٹے کے دوران اونچے درجے کے سیلاب کا اندیشہ ہے۔ ترجمان پی ڈی ایم اے کے مطابق دریائے راوی میں جسر کے مقام پر درمیانے سے اونچے درجے کا سیلاب متوقع ہے۔ ڈی جی پی ڈی ایم اے نے ہدایت کی ہے کہ دریائے راوی اور چناب سے منسلک تمام اضلاع میں ریلیف کیمپس کا قیام بروقت یقینی بنائیں، ممکنہ نشیبی علاقوں میں بسنے والے افراد اور مویشیوں کا انخلا بروقت یقینی بنایا جائے، تمام ادارے ہنگامی صورت حال کا سامنا کرنے کے لیے تیاریاں مکمل رکھیں، مشینری اور عملے کو ہائی الرٹ رکھا جائے، بروقت اقدامات کرکے ہی نقصانات سے بچا جاسکتا ہے۔ شہری دریائوں اور ندی نالوں کے قریب جانے سے گریز کریں۔ دوسری جانب ڈپٹی کمشنر گجرات کے مطابق دریائی چناب میں سیلاب کے باعث 59کے قریب دیہات متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔ ڈپٹی کمشنر گجرات نے بتایا کہ کوٹ غلام تا کوٹ نکا سیلاب سے متاثر ہوئے ہیں، دریائے چناب میں 1لاکھ 18 ہزار 43ہزار 692کیوسک پانی ریکارڈ کیا گیا، ہیڈ خانکی کے مقام پر اپ سٹریم 54404کیوسک اور ڈائون اسٹریم 47300 کیوسک پانی ریکارڈ کیا گیا۔ ادھر وفاقی وزیر برائے موسمیاتی تبدیلی شیری رحمان نے تمام سرکاری اور غیر سرکاری اداروں کو خبردار کیا کہ اگلے 24سے 48گھنٹوں کے دوران ملک بھر میں گرج چمک کے ساتھ تیز بارشوں کا امکان ہے، لہٰذا وہ چوکس اور تیار رہیں۔ ایک بیان میں انہوں نے کہا کہ ان بارشوں سے جو لوگ متاثر ہو سکتے ہیں ان کا تخمینہ9لاکھ لگایا گیا ہے۔ شیری رحمان نے خبردار کیا کہ سب سے زیادہ بارش پنجاب کے شہروں لاہور، نارووال اور سیالکوٹ میں ہوگی، دوسرے صوبوں کو بھی موسلادھار سے درمیانے درجے کی بارش کے لیے الرٹ کر دیا گیا ہی، جن شہروں اور میونسپل علاقوں میں لینڈ سلائیڈنگ کا خطرہ ہے، وہاں سیلاب کے الرٹ جاری کئے گئے ہیں۔ بھارت کی یہ آبی جارحیت ہر لحاظ سے قابل مذمت ہے۔ اس حوالے سے پاکستان کو عالمی فورم پر آواز بلند کرنے کی ضرورت ہے۔ بھارت کو آبی دہشت گردی سے باز رکھنے کے لیے ہر بین الاقوامی فورم پر بھرپور انداز میں اپنا احتجاج ریکارڈ کرایا جائے۔ دُنیا کو بتایا جائے کہ بھارتی آبی جارحیت ہمارے لاکھوں عوام کے لیے کسی عذاب سے کم نہیں ہوتی۔ اُن کی زندگی بھر کی جمع پونجی پلک جھپکتے میں ختم ہوجاتی ہے۔ بڑی تعداد میں انسانی جانوں کا ضیاع ہوتا ہے۔ دیہات کے دیہات صفحۂ ہستی سے مٹ جاتے ہیں۔ حقوق انسانی کے چیمپئن ممالک اور اداروں کو بھارت کا یہ ظلم کیوں دِکھائی نہیں دے رہا۔ وہ اس پر چپ سادھے کیوں بیٹھے رہتے ہیں۔ وہ کم از کم اس پر بھارت کی مذمت تو کرسکتے ہیں، اس میں کیا امر مانع ہے۔ یہ تمام سوالات جواب کے متقاضی ہیں۔ دوسری جانب ابھی سے ایسے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے کہ بھارتی آبی جارحیت کا وار بے کار جائے اور اُسے اپنے کیے کا خود خمیازہ بھگتنا پڑے۔ بھارت سیلاب کا رُخ پاکستان کی جانب موڑ کر دانستہ ملک عزیز کو آفت کا شکار بناتا ہے۔ ایسے اقدامات ناگزیر ہیں کہ بھارت کی جانب سے بھیجا گیا پانی پاکستان میں ذخیرہ ہوجائے۔ اس حوالے سے ان مقامات پر چھوٹے، بڑے آبی ذخائر تعمیر کیے جائیں، تاکہ بھارت کی جانب سے کی گئی یہ آبی جارحیت پاکستان کے حق میں بہتر ہوگا۔ یہ پانی ذخیرہ ہوجائے اور قلت کے دنوں میں قوم کے کام آئے۔ اس حوالے سے بلاتاخیر اقدامات کرتے ہوئے منصوبے ترتیب دینے کی ضرورت ہے۔ ان کو جلد از جلد پایۂ تکمیل کو پہنچایا جائے۔
چینی کی قیمت میں ہوش رُبا اضافہ
ملک عزیز کی تاریخ بحرانوں سے بھری پڑی ہے۔ یہاں بحران در بحران کی نظیریں تواتر کے ساتھ سامنے آتی رہتی ہیں۔ اشیاء خورونوش کا مصنوعی بحران پیدا کرکے اُن کے نرخوں میں من مانا اضافہ کرلیا جاتا ہے اور پھر وہ کبھی کم ہونے کا نام نہیں لیتا۔ آج قوم 150 فی کلو آٹا خرید کر کھانے پر مجبور ہے۔ زرعی ملک میں پچھلے مہینوں لگاتار آٹے کا بحران پیدا کیے رکھا گیا، ذخیرہ اندوز اور منافع خور دونوں ہاتھوں سے قوم کو لوٹتے رہے اور کوئی پوچھنے والا نہ تھا۔ اب عالم یہ ہے کہ ملک کے طول و عرض میں آٹا 150 روپے کلو فروخت ہورہا ہے اور آٹے کی اس ناجائز اور زائد قیمت وصول کرنے والوں کے خلاف کوئی کارروائی دیکھنے میں نہیں آرہی۔ اس ناجائز کمائی سے منافع خوروں اور ذخیرہ اندوزوں نے اپنی تجوریاں دھانوں تک بھر لی ہیں۔ اسی طرح ملک بھر میں پچھلے کچھ دنوں سے چینی کے نرخوں میں اضافے دیکھنے میں آرہے ہیں۔ کراچی میں 115 روپے کلو فروخت ہونے والی چینی کچھ ہی ایام میں 135 روپے تک پہنچادی گئی ہے۔ یہی حال کے پی کے اور بلوچستان میں بھی ہے۔ اسی حوالے سے تازہ اطلاع پنجاب سے آئی ہے۔ ’’جہان پاکستان’’ میں شائع ہونے والی خبر کے مطابق لاہور میں مختلف مقامات پر پرچون سطح پر چینی کی فی کلو قیمت 140 روپے تک پہنچ گئی۔ مارکیٹ ذرائع کے مطابق گزشتہ دس روز میں چینی کی قیمتوں میں زبردست اضافے کا رجحان دیکھا گیا ہے اور ہول سول میں 50 کلو چینی کے بیگ کی قیمت 6550 روپے تک پہنچ گئی۔ ذرائع کے مطابق دس روز قبل جو چینی 120 روپے کلو میں فروخت ہورہی تھی، وہ اب ہول سیل میں 131 روپے میں مل رہی جب کہ مختلف مقامات پر پرچون سطح پر دُکان دار 140 روپے فی کلو فروخت کررہے ہیں۔آخر عوام کی جیبوں پر نقب لگانے کا یہ سلسلہ کب تک چلے گا۔ کب بحران در بحران کے چنگل سے عوام کی جان چھوٹے گی۔ حکومت اور متعلقہ ادارے ذخیرہ اندوزوں اور منافع خوروں کے خلاف کب کارروائی کریں گے۔ یہ تمام سوالات جواب کے متقاضی ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ عوام سے لوٹ مار کا سلسلہ بہت ہوچکا۔ اب اس کی روک تھام کے لیے حکومت اور متعلقہ اداروں کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ سرکاری مقرر کردہ نرخ پر چینی اور آٹے کی فروخت یقینی بنانے کے لیے ملک بھر میں موثر حکمت عملی ترتیب دی جائے۔ ملک بھر میں منافع خوروں اور ذخیرہ اندوزوں کے خلاف کریک ڈائون کیا جائے۔ ان پر ناصرف بھاری جرمانے عائد کیے جائیں بلکہ ان کا مال ضبط بھی کیا جائے اور سخت سزا بھی دی جائے۔ سب سے بڑھ کر ان چھاپہ مار کارروائیوں کو اُس وقت تک جاری رکھا جائے جب تک منافع خوروں، ذخیرہ اندوزوں اور گراں فروشی سے سب تائب نہیں ہوجاتے۔ حکومت اگر ایسا کرنے میں کامیاب ہوگئی تو یہ عوام الناس کی بڑی خدمت میں شمار ہوگی۔

جواب دیں

Back to top button