Column

آبدوز اور کشتی حادثے سے ابھرتا دوہرا معیار

ایم شفیق

بحری جہاز ٹائی ٹینک کے تاریخی حادثے سے قبل بحری سفر کا انحصار ملاح پر ہوتا تھا، دوران سفر ملاح کو جہاز کے بلند ترین مقام پر بٹھا دیا جاتا تھا جو سامنے کا منظر دھیان سے دیکھتا رہتا اور عملے کو آگاہ کرتا رہتا تھا، بحری حادثوں کی تاریخ میں ٹائی ٹینک حادثے کو اب بھی سبقت حاصل ہے 111سال گزارنے کے باوجود آج بھی اسے تاریخ کا سب سے بڑا حادثہ سمجھا جاتا ہے، اس حادثے میں کم و بیش1500مسافر زندگی گنوا بیٹھے تھے، لیکن اس کیساتھ ساتھ یہ حادثہ بحری سفر کی تاریخ میں ایک سنگ میل کی حیثیت بھی رکھتا ہے کیونکہ اس حادثے کے بعد سے سمندری جہازوں میں حفاظتی انتظامات بہتر بنانے کی کوششوں کا آغاز ہوا، بحری جہازوں کی تعمیر میں بہتری اور جدت لائی گئی، ریڈار اور اس جیسے دیگر سائنسی آلات بھی اسی زمانے میں بنائے گئے، ایک بڑے حادثے نی دنیا کو بہت کچھ سیکھنے اور بہتر بنانے کی جانب گامزن کیا اور درحقیقت حادثات کی رونمائی انسان کو بہتر سے بہتر ین کی تلاش پر اکساتی ہے۔ ٹائی ٹینک سے جڑے حالیہ بحری حادثے نے ایک بار پھر دنیا کی توجہ اپنی جانب مبذول کرا لی ہے اور پوری دنیا میں یہ حادثہ موضوع بحث بنا ہوا ہے جس میں دو پاکستانیوں سمیت پانچ مسافر زندگی کی بازی ہار چکے ہیں، درحقیقت یہ ایک ایڈونچر مشن تھا جس میں ایک آبدوز کے ذریعے بحر اوقیانوس میں سمندر کی تہہ تک جانا تھا، یہاں غرقاب ہونے والے بحری جہاز ٹائی ٹینک کا ملبہ موجود تھا اور اس مقام کا سطح سمندر سے فاصلہ3800میٹر بتایا جاتا ہے، اس ایڈونچر کا اہتمام اوشین گیٹ نامی امریکی کمپنی نے کیا تھا، اس کمپنی کا بانی سٹاکٹن رش بھی اس سفر میں شامل تھا جبکہ دو برطانوی بزنس میں ہمیش ہارڈنگ، پال ہنری اور دو پاکستانی باپ بیٹا شہزادہ دائود اور سلیمان دائود بھی شریک سفر تھے، بلا شبہ ٹائی ٹین نامی آبدوز کے پانچوں مسافر دنیا کے نامور اور امیر ترین افراد میں گنے جا سکتے ہیں جو اس ایڈونچر میں اپنی زندگی گنوا بیٹھے، حادثہ افسوسناک ہے اور لواحقین کے ساتھ بھی ہمدردی ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ یہ صاحب ثروت لوگوں کا محض ایک شوق تھا جس کے لئے ڈھائی لاکھ ڈالر فی مسافر قیمت ادا کی گئی تھی۔ ٹائی ٹین آبدوز کے پانچ مسافر جب سے لا پتہ ہوئے تھے پوری دنیا میں ایک بھونچال آ گیا تھا، دنیا کے طاقتور ممالک کے ہوائی جہاز، بحری جہاز ، آبدوزیں، سائنسی مشینری، روبوٹ سمیت انواع اقسام کے آلات حرکت میں آ چکے تھے جو ان گمشدہ مسافروں کی تلاش میں دن رات ایک کئے ہوئے تھے، بلا شبہ انسانی ہمدردی کے تناظر میں دیکھا جائے تو یہ ایک عظیم انسانی رویہ نظر آئے گا، لیکن اس حادثے سے چند روز قبل بحیرہ روم میں سطح سمندر پر بھی ایک بحری حادثہ رونما ہوا تھا جس میں پانچ نہیں بلکہ پانچ سو سے زائد مسافر سمندر برد ہو گئے، یہی نہیں بلکہ اس حادثے کو رونما ہوتے کئی جہازوں نے دیکھا، یونانی کوسٹ گارڈز اور حکام، یورپی یونی کی سرحدی ایجنسی بھی کشتی کی بدحالی سے آگاہ تھی بلکہ یونانی کوسٹ گارڈز تو کئی گھنٹے قبل ہی کشتی کے قریب پہنچ چکے تھے اور اس کے ڈوبنے کا انتظار کرتے رہے، اسی طرح کئی جہاز اس ڈوبتی کشتی کے پاس سے گزرے جنہوں نے بدحال مسافروں کو خوراک اور پانی تو دیا لیکن ڈوبنے سے بچانے میں مدد نہ کی، اور یوں دیکھتے ہی دیکھتے پانچ سو سے زائد بد نصیب مسافر سمندر کی خوراک بن گئے، نہ کسی ملک کی نیوی حرکت میں آئی اور نہ ہی فضائیہ، یونان کے حکام کشتی کے ڈوبنے کا انتظار کرتے رہے جب مسافروں کی اکثریت سمندر برد ہو گئی پھر برائے نام ریسکیو آپریشن کرکے گنے چنے افراد کو بچالیا گیا۔ حالیہ دونوں بحری حادثوں نے دنیا کے طاقتور ممالک کے دوہرے معیار کو ایک بار پھر نمایاں رکے دکھا دیا ہے، پانچ افراد کے ریسکیو کیلئے دنیا بھر کے ذرائع جھونک دیئے گئے کیونکہ وہ مالدار لوگ تھے جبکہ پانچ سو سے زائد افراد کو مرنے کیلئے چھوڑ دیا گیا اور بے حسی کے ساتھ تماشا دیکھا گیا کیونکہ یہ غریب لوگ تھے جو روزگار کی تلاش میں دربدر تھے امریکہ، برطانیہ اور یورپی ممالک کو خود انسانی حقوق کا علمبردار سمجھتے ہیں درحقیقت انسانی حقوق کو پامال کرنے میں بھی سب سے آگے ہیں یونان کشتی حادثہ کے بعد ٹائی ٹین آبدوز حادثہ روز روشن کی طرح ان طاقتور ممالک کے اصلی چہرے بے نقاب کر گیا ہے، دوسری جانب وطن عزیز میں بھی دونوں حادثوں پر گہرا رنج و ملال پایا جاتا ہے، ٹائی ٹین آبدوز میں جہاں دو پاکستانی باپ بیٹا شامل تھے وہاں یونان کشتی حادثے میں سیکڑوں پاکستانیوں کے جاں بحق ہونے کے خدشات ہیں، یونان کشتی حادثے کو لیکر ملک میں انسانی سمگلروں کے خلاف کارروائیوں میں تیزی دیکھنے کو ملی ہے، غیر قانونی اقدامات کرنے والی انسانی سمگلروں کے خلاف قانونی کاروائی ضرور کی جائے لیکن اس کے ساتھ ساتھ ان عوامل کا بھی جائزہ لیا جائے کہ وہ کونسی وجوہات ہیں جن کی بنا پر پاکستانیوں کی اتنی بڑی تعداد ملک سے نکلنے کی تگ و دو کر رہی ہے اور اس کوشش میں وہ جان کی بھی پرواہ نہیں کر رہے، اگر ان حادثات سے ہم بہتر سے بہترین کی تلاش پر مائل ہوں تب ہی بہتری کی توقع کی جا سکتی ہے ورنہ خانہ پری کا ریسکیو آپریشن تو یونانی کوسٹ گارڈز بھی سرانجام دے چکے ہیں اور اسی طرح انسانی سمگلروں کے خلاف پاکستان میں بھی کارروائیاں کی جا رہی ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button