معیشت بحالی کیلئے ایپکس کمیٹی کا قیام، بروقت اقدام

معیشت کا پہیہ پچھلے چند سال سے جام سا دِکھائی دیتا ہے۔ صورت حال موافق نہ ہونے کے باعث صنعتیں بند ہورہی ہیں۔ ملکی و بیرونی کمپنیاں اپنے کاروبار سمیٹ رہی ہیں۔ بے روزگاری کا عفریت اپنی حشر سامانیاں بپا کررہا ہے۔ لاکھوں لوگ بے روزگار ہوچکے ہیں اور اس کی وجہ سے ان کے گھرانوں کے مالی حالات انتہائی ناگفتہ بہ ہے۔ معیشت کی بحالی کے لیے سابق حکومت میں کوئی سنجیدہ کوشش دِکھائی نہ دی، بلکہ اسے مزید مشکلات کے بھنور کی جانب دھکیلا گیا۔ اس کے ساتھ کھلواڑ کیا جاتا رہا، جس سے صورت حال وقت گزرنے کے ساتھ مزید گمبھیر ہوتی چلی گئی۔ ہماری معیشت پہلے ہی سانحۂ نائن الیون کے بعد 15سال جاری رہنے والی دہشت گردی سے بُری طرح متاثر تھی۔ اس سے وہ ناقابل تلافی نقصانات پہنچے، جن کو درست کرنے کی جانب پیش قدمی کی ابتدا ہوئی ہی تھی۔ حالات نے بہتر رُخ اختیار کرنا شروع ہی کیا تھا کہ 2018کے بعد اس نے مزید ترقی معکوس کی جانب سفر شروع کردیا۔ کرونا وبا نے بھی اپنی حشر سامانیاں بپا کیں۔ اس کے باعث تو دُنیا کی بڑی بڑی معیشتیں دھڑام سے نیچے آگری تھیں۔ پوری دُنیا کو مہینوں لاک ڈائون کا سامنا تھا۔ وطن عزیز میں بھی دو مہینے تک لاک ڈائون کیا گیا تھا۔ اس کے بعد معیشت کا پہیہ چلانے کے لیے اُس قسم کے اقدامات نہ کیے جاسکے، جس کی ضرورت تھی۔ اس کے علاوہ ملک کو سفارتی سطح پر تنہا کرنے کی مذموم سازش کی گئی۔ دوست ممالک کے ساتھ تعلقات خراب کرنے کی کوشش کی گئی۔ چین اور سعودی عرب کو ناراض کیا گیا۔ سی پیک ایسے گیم چینجر منصوبے پر کام کی رفتار کو ناصرف سست کیا گیا، بلکہ اسے ترک کرنے کے لیے بھی تمام تر حربے آزمائے گئے۔ سی پیک کو زک پہنچائی گئی۔ پاکستانی روپے کو بے قدری کی راہ پر ڈالا گیا۔ ڈالر سمیت غیر ملکی کرنسی کو یہاں مزید پنجے مضبوط کرنے کا راستہ دیا گیا۔ ناقص پالیسیوں کا تسلسل رہا۔ جس سے وہ نقصانات پہنچے، جو پچھلے 70برسوں میں بھی نہیں پہنچ سکے تھے۔ اس کے علاوہ عوام کو تاریخ کی بدترین مہنگائی کا سامنا کرنا پڑا۔ متوسط گھرانے غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہوئے۔ ہر شے کے دام آسمان پر پہنچادیے گئے۔ اس کی روک تھام کی خاطر کوئی اقدامات سامنے نہ آسکے۔ سابق حکومت رخصت ہوئی۔ موجودہ حکومت نے اقتدار سنبھالتے ہی معیشت کی بحالی اور استحکام کی جانب پیش قدمی شروع کی ۔ چند ایسے اقدامات سامنے آئے، جو سراہے جانے کے قابل ہیں۔ روس سے سستے خام تیل کی درآمد کا معاہدہ اور اس حوالے سے بڑی کھیپ کا پاکستان آنا یقیناً موجودہ حالات میں تازہ ہوا کے خوش گوار جھونکے کی مانند ہے۔ روس و دیگر ممالک سے سستے داموں ایل این جی اور ایل پی جی کے معاہدے راست فیصلے قرار پاتے ہیں۔ دوست ممالک کے ساتھ تعلقات کو پھر سے اعتبار اور مضبوطی عطا کی گئی اور چین و سعودی عرب وغیرہ اس مشکل گھڑی میں پاکستان کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں اور اس کو مشکلات کے بھنور سے نکالنے میں اپنا بھرپور حصّہ ڈال رہے ہیں۔ سی پیک پر کام کو پھر سے تیزی عطا کی گئی ہے۔ صنعتوں کو چلانے کے لیے کوششیں جاری ہیں۔ بعض ممالک کے بارٹر ٹریڈ کا معاہدہ کیا گیا ہے۔ ملکی و بیرونی سرمایہ کاروں کو سرمایہ کاری میں آسانی فراہم کرنے کے لیے اقدامات کیے جارہے ہیں۔ گزشتہ روز قومی معیشت کی بحالی کا پلان تیار کیا گیا تھا۔ ملکی معیشت کی بحالی کیلئے وزیراعظم نے مزید پیش رفت کرتے ہوئے ایپکس کمیٹی قائم کردی، ایپکس کمیٹی کی قیادت وزیراعظم شہباز شریف کریں گے، آرمی چیف اور عسکری حکام بھی ایپکس کمیٹی میں شامل ہوں گے، ذرائع نے بتایا کہ وزیر خزانہ، وزیر منصوبہ بندی، وزیر دفاع، وزیر دفاعی پیداوار کو بھی ایپکس کمیٹی میں شامل کیا گیا ہے جب کہ وفاقی وزیر فوڈ سیکیورٹی، وزیر انفارمیشن ٹیکنالوجی اور وزیر پٹرولیم و قدرتی وسائل بھی کمیٹی میں شامل ہوں گے، ذرائع نے بتایا کہ معاشی بحالی پر قائم ایپکس کمیٹی ملک میں بیرونی سرمایہ کاری پر فریم ورک تیار کرے گی، ایپکس کمیٹی پاکستان میں سرمایہ کاری میں دلچسپی رکھنے والے ممالک کے لئے سہولت کاری کرے گی، حکومتی ذرائع نے دعویٰ کیا ہے کہ 5بڑے ممالک نے پاکستان میں بھاری سرمایہ کاری میں دلچسپی ظاہر کردی ہے، ان ممالک میں سعودی عرب، یو اے ای، قطر اور بحرین پاکستان میں بھاری سرمایہ کاری کے لیے تیار ہیں، ایپکس کمیٹی ان ممالک کی پاکستان سرمایہ کاری کے امور کی مانیٹرنگ کرے گی، ایپکس کمیٹی آئندہ 3سال میں ان ممالک کی سرمایہ کاری کو یقینی بنائے گی، ایپکس کمیٹی اسپیشل انویسٹمنٹ فسیلیٹیشن کونسل کے فیصلوں پر عملدرآمد کروائے گی۔ دوسری جانب نجی ٹی وی کے مطابق وزیراعظم نے ایپکس کمیٹی کی تشکیل کے ساتھ ایگزیکٹو کمیٹی اور امپلی منٹیشن کمیٹی بھی تشکیل دے دی ہے۔ ایگزیکٹو کمیٹی کی سربراہی وفاقی وزیر منصوبہ بندی کریں گے جبکہ امپلی منٹیشن کمیٹی کی سربراہی وزیراعظم کے معاون خصوصی کریں گے، ایپکس کمیٹی کا اجلاس ہر تین ماہ بعد ہوا کرے گا، ایگزیکٹو کمیٹی کا اجلاس ہر ماہ جبکہ امپلی منٹیشن کمیٹی کا اجلاس ہر پندرہ دن بعد ہوگا۔ ذرائع کے مطابق اسپیشل انویسٹمنٹ فیسلی ٹیشن کونسل کی امپلی منٹیشن کمیٹی کا اجلاس آج طلب کیا گیا ہے، امپلی منٹیشن کمیٹی بیرونی سرمایہ کاری سے متعلق لائحہ عمل تیار کرے گی، خلیجی ممالک کے ساتھ سرمایہ کاری کے جاری منصوبوں پر غور کیا جائے گا۔ امپلی منٹیشن کمیٹی آئل ریفائنری پالیسی پر سفارشات مرتب اور ایئرپورٹس میں بیرونی سرمایہ کاری سے متعلق امور پر بھی غور کرے گی، امپلی منٹیشن کمیٹی فوری نوعیت کی سرمایہ کاری کے منصوبوں پر روڈ میپ تیار کرے گی۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ امپلی منٹیشن کمیٹی ترجیحی منصوبوں کی شارٹ لسٹ بھی کرے گی، منصوبوں میں گرین فیلڈ آئل ریفائنری لگانے سے متعلق بھی غور ہو گا، وفاقی حکومت کو منصوبے کے تحت 5سال میں 100بلین ڈالر سرمایہ کاری کی امید ہے۔ تمام کمیٹیوں کے نوٹیفکیشن اور ٹی او آروز بھی جاری کر دیئے گئے ہیں۔ معیشت کی بحالی لیے ایپکس کمیٹی کا قیام راست اور بروقت فیصلہ ہے۔ معیشت کی بحالی کے اقدامات پر حکومت کی تعریف نہ کرنا ناانصافی کے زمرے میں آئے گا۔ ضروری ہے کہ ملک میں سرمایہ کاری کے لیے حالات کو موافق بنایا جائے۔ بیرونی سرمایہ کاروں کو اعتماد دیا جائے کہ پاکستان میں ان کی سرمایہ کاری محفوظ اور اُن کے لیے کارآمد ثابت ہوگی۔ ماہرین کی آرا کی روشنی میں معیشت کی بحالی کے لیے مزید اقدامات کیے جائیں کہ یہ اس حوالے سے مزید بڑے فیصلوں کی متقاضی ہے۔ ملک بے پناہ وسائل سے مالا مال ہے، ان پر انحصار کی پالیسی اختیار کی جائے اور قرضوں سے مستقل نجات حاصل کرنے کی جانب قدم بڑھائے جائیں۔
انسانی اسمگلنگ، روک تھام ناگزیر
یونان کشتی حادثے کی صورت ایسے سانحے نے جنم لیا ہے، جس کی تلخ یادیں قوم کبھی فراموش نہیں کرسکے گی۔ 300سے زائد پاکستانی اس سانحے میں اپنی جان سے گئے، صرف 12کو بچایا جاسکا۔ اس سانحے اور اس جیسے واقعات کی وجہ غیر قانونی انسانی اسمگلنگ ہے، جو عرصۂ دراز سے جاری ہے۔ لوگ سنہرے مستقبل کی آس میں بیرون ملک جانے کی جستجو کرتے ہیں، جائز طریقے آزماتے ہیں، لیکن مُراد بر نہیں آتی تو پھر وہ غیر قانونی طریقے سے بیرون ملک جانے کی کوشش میں مصروف ہوجاتے ہیں۔ ایسے نوجوان انسانی اسمگلنگ کے گھنائونے دھندے میں ملوث عناصر کے لیے آسان ہدف ہوتے ہیں، وہ انہیں اپنے چُنگل میں پھنساتے، ان سے لاکھوں روپے وصول کرتے ہیں اور پھر ناجائز ذرائع استعمال کرتے ہوئے ان کے بیرون ملک سفر کا بندوبست کرتے ہیں۔ ایسے سفر خطرات سے خالی نہیں ہوتے اور بعض نوجوان ان کے دوران ہی اپنی زندگی سے محروم ہوجاتے ہیں۔ بعض بیرون ملک کے قانون کی گرفت میں آجاتے ہیں، ان میں سے بہت ہی تھوڑے ہوتے ہیں، جن کی خواب پورے ہوپاتے ہیں۔ ہمارے ملک کے شہریوں کی بڑی تعداد غیر قانونی طریقے سے بیرون ملک جاتی ہے اور انسانی اسمگلرز اس کے ذریعے بیش بہا دولت کماتے ہیں۔ یہ گھنائونا دھندا آج بھی پوری شدومد سے جاری ہے اور عظیم سانحات کی وجہ بنتا رہتا ہے۔ یونان کشتی حادثے کے بعدسے ملک کے طول و عرض میں انسانی اسمگلنگ میں ملوث افراد کے خلاف سخت کریک ڈائون جاری ہے۔ کئی کو گرفتار کیا جاچکا ہے اور جو بچے ہوئے ہیں، اُن کی گرفتاری کے لیے کارروائیاں جاری ہیں۔ ان کارروائیوں کے باعث بعض ملزمان کے بیرونِ ملک فرار ہونے کی بھی اطلاعات ہیں۔انسانی اسمگلرز کے 51ہزار 455پاکستانیوں کو ایران، افغانستان کے زمینی راستے سے غیر قانونی طور پر بیرونِ ملک بھجوانے کا انکشاف ہوا ہے، 112انتہائی مطلوب انسانی اسمگلرز تاحال قانون کی گرفت سے دُور، اسمگلرز کے خلاف 644مقدمات درج کیے جاچکے ہیں، انتہائی مطلوب اسمگلرز میں 7خواتین بھی شامل،32انتہائی مطلوب انسانی اسمگلرز بیرونِ ملک فرار، انٹرپول سے ریڈ وارنٹ جاری ہوچکے ہیں۔ نجی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق قانون نافذ کرنے والے اداروں نے 968بار مداخلت کرکے انسانی اسمگلنگ کی کوشش کو روکا، سال 2022میں 1273انسانی اسمگلرز قانون کی گرفت میں آئے، 253اسمگلرز کو سزا ہوئی، اداروں نے پاکستان میں انسانی اسمگلنگ کے لیے بلوچستان کے سات راستوں کی نشان دہی کی۔ انسانی اسمگلرز بلوچستان میں پنجگور، زمران، جلاگی، نوشکی، گوادر، مشخیل، چمن کا انتخاب کرتے ہیں۔ سال 2021میں 14 ہزار سے زائد انکوائریز رجسٹرڈ ہوئیں،412کیس درج ہوئے۔ یہ انسانی اسمگلر 51ہزار 455پاکستانیوں کو ایران، افغانستان کے زمینی راستے سے غیر قانونی طور پر بیرون ملک بھیج چکے ہیں۔ ایف آئی اے نے مختلف زونز میں پچھلے تین سال میں 9ہزار سے زائد انسانی اسمگلنگ کے کیس درج کیے۔ یہ حقائق لمحۂ فکریہ ہونے کے ساتھ تشویش ناک بھی ہیں۔ انسانی اسمگلنگ کی روک تھام ناگزیر ہے۔ یہ ملک مزید کسی ایسے سانحے کا ہرگز متحمل نہیں ہوسکتا۔ ضروری ہے کہ انسانی اسمگلرز کے خلاف ملک بھر میں کریک ڈائون کو اُس وقت تک جاری رکھا جائے جب تک ان کا مکمل خاتمہ نہیں ہوجاتا۔ معاشرے کو ان عناصر سے مکمل پاک کیا جائے، اس کے سوا کوئی چارہ بھی نہیں۔