صوبہ پنجاب کا ٹیکس فری بجٹ

عوام دوست حکومتیں لوگوں کی بہتری کے لیے کوششیں کرتی ہیں۔ اُن کا مطمع نظر عوام کے مصائب اور مشکلات میں کمی لانا ہوتا ہے اور وہ اس کے لیے اقدامات ممکن بناتی ہیں۔ کون نہیں جانتا کہ پچھلے پانچ سال سے ملک عزیز کے عوام تاریخ کے انتہائی کٹھن دور سے گزر رہے ہیں۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ اُن کی مشکلات دوچند ہوتی چلی جارہی ہیں۔ ماضی میں دیکھا جائے تو وفاقی اور صوبائی بجٹ عوام کے لیے ڈرائونے خواب ثابت ہوتے رہے ہیں، جن میں مہنگائی کے طوفان غریبوں کا سب کچھ بہاکر لے جاتے ہیں۔ اس بار صورت حال اس سے یکسر مختلف دِکھائی دے رہی ہے۔ مرکزی حکومت نے گزشتہ دنوں اپنا بجٹ پیش کیا تھا، جس میں تنخواہوں میں 35اور پنشن میں 17.5فیصد اضافہ کیا تھا۔ کم از کم آمدن 32ہزار مقرر کی گئی تھی۔ اس بجٹ کو غریب اور کاروبار دوست بجٹ قرار دیا گیا۔ اس تناظر میں صوبائی حکومتوں کی جانب سے بھی پیش کیے جانے والے بجٹوں میں عوام کو ریلیف دینے کی توقع کی جارہی تھی۔ سندھ حکومت کی جانب سے بجٹ پیش کیا جاچکا ہے، اس میں بھی صوبے کے عوام کے لیے بڑے فیصلے سامنے آئے۔ آبادی کے لحاظ سے ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کا بجٹ بھی گزشتہ روز پیش کردیا گیا، جس میں عوامی مفاد میں راست فیصلے دیکھنے کو مل رہے ہیں۔ پنجاب کی نگراں حکومت نے ٹیکس فری بجٹ پیش کیا ہے، جس میں تنخواہوں میں 30اور پنشن میں 5فیصد اضافہ کیا گیا ہے۔ ریٹائرڈ ہونے والے ملازمین کو اپنی ریٹائرمنٹ کے ایک سال بعد تک تنخواہ کا 65فیصد ملتا رہے گا۔ محکمہ خزانہ پنجاب کی جانب سے آئندہ مالی سال کا بجٹ نگراں کابینہ سے منظوری کے بعد پیش کردیا گیا۔ آئین کے آرٹیکل 126کے تحت محکمے کی جانب سے نگراں حکومت کے زیر نگرانی 4 ماہ کا بجٹ پیش کیا گیا ہے، جو یکم جولائی 2023ء سے 30اکتوبر 2023 تک کے لیے ہے۔ بجٹ میں 4ماہ کے اخراجات کا کُل تخمینہ 1719.3ارب روپے لگایا گیا ہے، جس میں 881ارب روپے کے محصولات وفاق کی جانب سے جب کہ صوبے کے ذاتی محصولات کی مد میں 194 ارب روپے اکٹھے کیے جائیں گے۔ بجٹ کے نمایاں خدوخال میں، تعلیم اور صحت کے بجٹ میں 31فیصد اضافہ، سرکاری ملازمین کی بنیادی تنخواہوں میں 30 فیصد اضافہ، آئی ٹی انڈسٹری سے تمام صوبائی ٹیکسز کا خاتمہ، ایک ارب روپے سے جرنلسٹ انڈوومنٹ فنڈ کا قیام، سماجی بہبود کی مد میں 70 ارب روپے کی خطیر رقم اور خدمات کی فراہمی کے لیے 120.4ارب روپے کی تخصیص شامل ہے۔ بجٹ میں کوئی نیا ٹیکس نہیں لگایا گیا۔ اسٹیمپ ڈیوٹی کی شرح میں 3فیصد اضافے کی تجویز کو مسترد کرتے ہوئے اسٹیمپ ڈیوٹی کو 1 فیصد پر برقرار رکھا گیا ہے۔ توانائی کے شعبے میں 16.4ارب روپے کی کیپیٹل انویسٹمنٹ جب کہ زرعی شعبے کی ترقی کے لیے 47.6 ارب روپے کی منظوری لی گئی ہے۔ سیکریٹری خزانہ مجاہد شیر دل نے بتایا، بجٹ میں مہنگائی پر کنٹرول کے لیے بلاک ایلوکیشن رکھی گئی ہے۔ پنجاب حکومت گندم کی خریداری کی مد میں بینکوں سے لیے گئے 600 ارب روپے کے قرضوں کی ادائیگی کے سلسلے کا بھی آغاز کرچکی ہے، جس کی وجہ سے صوبائی خزانے کو روزانہ کی بنیاد پر 25 کروڑ روپے کے سود کا سامنا تھا۔ پُرامید ہیں کہ آئندہ چار ماہ میں یہ قرض ادا کردیا جائے گا۔ پنشن کی مد میں 60 تا 80 سال تک کی عمر میں 5 فیصد جب کہ 80 سال سے اوپر کے ریٹائرڈ ملازمین کی پنشن میں قریباً 20 فیصد اضافے کی وضاحت کرتے ہوئے سیکریٹری خزانہ نے بتایا کہ پہلے ریٹائرڈ ہونے والے ملازمین کی تنخواہ ان کی ریٹائرمنٹ کے دن سے بند کردی جاتی تھی، جس کے بعد انہیں ایک سے ڈیڑھ سال کا عرصہ پنشن کی دستاویزات کی تیاری میں لگتا تھا، اس دوران انہیں تنخواہ ملتی تھی نہ پنشن، لیکن آج محکمہ خزانہ پنجاب حکومت کی منظوری سے ایک نوٹیفکیشن جاری کرنے جارہی ہے، جس کے بعد ریٹائرڈ ہونے والے ملازمین کو اپنی ریٹائرمنٹ کے ایک سال بعد تک تنخواہ کا 65فیصد حصہ ملتا رہے گا۔ اس بار عوامی بہبود کے لیے ٹارگٹڈ ریلیف دیا جائے گا، جو ضروری نہیں آٹے کی شکل میں ہو، وہ کیش ٹرانسفر بھی ہوسکتا ہے، کیونکہ اشیاء خورونوش پر سبسڈی لانگ ٹرم نہیں ہوتی۔ ادھر نگراں وزیر اطلاعات و ثقافت عامر میر نے بھی نگراں وزیر صنعت و تجارت ایس ایم تنویر کے ساتھ پریس کانفرنس کرتے ہوئے بتایا کہ پنجاب کے بجٹ میں کوئی نیا ٹیکس نہیں لگایا گیا۔ پنجاب میں 4800 جاری اسکیموں میں سے 2500 ترقیاتی اسکیمیں اگلے 4 ماہ میں مکمل کرلی جائیں گی۔ پنجاب کے بجٹ میں کوئی نیا ٹیکس شامل ہے نہ کوئی ایسی نظیر دِکھائی دیتی ہے، جس سے غریب عوام کے مصائب میں اضافے کا پہلو نکلتاہو۔ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور پنشن میں معقول اضافہ کیا گیا ہے۔ نگراں حکومت پنجاب نے اپنے مینڈیٹ سے بڑھ کر بجٹ پیش کیا ہے، جس پر اُس کی تعریف نہ کرنا ناانصافی کے زمرے میں آئے گا۔ سرکاری ملازمین کو ریٹائرمنٹ کے ایک سال بعد تک تنخواہ کا 65 فیصد حصّہ ملنے کا فیصلہ بلاشبہ بڑا اور لائق تحسین ہے۔ 600 ارب کے قرضوں کو 4 ماہ کی مدت میں اُتارنے کا اقدام بھی قابل تحسین قرار پاتا ہے۔ ماضی میں کبھی بھی حکومتوں نے تعلیم اور صحت کے بجٹ میں اضافے پراس طور توجہ نہ دی، جس کی ضرورت ہے، اس لیے اس حوالے سے مسائل بڑھتے رہے، صحت کی صورت حال بگڑتی رہی، تعلیم کے حوالے سے بھی حالات ابتر ہوتے چلے گئے۔ اس بار نگراں حکومت پنجاب نے تعلیم اور صحت کے بجٹ میں 31 فیصد اضافہ کرکے عوام کے دل جیت لیے ہیں۔ یہ عظیم کارنامہ ہے۔آئی ٹی انڈسٹری سے ٹیکس کا خاتمہ سراہے جانے کے قابل ہے۔ یہ اقدام اس صنعت کی ترقی کے لیے ٹانک ثابت ہوگا۔ ایک ارب روپے کا جرنلسٹ انڈوومنٹ فنڈ کا قیام عظیم فیصلہ قرار پاتا ہے۔ اسٹیمپ ڈیوٹی کی شرح 1 فیصد برقرار رکھنا بھی احسن قدم ہے۔ توانائی اور زراعت کی ترقی کے لیے رقم مختص کرنے سے اچھے ثمرات برآمد ہوں گے۔ مہنگائی پر قابو کے لیے اقدام لائق تحسین ہے۔ عوام کو ٹارگٹڈ سبسڈی دینے کا فیصلہ سب سے زیادہ سراہے جانے کے قابل ہے۔ 4800 میں سے 2500 جاری ترقیاتی اسکیموں کو 4 ماہ کی مختصر مدت میں مکمل کرنے کا اقدام نگراں حکومت کی شبانہ روز کوششوں کو ظاہر کرتا ہے۔ مجموعی طور پر صوبہ پنجاب کے بجٹ کو عوام دوست قرار دیا جائے تو ہرگز غلط نہ ہوگا۔ اس کے دوررس ثمرات برآمد ہوں گے اور خلق خدا کی بڑی تعداد اس سے مستفید ہوسکے گی۔
بجلی لوڈشیڈنگ، مستقل حل نکالا جائے
گزشتہ دو عشروں سے پاکستان توانائی بحران کی لپیٹ میں ہے۔ موسم گرما میں جب ایک طرف سورج آگ برساتا ہے تو دوسری جانب بجلی کی لوڈشیڈنگ کا عذاب عوام الناس کی زندگی مشکل بنا دیتا ہے۔ دن ہو یا رات، بجلی بندش کا قہر شہریوں پر نازل رہتا ہے۔ مسئلہ دراصل یہ ہے کہ بجلی کی پیداوار اور اس کی کھپت میں توازن آج تک قائم نہیں ہوسکا ہے۔ بجلی کی کھپت زیادہ ہے جب کہ پیداوار کم، اس میں توازن پیدا ہونے پر صورت حال بہتر رُخ اختیار کر سکتی ہے۔ مسلم لیگ ن کی سابق حکومت میں 2018ء میں لوڈشیڈنگ کا عفریت پر قابو پالیا گیا تھا، عوام نے اس پر سُکھ کا سانس لیا تھا، پھر آئندہ برسوں میں حکومت کی لاپروائی اور غفلت کے باعث یہ بحران شدید سے شدید تر ہوتا چلا گیا۔ اس پر قابو پانے کی چنداں کوششیں نہ کی گئیں۔ اب صورت حال یہ ہے کہ موسم گرما میں پورے ملک میں لوڈشیڈنگ کی نشتر برس رہے ہیں۔ شدید گرم موسم میں عوام بے حال ہیں۔ گھروں میں بزرگوں ، بچوں اور خواتین کو بے پناہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ بجلی لوڈشیڈنگ سے متعلق ’’ جہان پاکستان’’ میں شائع ہونے والی خبر کے مطابق ملک میں بجلی کا بحران بڑھنے لگا، شہری علاقوں میں 6سے 8گھنٹے جب کہ دیہی علاقوں میں لوڈشیڈنگ کا دورانیہ 10سے 12گھنٹے تک ہوگیا۔ شہریوں کا جینا محال ہونے لگا۔ تاجر بھی متاثر ہیں۔ پاور ڈویژن ذرائع کے مطابق ملک میں بجلی کی مجموعی پیداوار 19ہزار 2سو میگاواٹ، طلب 26ہزار 8سو میگاواٹ اور شاٹ فال 7ہزار 6سو میگاواٹ ہے جب کہ طلب اور رسد میں فرق کے باعث لوڈشیڈنگ کا دورانیہ 12 گھنٹے تک پہنچ گیا۔ پاور ڈویژن ذرائع کے مطابق پانی سے بجلی کی پیداوار 5ہزار 7سو میگاواٹ، پرائیویٹ بجلی گھروں سے 10ہزار 4سو، تھرمل سے ایک ہزار میگاواٹ جب کہ ونڈ، سولر اور نیو کلیئر پاور پلانٹس سے بجلی کی پیداوار 21سو میگاواٹ ہے۔ بجلی لوڈشیڈنگ کی موجودہ صورت حال میں ضروری ہے کہ بجلی کی پیداوار اور کھپت میں توازن پیدا کرنے کے لیے راست اقدامات کیے جائیں۔ بجلی کی پیداوار کے سستے ذرائع پر تمام تر توجہ مرکوز کی جائے۔ ہوا، سورج اور پانی سے بجلی کے حصول کے زیادہ سے زیادہ منصوبے لگائے جائیں۔ ان کو شفافیت کے ساتھ مکمل کیا جائے۔ خواہ چھوٹے ہوں یا بڑے، زیادہ سے زیادہ آبی ذخائر تعمیر کیے جائیں۔ ان پر خاص توجہ دی جائے کہ آئندہ وقتوں میں ناصرف ان کی بدولت پانی کے بحران کی صورت حال سے نمٹنے میں مدد ملے گی، بلکہ توانائی کے قلت کے حل کی کلید بھی یہی ثابت ہوں گے۔ بس اس ضمن میں نیک نیتی کے ساتھ بڑھانے کی ضرورت ہے، جن کے ثمرات آئندہ وقتوں میں ظاہر ہوں گے۔