ColumnQaisar Abbas

منی مرگ

قیصر عباس صابر

پاکستان سیاحت کے حوالے سے بہت ہی کمال کا ملک ہے جہاں پچاس درجہ حرارت کی گرمی اور منفی پچاس پر برف کے بستر بیک وقت موجود ہیں ۔ جہاں ایک ہی وقت میں بہار اور خزاں بھی ہے، سیلاب اور خشک سالی بھی ۔ پاکستان کے ایک حصے میں درختوں سے پیلے پتے گر رہے ہوتے ہیں اور دوسرے حصے میں نئی کونپلیں جنم لیتی ہیں ۔ گلگت بلتستان کی ہر گزرگاہ ایک تیز رو ندی کے کنارے بنی ہے اور پھر یہ ندیاں دریا بنتی ہیں ۔ ان تمام دریائوں کو دریائے اباسین اپنے وجود میں سمو کر سمندر تک پہنچا دیتا ہے۔ دریائوں کے نام ان گنت اور پانی کی رنگت الگ الگ ہے ۔ بڑے بڑے دریائوں کے نام لئے جائیں تو دریائے گلگت ، غذر ، یاسین ، سیوق ، برالدو ، شگر ، خپلو ، ہنزہ ، رائے کوٹ ، استور ، نلتر ، تریشنگ اور بے شمار ندیاں دریائے سندھ کا حصہ بنتی ہیں۔ اب کی بار ہمارا سفر دریائے استور کے ساتھ ساتھ تھا ۔ آئیے آپ کو بھی ساتھ لے چلیں۔ قراقرم ہائی وے پر چلاس کی طرف سے جاتے ہوئے گھنٹہ بھر کی آسان مسافت کے بعد گلگت روڈ پر جگلوٹ سے 14کلومیٹر پہلے استور کی جانب اترے تو دریائے سندھ میں استور دریا شامل ہو رہا تھا ۔ پختہ اور کھلی سڑک دریا کنارے ہماری رہنمائی کرتی گئی اور ہم چھوٹی چھوٹی بستیوں سے گزر کر استور کی داخلی چیک پوسٹ تک پہنچ گئے۔ ترشنگ ، روپل ، دیوسائی ، چلم ، منی مرگ اور دومیل جانے والے سیاح سطح سمندر سے بتیس سو فٹ بلند استور شہر میں داخل نہیں ہوتے، اس لئے ہم بھی شہر کو بائی پاس کرتے ہوئے بیس کلومیٹر دور استور کے بیرونی گاں گوری کوٹ کی 2351میٹر بلندی پر پہنچ گئے، استور سے گوری کوٹ تک عیدگاہ اور فینا کی بستیاں راستے میں آئیں۔ جہاں ڈپٹی کمشنر استور ذوالقرنین سواگ نے بے نظیر پیلس میں ہمارے لئے فور بائی فور جیپوں کا بندوبست کر رکھا تھا اور ڈی سی آفس کا نمائندہ ہمارا منتظر تھا۔گوری کوٹ سے نکلے تو ترشنگ نالے کو عبور کیا ، یہیں سے ایک راستہ پاکستان کے دلکش گائوں ترشنگ کی طرف جاتا ہے جو نانگا پربت کے روپل چہرے اور لاتوبو تک لے جاتا ہے اور دوسرا راستہ چلم چوکی کی طرف مڑ جاتا ہے، سو ہم چلم کی طرف مڑ گئے ۔ اسی مقام پر دو ندیاں باہم ملتی ہیں۔ ترشنگ سے آنے والی ندی کا پانی گہرے اور گدلے رنگ کا ہے جبکہ چلم کی طرف سے آنے والی ندی شفاف ہے۔ گلٹر ، پکوری داس ، میکال ، پکوڑا ، کشنٹ ، خومیداس ، گدائی ، آئیگاہ ، خرام اور داس بالا کی آبادیاں راستے میں پڑتی ہیں جہاں پر چھوٹی چھوٹی دکانیں بھی موجود ہیں اور علاقہ بھی سنسان نہیں ہے۔ چلم بستی کے گھر لکڑی کے روایتی مکانات پر مشتمل ہیں اور ایک چھوٹا سا بازار بھی ہے۔ چلم سے ایک راستہ بائیں جانب اٹھتا ہے جو مرتضی چوکی اور شیوسر جھیل سے ہوتا ہوا دیوسائی اور
پھر سکردو تک جاتا ہے۔ دیوسائی کی برف اس سال جون کے پہلے ہفتے میں بھی پگھلی نہیں تھی ، اس لئے یہ راستہ بند تھا۔ چلم فوجی چیک پوسٹ کے حوالے سے مشہور ہے اور ایک نیم فوجی علاقہ ہے۔ چیک پوسٹ پر تین سائن بورڈ نصب ہیں جن پر سیاحوں کی رہنمائی کے لئے ہدایات درج ہیں۔ ہم چیک پوسٹ پر رک گئے جہاں پر ہر سیاح سے منی مرگ جانے کا این او سی طلب کیا جارہا تھا ۔ دن بھر کی سیاحت کے بعد سہ پہر چار بجے تک لوٹ آنے والوں کے لئے ذرا نرمی تھی اور شب بسری کرنے والوں کو کچھ سیکیورٹی مراحل سے گزرنا پڑتا تھا۔ عام سیاح ڈپٹی کمشنر دفتر سے اجازت لے کر پاک فوج کے مقامی میس سے مہر لگواتے ہیں۔ ہم چھ بچوں اور چار خواتین سمیت کل 14آوارہ گرد ڈپٹی کمشنر استور ذوالقرنین سواگ کے مہمان تھے اور اسسٹنٹ کمشنر شونٹر احسان الحق نے ہمارے لئے منی مرگ میں رہائش کا اہتمام کر رکھا تھا۔ چلم چوکی سے ہماری جیپیں آگے بڑھیں تو حیران کن مناظر نے ہمیں حیرت کے اک نئے جہان سے روشناس کرانا شروع کیا۔ سردار چوکی کی 3596میٹر بلندی سے لے کر ناصر کیمپ تک شہدا کی یادگاریں اور تصاویر سر راہ آویزاں ہیں۔ یہ برزل پاس کی چڑھائیاں تھیں جن پر ان گنت رنگوں کے پھول تھے اور پھولوں پر اڑتی تتلیوں کے رنگ چھوٹے چھوٹے پھولوں کی پنکھڑیوں جیسے تھے۔ برزل ٹاپ کے تیرہ ہزار آٹھ سو آٹھ فٹ بلندی پر ایستادہ برف کے انباروں کی کہانیاں الگ تحریر کی متقاضی ہیں اور ابھی ہم نے ناصر کیمپ کے بعد کی اترائیاں اور منی مرگ کے حسن کو بیان کرنا ہے۔ ہماری جیپیں چلم چوکی سے دو گھنٹے کا سفر طے کر کے منی مرگ میں داخل ہوئیں تو فوجی عمارتیں اور دفاتر ہمارے سامنے آئے، بلندی کی طرف کیفے کی شاندار عمارت ہے اور اترائی کی جانب منی مرگ کی آبادی ہے جن کے مکان لکڑی سے بنے ہیں۔ انہی مکانوں میں پی ڈبلیو ڈی کا وہ شاندار ریسٹ ہائوس ہے جس میں ہم مہمان بننے والے تھے۔ ریسٹ ہائوس کے دو کمروں میں ضرورت کی تمام اشیا موجود تھیں اور بجلی کی فراہمی بھی جاری تھی مگر پانی کا پائپ کم پریشر کی وجہ سے غسل خانوں تک پانی پہنچانے میں ذرا کمزوری دکھا رہا تھا، اس لئے ہم نے صحن میں اگ چکی بے ترتیب گھاس میں گم ہو چکے پائپ کو تلاش کیا اور پانی کی بالٹیاں بھر کر ضروریات پوری کیں۔ منی مرگ کے نائب تحصیلدار عبدالمجید اور پٹواری رحیم اللہ اپنی ٹیم کے ساتھ موجود رہے اور ہماری ضروریات کا خیال رکھا۔ منی مرگ میں سول رہائش گاہ صرف یہی تھی۔ منی مرگ میں لوگ کاشت کاری کرتے ہیں اور طلوع صبح سے پہلے اپنے کام شروع کر دیتے ہیں۔ ہمارے ریسٹ ہائوس کے سامنے میڈوز میں جو مویشی چرتے تھے ان میں چند یاک بھی تھے ۔ ٹریکٹر سے ہل چلانے کا انداز میدانی علاقوں جیسا ہے ۔ میں نے صبح سویرے گائوں میں نکل کر دیکھا تو فوجی جوان اپنے ٹرکوں میں ڈیزل بھر رہے تھے اور کچھ اپنی چائے کی کیتیلیاں اٹھائے چولہوں کی طرف جا رہے تھے۔ فوجی رہائش گاہوں سے پراٹھے بننے کی آواز اور خوشبو بتاتی تھی کہ گھر سے دور رہنے والے ہاتھ اب اناڑی نہیں رہے۔ شام ہوئی تو جیپیں ہمیں منی مرگ کی بلندی پر تعمیر ہوئے فرانسیسی نام والے کیفے ڈی مونٹاگنا (Montagna)لے گئیں۔ جہاں پر خوبصورت ہال کے سامنے دو ندیاں دیوسائی ٹاپ سے اتر رہی ہیں جن کا شور اور منظر دینا کا دلکش ترین تحفہ ہے۔ کیفے کے لان میں بون فائر کے گرد ایک فن کار گٹار بجا رہا تھا اور حسین ترین وادی میں ان مدھر سروں نے ہم سب کو باہر بلا لیا۔ سیاحت کے بیس سالہ عرصے میں سب سے شاندار کھانا منی مرگ میں کیفے ڈی مونٹاگنا کا تھا۔ پانچ ستارہ ماحول میں سیون سٹار ڈنر کا لطف اس وقت دو بالا ہوا جب 14افراد کے دو ڈشز پر مشتمل کھانے کا بل پانچ ہزار روپے ملا۔ کیفے منیجر عامر محمود سے کم بل کا سبب پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ پاک فوج نے کنٹرول ریٹ لگانے کا حکم دے رکھا ہے اور مقدار بھی کم نہیں ہوتی ۔ ناشتہ اس سے بھی بڑھ کر لذیذ تھا۔ منی مرگ ہربل ادویات میں استعمال ہونے والی قیمتی جڑی بوٹیوں کے حوالے سے اہم گائوں ہے ۔پہاڑی سلسلہ ہمالیہ میں موجود منی مرگ طرفین سے سرحدی گائوں ہونے کی وجہ سے اہمیت کا حامل ہے ۔ دیوسائی، ڈومیل، ناگائی، قمری، دودگائی اور زینکال کی وادیوں میں گھرا یہ گائوں کارگل کی گزر گاہ بھی ہے۔ منی مرگ کے گائوں میں کھڑے ہو کر دیکھیں تو یہ بلندی سے اترائی کی طرف ڈھلکا ہوا قصبہ ہے جس کی اونچائی دیوسائی کی طرف ہے اور اترائی ڈومیل کی جانب ہے۔ پاکستان کی سیاحت منی مرگ اور ڈومیل ٹریک کے بغیر ادھورے تھی اس لئے ہم نے اپنے خواب کو مجسم تعبیر میں ڈھالا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button