ColumnImtiaz Aasi

اکثریت کا جبر .. امتیاز عاصی

امتیاز عاصی

 

مغربی ملکوں میں جمہوریت کے تصور میں بعض قانونی ماہرین نے اس رائے کا اظہار کیا ہے کہ جمہوریت میں اس امر کے خدشات کو رد نہیں کیا جا سکتا کوئی بھی جماعت اپنی اکثریت کے بل بوتے پر ایسا قانون بنا سکتی ہے جس کی کوئی اخلاقی اور نہ سماجی بنیاد ہو ایسے عمل کوTyrrany of Majority یعنی اکثریت کے جبر کا نام دیا جاتا ہے۔اس تناظر میں دیکھا جائے تو موجودہ حکومت نے تحریک انصاف جیسی بڑی جماعت کی عدم موجودگی میں اکثریت کے جبر کا مظاہر ہ کرتے ہوئے نیب قوانین میں من پسند ترامیم کر لیں۔گو حکومت 166 حاضر ارکان کی موجودگی میں نیب قوانین میں ترامیم کرنے کی مجاز تھی لیکن 446 کے ایوان سے ارکان کی اکثریت کے استعفوں کے بعد اخلاقی طور پر نیب ترامیم جیسی قانون سازی کا اخلاقی جوازباقی نہیں تھا، اگر یہی ترامیم ملک وقوم کے وسیع تر مفاد میں ہوتیں تو پوری قوم کی طرف سے اس کی ستائش کی توقع کی جا سکتی تھی۔حکومت نے اقتدار سنبھالنے کے بعد ملک اور عوام کے گونا گوں مسائل کو ترجیح دینے کی بجائے نیب قوانین میں ترامیم کرکے اپنے خلاف مبینہ کرپشن کے مقدمات ختم کرنے کو فوقیت دی جس سے عوام کی اکثریت کا حکومت سے کلی طور پر اعتبار اٹھ چکا ہے۔جو حکومت غریب عوام کی مشکلات کا کوئی مدوا کرنے کی بجائے اپنے خلاف مقدمات ختم کرانے میں لگی رہے ایسی حکومت سے عوام کو کیا توقعات ہو سکتی ہیں وہ ان کے مسائل کو حل کرے گی۔ ان دنوں عدالت عظمیٰ میں سابق وزیر اعظم عمران خان کی نیب ترامیم کے خلاف درخواست کی سماعت ہو رہی ہے جس میں انہوں نے حکومت کی طرف سے اقتدار سنبھالنے کے بعد نیب قوانین میں ترامیم کو چیلنج کیا تھا۔پی ڈی ایم کی جماعتوں خصوصاً پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون کے بڑے بڑے رہنمائوں کے ساتھ پی ٹی آئی کے بعض لوگوں نے بھی نئی ترامیم سے استعفادہ کیاہے۔ہم جس معاشرے میں رہ رہے ہیں بدقسمتی سے یہاں کرپشن کو برا نہیں سمجھا جاتا بلکہ کرپشن کرنے والوں کی حوصلہ فزائی کی جاتی ہے۔ملکی تاریخ گواہ ہے ماضی کی حکومتوں نے عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی خاطر احتساب کے ادارے بنائے مگر جن مقاصد کیلئے ان اداروں کا قیام عمل میں لایا گیا وہ پورے کرنے میں بری طرح ناکام رہی ہیں۔ جناب چیف جسٹس عمر عطاء بندیال کا کہنا درست ہے وہ معاملات جن کو پارلیمان میں حل ہونا چاہیے وہ اعلیٰ عدلیہ کے روبرو لائے جاتے ہیں۔پاکستان جیسے ترقی پذیراور معاشی لحاظ سے کمزور ترین ملک میں کھربوں روپے کی کرپشن کرنے والوں کو پارلیمان سے من پسند ترامیم کے بعد چھوڑ دینا کہاں کا انصاف ہے؟یہ علیحدہ بات ہے کہ درخواست گذار اور ان کی جماعت کے ارکان کو پارلیمان میں رہتے ہوئے اپنا کردار ادا کرنا چاہیے تھااگر وہ پارلیمان میں رہتے تو کم ازکم نیب ترامیم کرتے وقت حکومت کو ٹف ٹائم دے سکتے تھے۔مہذب معاشروں میں انہی لوگوں کے خلاف کرپشن کے مقدمات قائم ہوتے ہیں جو واقعی کرپشن میں ملوث رہے ہوں۔ ہم یہ تو نہیں کہہ سکتے جن سیاست دانوں کے خلاف مسلم لیگ ،پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کے دور میں کرپشن کے مقدمات قائم کئے گئے وہ سب کے سب بے گناہ تھے آخر کچھ نہ کچھ صداقت ہوتی ہے جس کی بنا مقدمات درج ہوتے ہیں۔فرض کریں وزیراعظم شہباز شریف اور ان کے بیٹے حمزہ شہباز کے خلاف مقدمات جھوٹے تھے تو انہیں عدالت میں مقدمات کا سامنا کرکے بریت لینی چاہیے تھی نہ کہ نیب ترامیم کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے خلاف مقدمات ختم کرانے تھے ۔ نیب ترامیم سے فائدہ اٹھانے کا مقصد کرپشن کو چھپانا مقصود تھا ورنہ جن جن سیاست دانوں کے خلاف مقدمات تھے وہ بے گناہ ہوتے تو نئی ترامیم کا ہرگز فائدہ نہ اٹھاتے۔مسلم لیگ نون کے سنیئر رہنما شاہد خاقان عباسی واحد سیاست دان ہیں جنہوں نے اپنے خلاف مقدمے کو نیب ترامیم کی روشنی میں ختم کرانے کی بجائے عدالت سے بریت کو ترجیح دے کر روشن مثال قائم کی ہے۔حیرت ہے دنیا بھرکی جمہوری حکومتوںمیں احتساب کو لازمی سمجھا جاتا ہے جب
کہ ہمارے ہاں پارلیمنٹ کی پبلک اکاونٹس کمیٹی موجود ہے جو وقتاً فوقتاً اپنے اجلاسوں میں وسیع پیمانے پر ہونے والی خرد برد کی نشاندہی کرکے کیسز نیب ، ایف آئی اے اور دیگر تحقیقاتی اداروں کو بھیجتی ہے اس کے باوجود کرپشن میں ملوث ارکان اسمبلی اور بیوروکریٹس کے خلاف شاذوناظر کیس بنتے ہیں۔ اس کے برعکس برطانیہ، امریکہ،جرمنی ،فرانس اور جاپان حتیٰ کہ چین میں چند ڈالرز یا پاونڈز اور فرانکس کی بدعنوانی پر ارکان کو مستعفی ہونے کے ساتھ ساتھ سزائوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔اس سلسلے میں فرانس کے سابق صدر سرکوزی، جنوبی کوریا کے صدراور اٹلی کے وزیراعظم بدعنوانی میں سزا بھگت چکے ہیں۔احتساب کے بغیر جمہوری نظام بارے میں علامہ اقبال نے کہا تھاکہ احتساب کے بغیر جمہوریت تماشا بن جاتی ہے جیساکہ وطن عزیز میں بن چکی ہے۔بدقسمتی سے ارکان پارلیمنٹ اور سیاسی جماعتوں کے قائدین مبینہ بدعنوانی اور قومی دولت لوٹ کر بیرون ملک جائیدادیں بنانے کے باوجود احتساب سے مبرا ہیں اور اگر کوئی عام شہری کسی قسم کی بدعنوانی میں ملوث ہو تو اس کا ٹھکانہ جیل ہوتا ہے۔قرون اولیٰ کے دور میں کوئی بڑا جرم کرتا تو اسے چھوڑ دیا جاتاکسی عام آدمی سے جرم کاارتکاب ہوتا تو اسے سزا دے دی جاتی تھی یہی تو ہمارا بڑا المیہ ہے۔ جب تک ملک میں احتساب کی اصل روح کے مطابق عمل درآمد نہیں ہوگاہمارے معاشرے سے کرپشن کا خاتمہ ممکن نہیں۔ تاسف ہے موجودہ حکومت نے پچاس کروڑ روپے تک کرپشن کو نیب قوانین کے دائرہ کار سے نکال دیا ہے جس کا مطلب پچاس کروڑ روپے تک کرپشن کرنے والوں کو کرپشن کا لائسنس مل دے دیا گیا ہے ۔سیاست دان کرپشن کے خاتمے میں متفق ہوتے نہ نیب قوانین میں ترامیم کی ضرورت ہوتی اورنہ کرپشن کرنے والوں کو سرکاری عہدے ملتے۔عدالت عظمیٰ کا تین رکنی بینچ جو نیب ترامیم کیس کی سماعت کر رہا ہے لگتا ہے اس معاملے کو پارلیمنٹ میں واپس بھیج دے گا تاکہ پارلیمان ان ترامیم پر نظر ثانی کرسکے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button