ColumnQaisar Abbas

لوئر شاہنی ، ایک اجنبی جنت .. قیصر عباس صابر

قیصر عباس صابر

 

نیلی جھیل کے سامنے نیم زندگی لیے جنگل بن چکے درختوں کے پار ایک چڑھائی تھی اور اس کی دوسری طرف جو کچھ بھی تھا ، وہ بھید تھا ۔ جتنے بھی سیاح نلتر کی جھیلوں تک آتے تھے وہ سب بلیو لیک سے واپس لوٹ جاتے تھے ۔ ابھی ست رنگی جھیل کے کنارے پر جو موت ہوئی تھی، اس کا رنگ ہم سب کے مزاجوں پر اس طرح چڑھ چکا تھا کہ بچے جیپ میں بیٹھے زار و قطار روئے جاتے تھے ۔ ڈاکٹر قرۃ العین تو واپس نکلنا چاہتی تھیں ۔ فوزیہ کی آنکھیں عون کی حالت پر جمی تھیں اور میں خود غرضی کی آخری حد پر کھڑا لوئر شاہنی تک جانا چاہتا تھا ۔ میں اس لیے بھی نیلی جھیل کے اس پار جانا چاہتا تھا کہ شائد پھر زندگی یہاں تک آنے کی مہلت ہی نہ دے ۔ میں ہو چکی جواں موت کی وجہ سے چھائی افسردگی کے سبب لوئر شاہنی نہ جا سکا ۔
گلگت سے سیاحتی دورے سے واپسی کے چند روز بعد مجھے دانش کے ساتھ گلگت کی عدالتوں میں آنا پڑا ۔ وادئ غذر کے امتیاز عالم کی مدعیت میں
درج کیس کیلئے عثمان علی کے ساتھ آنا پڑا ۔ ہم ہفتہ
بھر وہاں رہے اور عدالتوں کی طرف سے ملنے والی تاریخ پر تاریخ نے مجھے لوئر شاہنی کی راہ دکھائی، راشد ڈوگر نے وہاں تک جانے سے انکار کیا اور ہوٹل میں رک گئے ۔ میں ، دانش اور عثمان کے ساتھ وہاں تک پہنچا ، جہاں تک جیپ جا سکتی تھی ،نلتر زیرو پوائنٹ اور نلتر بالا کے بعد جیپ ڈرائیور نے ہمیں بلیو جھیل کے جنگلوں میں اتار دیا ۔
ہم نے چڑھائی چڑھنے کے بعد جب بلندی سے نیچے جھانکنے کی جسارت کی تو ایک نیا جہان ہمارے سامنے تھا ۔ سرخ رنگ کا پہاڑ جو سامنے نظر آ رہا تھا ، وہ سامنے تو نہ تھا مگر سرمئی رنگ کی چٹانیں ایک ایسا منظر پیش کرتی تھیں جو نانگا پربت کے دامن میں پھیلے رائے کوٹ گلیشیئرسے مشابہ تھا ۔
دانش اور عثمان علی ابھی تک تازہ دم تھے مگر مجھے پتا تھا کہ گھاس بھرے اور سپاٹ میدان کے ختم ہوتے ہی تلخی ان کے مزاجوں پر چھا جائے گی اور پھر وہ مجھے کوسنے لگیں گے کہ میں انہیں کہاں لے آیا ۔ یہاں پر ہمارے علاوہ کوئی دوسرا نہ تھا ۔ سلیٹی رنگ کے گلیشیئر سے جو نالا برآمد ہو کر دریا بنتا تھا ، اس کے پانی نیم سیاہ تھے ۔ پہاڑوں اور گلیشیئر کے رنگوں جیسا پانی گدلی ریت اور کنکروں سے ڈھکا ہوا بہتا جاتا تھا ۔
یہ بھی کوئی سیر ہوئی ۔۔ عثمان نے اُکتا کر کہا ۔
ایڈوانچر ، ایڈوانچر کہتے ہیں اسے، دانش نے طنزیہ جملہ کسا اور میں چپ چاپ اس منظر کی تصویریں بناتا رہا ۔ دریا نلتر ناقابل عبور بحر اسود بن چکا تھا ۔ اس دریا کے علاوہ بھی ایک نالہ تھا جو طغیانی کے عروج پر تھا ۔ کئی چڑھائیاں چڑھنے کے بعد لوئر شاہنی کی چراگاہ کا دیدار ہوا ۔ دور سے دیکھا تو وہاں مویشی چرتے نظر آئے ۔ اسی چراگاہ میں شام اتر آئی اور چھوٹی سی خیمہ بستی ہمارے لیے ڈھارس تھی ۔ ان خیموں کے علاوہ کوئی اور جگہ ایسی نہ تھی جہاں قیام کیا جا سکتا ۔
دانش نے خیمہ منیجر سے کرایہ فائنل کیا اور ہم رہائش گاہ کی تسلی کے بعد اس چراگاہ کے منظر پر اترتی شام کو آنکھوں میں جذب کرنے لگے ۔ سامنے یاک آزاد گھومتے تھے اور حد نگاہ تک سبزہ ہی سبزہ تھا۔ ہم جس چراگاہ میں رکے تھے یہ لوئر شاہنی کا ویو پوائنٹ تھا اور منزل ابھی دور تھی۔ اس شام ہم نے مختلف عمر اور قد کے کئی یاکوں کو دیکھا اور ان سے مانوسیت ہو گئی۔ رات بسر کرنے کے بعد ہم لوئر شاہنی کی طرف لپکے اور ایک ایسی مختصر چراگاہ میں داخل ہو گئے جہاں پتھروں کو گھاس نے ڈھانپ رکھا تھا اور وہاں سیاحوں کی آسودگی کیلئے خیمے نصب تھے ۔
برفوں کے دامن میں لوئر شاہنی کی چراگاہ منی دیوسائی جیسی تھی ، کچھ فیری میڈو سے ملتی جلتی تھی ۔ برف پوش بلندیاں ہمارے گرد ایستادہ تھیں اور ہم مسرور ہوئے جاتے تھے ۔ 5887 میٹر بلند شاہنی چوٹی اپنے ابھاروں سمیت براجمان تھی ۔ تین سروں والی شاہنی چوٹیوں کی بلندی اپنی اپنی تھی کیونکہ وہ جڑواں تھیں ۔ شاہنی پیک کے تین سفید گنبد پورے شمال میں دل کشی کی واحد مثال تھے ۔ 5260 میٹر بلند سینٹینل پیک یعنی محافظ چوٹی شاہنی کے برف مزاجوں سے آشنا تھی ۔
اس وادی کا سارا حسن ہم تین آوارہ گردوں کے مقدر میں لکھ دیا گیا تھا کیونکہ ہمارے علاوہ اس پرستان میں کوئی دوسرا نہ تھا ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button