ColumnZia Tanoliتازہ ترین

سیاسی منظر نامہ پر چھائی دھند .. ضیاء تنولی

 

ضیاء تنولی

مسلم لیگ نون کے قائد میاں محمد نواز شریف کی وطن واپسی اُمید کے برعکس نہیں ہو رہی، یہ بالکل ایسے ہی ہے ،جیسے دھند کے باعث موٹروے کو بند کر دیا جائے تو ڈرائیورز براستہ جی ٹی روڈ اسلام پہنچ جاتے ہیں، کچھ اسی طرح کی شکل سامنے آنے کے بعد سیاسی ہلچل بھی نئی کروٹیں لینے لگی ہے، سلیمان شہباز کی سیاست میں انٹری ہوئے چاہتی ہے، وہ مبینہ طور پر اسٹیبلشمنٹ سے ہٹ کر اپنے ایک دوست کے ذریعے پاکستان تحریک انصاف کے متحرک سنیئر رہنما فواد چودھری سے رابطہ میں آئے ہیں اور کسی سیاسی پیکیج کے ذریعے مسائل کے حل کی بات ہوتی دکھائی دے رہی ہے، جو بلاشبہ خوش آئند ہے، مگر کیا اسٹیبلشمنٹ سے ہٹ کر سیاسی دیگ با حفاظت آگ سے اُتاری جا سکتی ہے؟
مجھے گزشتہ چند ہفتوں کے دوران کونسل آف پاکستان نیوز پیپرز ایڈیٹرز(سی پی این ای )سمیت کچھ دیگر سینئر صحافیوں کے ساتھ دو الگ الگ ملاقاتوں میں براہ راست عمران خان سے ملاقات میں سوالات کرنے کا موقعہ ملا ،مجھے ان کے لہجے میں قدرے لچک نظر آئی اور وہ ضد کی سخت گیری سے کچھ نرم ہوتے دکھائی دے رہے ہیں، لیکن جب وہ دیگر سیاستدان کی ملک سے باہر محفوظ کی گئی دولت اور اثاثوں کا تکلیف سے بھرے انداز میں سوال اُٹھاتے ہیں تو حاضرین محفل ان کے سامنے خاموش ہی دکھائی دیتے ہیں اور پھر سننے والوں کا شوق، بولنے والے عمران خان کی زبان کو چھری کی طرح پھر سے تیز کر جاتا ہے۔ دوران ملاقات ایک سوال کے جواب میں عمران خان نے کہا کہ اسٹیبلشمنٹ کا خیال تھا کہ شہباز شریف اقتدار میں آکرمعیشت کھڑی کر دے گا مگر یہاں تو اسحاق ڈار صاحب کا جادو بھی نہیں چلا۔ اب نواز شریف باقی ہیں، دیکھیں اب کیا ہوتا ہے؟ بلکہ عمران خان تو مسلم لیگ نون میں میاں نوازشریف کے علاوہ کسی کو لیڈر ہی نہیں مانتے جبھی انہوں نے ہمارے سامنے مسلم لیگ نون میں میاں نواز شریف کے بعد سب کو چھان بورقرار دیا اور تسلیم کیا کہ ووٹرز نون لیگ میں صرف نواز شریف کے نام پر ہی حرکت میں آتا ہے۔
بہرحال عمران خان اب تیزی سے راستہ تلاش کر رہے ہیں۔ وہ بار بار کہتے ہیں کہ نئے آرمی چیف جنرل عاصم منیر سے اُن کا کبھی رابطہ نہیں ہوا ،اِس سے بخوبی واضح ہوتا ہے کہ وہ پھر سے اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے میوزک سننے کے لیے تیار ہیں جبکہ لندن سے میاں نوازشریف کی آئی پالیسی بظاہر وزیراعظم شہباز شریف سے بڑے بھائی نواز شریف کے حق میں عمل درآمد ہوتی بھی نظر نہیں آرہی ، جس کی وجہ سے سلیمان شہباز کی ملکی سیاست میں نئی اینٹری کو دور کی، یا میلی عینک سے نہیں دیکھنا چاہیے۔وہ پاکستان واپس آنے کے بعد یہ نعرہ بھی لگا چکے ہیں کہ اب تک ہمارے ساتھ سیاسی کھیل کھیلا گیا، لیکن اب ہم ان لوگوں کے ساتھ سیاست کریں گے۔
نئے آرمی چیف جنرل عاصم منیر کی زیر صدارت حالیہ کور کمانڈرز کانفرنس میں آرمی چیف نے دہشت گردی کے خاتمے کے عزم کا اعادہ کیا ہے ، کور کمانڈرز کانفرنس خالصتاً وطن عزیز کو درپیش داخلی و خارجی چیلنجز بالخصوص دہشت گردی کا قلع قمع کرنے پر مرکوز رہی ، لہٰذا سیاسی بلوغت سے عاری سیاست دانوں کو اسٹیبلشمنٹ نے واضح پیغام دیا ہے کہ ہمیں اپنا کام کرنے دیں، آپ اپنا کام کریں، یوں جو لوگ سمجھ رہے تھے کہ کور کمانڈرز کانفرنس کے اعلامیہ کے بعد ملک کے آئندہ حالات کی نئی تصویر اُبھرے گی،اور سیاست دانوں کو کوئی اشارہ ملے گا تو جناب! اسٹیبلشمنٹ نے اپنے کام سے ہی غرض رکھا ہے، پس اب سبھی سیاسی قوتوں نے سیاسی لڑائی اپنے بل بوتے پر ہی لڑنی ہے، کوئی امپائر ہوگا اور نہ ہی کہیں سے ’’آئوٹ‘‘ کا اشارہ ملے گا، سیاسی اکھاڑے میں وہی فاتح ہوگا جو دائو پیچ جانتا ہوگا۔ کیوں کہ جنرل عاصم منیر واضح طور پر کہہ چکے ہیں کہ ان کی توجہ پیشہ ورانہ فرائض پر ہے، وہ وطن عزیز کی سرحدوں کی حفاظت کے لیے سرگرم عمل ہیں اور کچھ کرنے کا وقت نہیں ان کے پاس نہیں ۔دوسری جانب راجہ پرویز اشرف سپیکر قومی اسمبلی، سابق صدر آصف علی زرداری اور وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری کے ذریعے پی ٹی آئی کے استعفوں سے جس مہارت کے ساتھ کھیل رہے ہیں وہ بھی پی ٹی آئی کے لیے ٹف ٹائم ثابت ہو گا لیکن میری اطلاع کے مطابق پاکستان کے حساس اداروں نے اپنی تازہ ترین رپورٹ میں کہا ہے کہ پی ٹی آئی ملک کی تاحال مضبوط ترین سیاسی جماعت ہے،تو کیا ایسی رپورٹس حکمران اتحاد کے پاس نہیں ہوں گی اور پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کیونکر ایسے وقت میں عام انتخابات کے انعقاد کی طرف جائے جب رائے عامہ یکسر یعنی یکطرفہ طور پر عمران خان کے حق میں ہے، لہٰذا کیا زمینی حقائق جاننے کے بعد بھی پی ڈی ایم آسانی سے الیکشن ہونے دے گی؟دوسری جانب لمحہ فکریہ یہ ہے کہ اسٹیلشمنٹ کے بھرپور ساتھ کے باوجود آخر معیشت کو سہارا کیوں نہیں دیا جا سکا؟کہیں ایسا تو نہیں کہ عالمی برادری عمران خان کی پالیسیوں سے اتفاق رکھتی ہے اور کاروباری طبقہ تیزی سے اپنا سرمایہ بیرون ملک منتقل کرکے وہیں کاروبار میں لگارہا ہے، اور بیرون ممالک سے پاکستان میں پیسے آنے کے بجائے ابھی تک پیسے باہر بھجنے کا عمل رک نہیں سکا۔؟
چھوٹے بھائی میاں شہبازشریف کے وزیراعظم پاکستان ہونے اور پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ میں شامل بارہ جماعتوں کے ساتھ دوستانہ روابط کے باوجود ابھی تک بڑے میاں صاحب، نوازشریف کیونکر وطن واپس نہیں آسکے اور ان کی سیاست میں حائل رکاوٹیں کیونکر دور نہ کی جاسکی ہیں لہٰذا صرف شہروں پر ہی نہیں بلکہ ملکی سیاست اور سیاسی معاملات پر بھی دھند چھائی ہوئی محسوس ہوتی ہے، پھر عمران خان کا بار بارسیاسی حکمت عملی تبدیل کرنا بھی یہی ظاہر کرتا ہے کہ ابھی تمام سیاست دان قطار میں ہیں ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button