ColumnImtiaz Aasi

کسی کی جیت کسی کی ہار؟ .. امتیاز عاصی

امتیاز عاصی

 

ملکی سیاست میں لین دین کاکلچر پروان چڑھانے والوں نے جمہوریت میں آلودگی کی ایسی ابتدا کی جو مستقل میں ختم ہوتی نظر نہیں آتی۔پارلیمانی نظام جمہوریت میں حکومت کو عوام کی حکومت کہا جاتا ہے جس میں حکومتی اختیارات عوام کے نمائندوں کے پاس ہوتے ہیںاور حقیقی جمہوریت وہی ہوتی ہے جس میں قانون کی حکمرانی بنیادی عنصر ہوتا ہے۔ بدقسمتی سے ملک میں قانون نام کی کوئی چیز نہیں بلکہ شخصیات طاقت ور ہیں۔جن معاشروں میں کمزور اور طاقت ور کے درمیان قانون برابر نہ ہو ایسے ملک کو جمہوری نہیں کہا جا سکتا۔جمہوریت میں یہ بھی ضروری ہوتا ہے کہ ادارے مضبوط اور مواخذے کا نظام موجودہوجبکہ ہماری سیاسی جماعتوں میں موخذاے کا کوئی نظام نہیں۔ہم مغربی دنیا کی مثالیں دیتے نہیں تھکتے جب کہ ان کے ہاں شفافیت کا نظام پوری طرح رائج ہے وہاں کے عوام کوپوری طرح علم ہوتا ہے کہ ان کے نمائندگان حکومت سے کیا مراعات لے رہے ہیں اور ان کے اخراجات کیا ہیںاور ان کے اثاثہ جات کیا ہیں۔ان ملکوں میں پارلیمنٹ کی ویب سائٹس پرپارلیمان کے ارکان کے بارے میں پوری معلومات ہوتی ہیںاور عوام کو حق حاصل ہوتا ہے وہ کسی بھی حلقے کے ارکان پارلیمنٹ بارے پتا چلا سکے،جبکہ ہمارے عوام ان تمام معلومات سے ناواقف ہوتے ہیں۔جمہوری نظام میں تو عوام کاروبار حکومت میں شرکت دار ہوتے ہیںاس کے برعکس ہمارے ہاں جمہوریت ہیراپھیری کا نام ہے۔ملکی وسائل چند مخصوص لوگوں کے پاس ہیںاور عوام کیلئے روزگار کے مواقع تنگ ہیں۔عوام کو نہ تو جان کا تحفظ ہے اور نہ انہیں اپنے حقوق حاصل ہیںبلکہ اختیارات مخصوص اشرافیہ اور مخصوص لوگوں کے پاس ہیں ۔جمہوری معاشروں میں منتخب نمائندے کسی قسم کے دبائو یا لالچ کے بغیراپنے ووٹ کا حق استعمال کرتے ہیںلیکن ہم ایسے معاشرے میںرہتے ہیں جہاں منتخب نمائندوں کی باقاعدہ خرید وفروخت اور ان کی قیمت لگائی جاتی ہے ۔ زیادہ عرصہ نہیں گذرا ، عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کے دوران جوکھیل کھیلا گیا وہ کسی سے پوشیدہ نہیں۔طالع آزما ارکان کو سندھ ہائوس اسلام آباد اور وفاقی دارالحکومت کے فائیو سٹار ہوٹل میں ٹھہرا کرووٹ حاصل کئے گئے۔عدم اعتماد کا یہ کھیل کوئی عام کھیل نہیں تھا نہ جانے اس کھیل میں کامیابی کیلئے کتنے ارب خرچ ہوئے ہوں گے ۔
پی ٹی آئی کی خواتین ارکان کو پیسوں اور ٹکٹ کا لالچ دے کر ووٹ حاصل کرنے میں ناکامی کے بعد وزیراعلیٰ پنجاب کو ڈی نوٹیفائی کر دیا گیا۔اگرچہ گورنر کے پاس وزیراعلی ٰ کو اعتماد کو ووٹ لینے کیلئے کہنے کا اختیار ہے اس مقصد کیلئے گورنر کے پاس ٹھوس وجوہات کا ہونا بھی ضروری ہے ۔اس ضمن میں بہت سی مثالیں موجود ہیں جیسا کہ منظور وٹو کیس میں عدالت فیصلہ دے چکی ہے کہ اجلاس ہورہا ہو تو اجلاس نہیں بلایا جا سکتا تاہم اگر بلانا مقصود ہو تو دس روز کا وقت دینا ضرور ی ہے۔آفرین ہے ان خواتین ارکان پر جنہوں نے عمران خان کوشکایت کی ہے کہ انہیں نامعلوم نمبروں سے کالیں آرہی ہیں اور ساتھ ٹکٹوں کی آفر بھی ہے۔عمران خان نے خواتین ارکان کو کیا خوب مشورہ دیا کہ پیسے ضرور لے لیں ووٹ اپنے نظریے کے مطابق دیں۔ چھانگا مانگا کی سیاست کی بنیاد رکھنے والوں نے جمہوریت کی چولیں ہلا دیں، بکاو مال ارکان کی نظریں مال و دولت پر رہتی ہیں حکومت گرانے کا سلسلہ جو شروع ہو جائے تو بکاو ارکان کی چاندی ہو جاتی ہے۔ چلیں روپے پیسے کو ایک طرف رکھیں پی ٹی آئی ارکان کو ٹکٹوں کی پیشکش کی جا رہی ہے۔عمران خان نے ملک لوٹنے والوں کو عوام کی نظروں میں اس حد تک گرا دیا ہے جس کا نتیجہ ضمنی الیکشن میں لوگوں نے دیکھ لیا ہے۔عمران خان نے ملک وقوم کو لوٹنے والوں کا اصل چہروں کو کم ازکم بے نقاب ملک وقوم کی بڑی خدمت کی ہے،یہ اور بات ہے کہ میڈیا کا ایک مخصوص گروہ ان چہروں پر پردہ ڈالنے کی لاکھ کوشش کر لے عوام ان کے اصل چہروں کو پہچان چکے ہیں انہی وجوہات کی بنا حکومت انتخابات کے انعقاد کی طرف آنے کو تیار نہیں۔موجودہ حکومت نے اقتدار سنبھالنے کے بعد عوام کی جو حالت کر دی ہے غریب دو وقت کی روٹی کو ترس رہا ہے۔اپنے شاہانہ اخراجات میں کمی کی بجائے اب کاروباری مراکز کو بند کرنے کیلئے کوشاں ہیں۔
سوال تو یہ ہے ایک ایسے ماحول میں عوام مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی سے عاجز ہو چکے ہیں حکومت تاجروں کی ناراضگی مول لینے کا رسک لے سکے گی؟ یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ اقتدار جب کاروباری طبقے کے ہاتھ میں چلا جائے تو ایسے ملک تباہ برباد ہوجاتے ہیں ۔پاکستان کے عوام کی اس سے بڑی بدقسمتی اور کیا ہوگی اندرون اور بیرون ملک کاروبار، جائیدادیں اور اکائونٹس رکھنے والوں کو غریب عوام کی قسمت کا فیصلہ کرنے کا اختیار دے دیا جاتا ہے۔ ایک بات ضرور ہے عمران خان کو مستقبل میں اقتدار ملے یانہ ملے ملک میں ایک نئی تبدیلی کی ہمیں امید ضرور رکھنی چاہیے۔عمران خان کے خلاف تمام حربے استعمال کرنے کے بعدمبینہ طور پر جعلی ویڈیو کے نئے سلسلے کا آغاز ہو چکا ہے جو اس امر کا غماز ہے عوام کے مقبول لیڈر کو کسی طریقہ سے ملکی سیاست سے باہر کیاجا سکے۔دراصل پکوڑے اور سموسے بیچنے والوں کے نام اربوں روپے رکھنے والوں کوعوام کی نظروں میں صفائی پیش کرنے کا کوئی طریقہ دکھائی نہیں دے رہا ہے لہٰذا وہ غیر اخلاقی حرکات کرکے کسی طرح عمران خان کو عوام کی نظروں میں گرانے کیلئے کوشاں ہیں ۔ سیاست میں جب تک ایک دوسرے کے احترام کاکلچر پیدا نہیں ہوگااقتدار کی جنگ جاری رہے گی جو ملک کیلئے اچھا نہیں ہوگا۔اب گورنر کوہٹانے کیلئے ریفرنس صدر کو بھیجا جائے گا ۔ معاملات اب سیاست دانوں کے ہاتھ سے نکل کر اعلیٰ عدلیہ کے روبرو پیش ہوں گے دیکھتے ہیں کسی کی جیت یا کسی کی ہار ہوتی ہے جس کا فیصلہ بہت جلد ہو جائے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button