Anwar Ul HaqColumn

پوتن کی للکار اور پاکستان کی معیشت .. انوارالحق رامے

انوارالحق رامے

 

امریکہ کی ایما پر نیٹو اور یورپ نےیوکرین کی مدد کرکے روس کو مجبور کردیا تھا کہ وہ یوکرین پر حملہ آور ہو،اور اپنی ساکھ کو برقرار رکھنے کے لیے اپنی معیشت کا ستیاناس کر لے۔ روس نے یوکرین پر فروری 2020 میں حملہ کر دیا تھا، اب تک اس جنگ کے نتیجے میں 13000ہزار کے قریب لوگ موت کے گھاٹ اتر چکے ہیں،اس المیے کے نتیجے میں کئی ملین لوگ پناہ گزین ہو چکے ہیں ، اس جنگ کے نتیجے میں اناج کی فراہمی انتہائی مشکل ہو گئی ہے ، یوکرین 400ملین لوگوں کو اناج فراہم کرتا ہے، جنگ کی وجہ سے شدید عالمی غذائی بحران پیدا ہونے کے امکانات میں اضافہ ہوا ہے، جنگوں کا آغاز کرنا عام طور انسانوں کے اختیار میں ہوتا ہے جب جنگ کا آغاز ہوجاتا ہے تو اس کا سمیٹنا انسانی اختیار سے باہر ہوجاتا ہے ، جنگیں ملکوں کی تباہی کا سبب بنتی ہوئی نئے حقائق کو جنم دیتی ہیں ،یہ علاقائی جنگ پوری دنیا کو کساد بازاری میں دھکیلنے کی صلاحیت سے مالا مال ہے ،اس جنگ نے پورپ کو حواس باختہ کر دیا ہے،پولینڈ روسی حملے کے خوف سے ڈر رہاہے ،پولینڈ کے بعض شہر بموں کا نشانہ بن چکے ہیں،یوکرین جنگ نے یورپ کو ایک دوسرے کا اتحادی بننے پر مجبور کر دیا تھا ،یورپ بے بسی کے عالم امریکی کی حفاظتی چھتری کے زیر سایہ دن گزار رہا ہے، امریکہ اس پوزیشن میں نہیں ہے کہ وہ براہ راست روس سے متصادم ہو سکے کیونکہ پوتن کی طرف سے جوہری جنگ کے شدید خطرات لاحق ہیں، روایتی جنگ لڑنے اور روسی حملے کے خلاف ریڈلائن کے طور پر یوکرین کی حمایت کرنے کا اعلان کیا ہے، نیٹو اتحاد کے اندر دراڑیں پڑ رہی ہیں ابتدا ہی سے روس کے مقابلے میں یوکرینی فوجوں کو بے پناہ جانی اور مالی نقصانات کا سامنا ہے ، یوکرین نے امریکی حمایت اور اپنے جذبہ حب الوطنی کی بدولت بعض علاقوں پر اپنے قبضے کو بر قرار رکھا ہوا ہے، عالمی سطح پر روسی معیشت پابندیوں کی زد میں ہے ،روسی کمپنیوں کے بین اقوامی اثاثے ضبط کر لئے گئے ۔ روسی معیشت روبہ زوال ہے ،پوتن روسی معیشت کو سہارا اور ترقی دینے کے لیے پر عزم ہے، پوتن ایک جنگجواور بہادر سیاست کا کھلاڑی ہے وہ طویل جنگ لڑنے نیٹو کو زچ کرنے کی پوزیشن سے بہرہ ور ہے ، یورپ کی صنعتی ترقی کا انحصار روسی گیس اور ایند ھن پر ہے، پوتن اپنے اس سرمائے کو جنگی ہتھیار کے طورپر استعمال کر رہا ہے ، موسم سرما کی آمد نے ایندھن کی قیمتوں میں اضافہ کر دیا ہے ، جس کے نتیجے مین یورپی معیشتیں سست روی کا شکار ہو گئی ہیں، کئی ممالک ایندھن کی کمی کی وجہ سے بجلی کے بحران کا شکار ہو گئے ہیں۔
یورپ ایندھن کی کمی کا شکار ہو رہا ہے اور وہ اپنے تمام وسائل گرین ٹیکنالوجی کو بروئے کار لانے میں استعمال کر رہا ہے ،قدرت نے روس کو گیس کے وسیع خزانوں سے نوازا ہوا ہے جو اس کی ضروریات سے کہیں زیادہ ہیں ، روس، یورپ کو اس کے حال پر چھوڑ کر نئی منڈیوں کی طرف توجہ دے رہاہے ، اس کا ہدف بھارت، چین اور پاکستان ہیں ، طلب اور رسد کی اس کشمکش کو روس بمقابلہ مغرب کی معاشی جنگ قرار دے ریا ہے ، اس سے پہلے کئی وسطی ایشیائی ریاستیں اپنی گیس پائپ لائنز کو دیگر ممالک تک پھیلا رہی ہیں ، پاکستان بھی ان ممالک میں شامل ہے ، پاکستان بھی گیس حاصل کرنے کا شدید خواہش مند ملک ہے ، چین اور بھارت ببانگ دھل روس سے رات کی تاریکی اور دن کی روشنی میں گیس خرید رہے ہیں ،روس کو یورپ کو گیس کی عدم فراہمی سے جو نقصان ہوگا وہ چین اور بھارت سے پورا کر لے گا، روس کی معیشت رواں دواں رہے گی، چین کی خارجہ پالیسی اپنے مفادات کےارد گرد گھومتی ہے، چین اس تنازعے میں کلیدی کردار کا حامل ہے، بیجنگ نے انتہائی محتاط انداز اپناتے ہوئے ان تنازعات میں غیر جانبدار رہنے کا فیصلہ کیا ہے ،وہ اپنی معاشی ترقی اور عالمی سطح تک روابط کو قائم رکھے ہوئے ہے ، روس رقبے اور وسائل کے لحاظ سے اب بھی بڑا ملک شمار ہوتا ہے، اس کی سرحدیں مشرقی یورپ کے ساتھ ساتھ ایشیاء سے بھی لگتی ہیں ، روس کی مارکیٹ میں تنوع ہے ہر قسم کی اشیاء بمع اسلحہ پیدا کرنے میں مہارت رکھتا ہے، یورپ کی طرف سے عائد کردہ پابندیوں سے بخوبی نپٹ سکتا ہے، بھارت امریکہ کے عزائم چین کے مقابلے مشترکہ ہیں، بھارت علاقے میں امریکی مفادات کا نگہبان ہے، بھارت روس سے بھی اسلحہ کا بڑا خریدار ہے ، امریکہ اور بھارت کے درمیان عرصہ دراز سے یہ کمپرومائز چل رہا ہے کہ بھارت ہر جگہ سے مفادات سمیٹ سکتا ہے ، بھارت دنیا کی بڑی معیشت بننے جا رہا ہے اس لئے امریکہ اور یورپ اور روس اس کے نخرے برداشت کرنے کے لیے تیار رہتے ہیں ، یوکرین اور روس کے درمیان جنگ ایک سنگین مسئلہ ہے ، جس سے پوری دنیا کسی نہ کسی حوالے سے متاثر ہو رہی ہے ، جنگ کی وجہ سے دنیا بھر کے ترقی پذیر ممالک کساد بازاری کا شکار ہورہے ہیں ، یورپ کے بجٹ کا زیادہ حصہ دفاع کی نذر ہو رہا ہے ، اقوام کی توجہ افریقہ ، مشرق وسطی، یمن ، فلسطین اور مقبوضہ کشمیر سے ہٹ رہی ہے ۔پٹرول گیس کی مہنگائی کے ساتھ ساتھ خور و نوش کی اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ ہو رہا ہے ، پوتن اپنی زندگی کی خطرناک جنگ لڑ رہا ہے، مغربی اقوام کی زیر سرپرستی زندہ رہنے کی بجائے موت کو ترجیح دینے والے ہیں ۔
پاکستان کی ٹیکسٹائل برآمدات چند سال کے دوران ہونے والے اضافے کے بعد اب تنزلی کا شکار ہو چکی ہیں ، برآمد کندگان کے قریباً 345 ارب حکومت کے ذمہ ہیں جن کی ادائیگی کے لیے حکومت ٹال مٹول کے فلسفے پر عمل پیرا ہے ، حالیہ سیلاب کی وجہ سے کپاس کی پیداوار میں کافی کمی آچکی ہے، موجودہ حالات میں ٹیکسٹائل انڈسٹری چلانا بہت مشکل ہو رہا ہے ، عالمی منڈی میں مندی کے باعث برامدی آرڈرز میں کمی واقع ہونے سے مشکلات میں اضافہ ہوا ہے، پاکستان کی مجموعی برآمدات میں ٹیکسٹائل کا بڑا حصہ ہے، ان حالات میں ضرورت اس امر کی تھی کہ اپوزیشن اور حکومت مل کر کوئی مشترکہ لائحہ عمل مرتب کرتے تا حال سیاسی کشمکش اپنے عروج ہر پہنچ چکی ہے اوراس میں کمی آنے کے امکانات نظر نہیں آ رہے ہیں،برآمدات کی قدر بڑھانے کے لیے ٹیکسٹائل انڈسٹری کو بھی ویلیو ایڈیشن پر توجہ دینے کی ضرورت ہے ، قومی قیادت کو برآمدات پر فوکس کرتے ہوئے اقتصادی ترقی کو ہدف بنانا چاہیے، ٹیکسٹائل انڈسٹری نے اپنی استعداد بڑھانے کے لیے 5 ارب ڈالرز سے زیادہ کی سرمایہ کاری کی ہے، تحریک انصاف کا دور ٹیکسٹائل انڈسٹری کے لیے سہانا دور تھا ،اگر تحریک انصاف کی اس پالیسی کو جاری رکھا جاتا تو پاکستان کی برآمدات میں اضافہ کیا جا سکتا تھا، اگر ٹیکسٹائل انڈسٹری کو بچانا ہے تو کپاس کی درآمد ہر پابندیوں کو ختم کیا جائے اور یارن کی برآمد پر چند سالوں کے لیے پابندی لگا دی جائے ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button