ColumnImtiaz Ahmad Shad

انقلاب کیسے آئے گا؟ ۔۔ امتیاز احمد شاد

امتیاز احمد شاد

 

انقلاب، بعض لوگوں کو جتنا خوبصورت اور دلکش محسوس ہوتا ہے شاید یہ عام طور پراتنا خوبصورت اور دلکش ہوتا نہیں۔ جب ہم انقلاب کی بات کرتے ہیں تو ہمارے ذہنوں میں نہ جانے کیوں صرف انقلاب فرانس اور انقلاب روس ہی آتے ہیں۔ کچھ لوگوں کے ذہنوں میں انقلاب چین بھی آتا ہوگا، جس طرح ان انقلابات میں انسانی جانیں تلف ہوئیں، جس طرح املاک کا نقصان ہوا، وہ الگ تاریخ رکھتا ہے۔ سب سے پہلی اور اہم ترین شرط جو انقلاب کیلئے ضروری ہوتی ہے، وہ ہے ایک ایمان دار اور باصلاحیت قیادت، جس کی ایمان داری اور صلاحیت پر کوئی دھبہ نہ ہو۔ دوسری اہم شرط ایسی مشترکہ وجہ جو ایک قوم کے تمام افراد کو متحد کردیتی ہے۔ انقلاب فرانس اور دوسرے انقلابات میں مشترکہ وجہ روٹی تھی۔ دولت کا ارتکاز چند ہاتھوں میں تھا، باقی ساری آبادی بھوکی مر رہی تھی۔ ان انقلابات کی قیادت انہی بھوکے افراد میں سے اٹھی تھی۔یا تو ہماری یادداشت اتنی کمزور ہوچکی ہے کہ ہم زیادہ دور کی چیزیں یاد نہیں رکھ پاتے ہیں، یا ان باتوں اور انقلابات کی ہماری نظر میں وہ اہمیت نہیں رہی۔ انسانی معلوم تاریخ کا سب سے بڑا انقلاب جس کے اثرات آج تک دنیا پر قائم ہیں، وہ انقلاب آج سے قریباًپندرہ سو سال سے زیادہ عرصہ پہلے جزیرہ نما عرب میں آیا تھا۔ جس نے نہ صرف انسانیت کو اس کی معراج پر پہنچایا، بلکہ انسان کی ہدایت کا ایسا راستہ مقرر کیا جو رہتی دنیا تک انسانیت کو رہنمائی فراہم کرتا رہے گا۔ دوسرا انقلاب آج سے 75سال قبل برصغیر میں آیا، جس نے تمام مسلمانوں کو ایک قوم بنادیا تھا۔ جس کے لیڈر کی ایمان داری اور خلوص کسی بھی شک و شبے سے بالاتر تھی۔ جس کی قیادت نے ناممکن کو ممکن کر دکھایا تھا۔ ایک علیحدہ ملک مسلمانوں کیلئے حاصل کرلیا گیا۔ ایسا انقلاب، جس کی قیادت کو انگریز اور ہندو قیادت مل کر ایک لمحے کیلئے بھی نہ ڈرا سکی اور نہ جھکاسکی۔ کوئی غیر قانونی طریقہ اختیار نہیں کیا گیا تھا۔ ہتھیار نہیں اٹھائے گئے تھے۔ صرف قانونی جدوجہد سے انقلاب اپنے کامیاب انجام تک پہنچا تھا۔اس انقلاب کی وجہ اور خوبصورتی وہ کلمہ طیبہ اور ریاست مدینہ تھی جس کی بنیاد انسانی تاریخ کے سب سے عظیم انسان اور ہمارے آخری نبی حضرت محمد ﷺ نے رکھی۔ انسانی ذہنوں میں انقلاب پیدا کرنا اور پھر اس تبدیلی کو معاشرے کے تمام طبقات پر کردار کے ذریعے عیاں کرنا اسلامی انقلاب کا بنیادی پہلو ہے۔اس سارے عمل میں مشقت،طویل صبر اور حکمت عملی درکار ہوتی ہے، انسانی تاریخ کا سب سے بڑا انقلاب برپا کرنے والے ہمارے پیارے نبی حضرت محمد ﷺ نے سب سے پہلے برداشت اور در گذر کو اپنا ہتھیار بنایا،جس کی وجہ سے لوگوں میں صبر ایسا انمول خزانہ پیدا ہوا۔ہم لوگ اتنے بے صبرہوچکے ہیں کہ بنا کسی محنت اور بنا کسی انتظار، فوری نتیجے کی امید باندھ لیتے ہیں۔ جہاں جہاں انقلاب آئے ہیں، وہاں لوگوں کی زندگی ایک عام پاکستانی کی زندگی سے کہیں زیادہ مشکل تھی۔
ہمارے یہاں ایک بھیک مانگنے والا بھی پیٹ بھر کر کھاتا اور لمبی تان کرسوتا ہے، جبکہ فرانس اور روس میں انقلاب سے پہلے کے حالات اتنے بدتر تھے جس کا ایک عام پاکستانی تصور بھی نہیں کرسکتا۔اگر ہم اپنی زندگیوں میں تبدیلی لانا چاہتے ہیں تو ہمیں سب سے پہلے اپنی سوچ کو بدلنا ہوگا۔ بغیر محنت اور صبر کے دنیا میں کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ اگر آج ہم فیصلہ کرتے ہیں کہ ہمیں اپنی زندگیوں میں تبدیلی لانی ہے تو ہمیں محنت اور تعلیم کو اپنا شعار بنانا ہوگا اور مسلسل اس پر کاربند رہنا ہوگا۔ تب کہیں جاکر ہماری اگلی نسل بہتر مستقبل کی صورت دیکھ سکے گی۔ ہر حکومت کے ساتھ بدلتی پالیسیاں اور ترجیحات ہمیں نہ پہلے کہیں پہنچا سکی ہیں، نہ آج کے بعد کہیں پہنچا سکیں گی۔ اس وقت پاکستان میں ایک عجب کیفیت ہے ،ہر سو انقلاب کی بات تو ہے مگر انتشار کی بو زیادہ ہے۔ملک کی اقتصادی حالت جو ہوچکی ، کوئی اس میں بہتر ی لانے کیلئے کاوش کرتا نظر نہیں آرہا۔ ملک پر مسلط کرداروں نے وطن عزیز کو کھوکھلا کر دیا۔حالت یہ ہو گئی کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں سے لے کرانصاف فراہم کرنے والے اداروں تک ، سب پر سے عوام کا اعتبار اٹھ گیا، ایسے میں انقلاب کو انتشار میں تبدیل ہونے کا زیادہ خطرہ ہے۔ یہ جو اب معاشی
تنگی دور کرنے کی باتیں کر رہے ہیں،یہ قوم کے زخموں پر نمک پاشی کے سوا کچھ نہیں کر رہے۔اس چکر بازی میں ایک مرتبہ پھر ان لیڈروں کی دولت میں مزید اضافہ ہوجائے گا اور عوام مزید غریب ہوجائیں گے۔ہم جس خطے میں رہتے ہیں، وہ پہلے ہی آتش فشاں بنا ہوا ہے۔ ایسے میں چند لوگوں کی باتیں، جو وہ انقلاب کے متعلق کرتے ہیں، وہ بالکل ایسی محسوس ہوتی ہیں جیسے کوئی دیو انسانی خون کی بو سونگھتا پھر رہا ہو۔اور خون پینے کی پیاس اسے بے چین کئے ہوئے ہو۔رہی بات ان لوگوں کی جو مریم نواز اور بلاول کو اس طرح لیڈر بنا کر پیش کرتے ہیں، جیسے وہ ہی اس قوم کے نجات دہندہ ثابت ہوں گے۔وہ یہ بات بھول جاتے ہیں کہ ان دونوں کا تعلق اسی فسطائی اور طبقے سے ہے، جس نے اس ملک کا یہ حال کیا ہے۔ جنہیں یہ معلوم نہیں ہوتا کہ ان کی دولت میں اضافہ خود بخود کیسے ہوجاتا ہے، اگرایسی قیادت اس ملک میں انقلاب لانے والی ہے توپھر ہماری عقلوں پر ایسے پردے ہیں جنہیں شاید تیزاب کے ساتھ بھی نہیں دھویا جا سکتا۔رہی بات عمران خان کی تو موجودہ حالات یہ ظاہر کرتے ہیں کہ ملک کی ستر فیصد آبادی اس وقت اس کی تائید کرتی دکھائی دیتی ہے۔ان حالات میں اگر وہ ریاست مدینہ کے اصولوں کی بات کر رہا ہے تو اسے حکمت عملی اور کردار بھی وہی بنانا ہو گا جس کی مثال ریاست مدینہ بنانے والوں نے قائم کی۔حالات جدھر بھی جائیں مگر ریاست کو نقصان پہنچانے والوں کو کسی صورت معاف نہیں کیا جانا چاہیے۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو یقیناً انقلاب برپا کیا جا سکتا ہے۔اور یہ بات ہر اہل علم و دانش بخوبی جانتا ہے کہ قرآن ِ مجید کتابِ انقلاب ہے۔نبی اکرم ﷺ نے قرآن ہی کے ذریعے ایک ہمہ گیر انقلاب برپاکیا۔ حضور ﷺ پر نازل ہونے والی پہلی وحی علم کی فضیلت،اہمیت اور تاثیر کو ہمارے سامنے واضح الفاظ میں پیش کرتی ہے۔اگر ہم اقوام عالم میں اپنا کھویا ہوا مقام دوبارہ حاصل کرنا چا ہتے ہیں تو ہمیں قرآن اور حدیث کی سچی تعلیمات کی طرف دوبارہ پلٹنا ہوگا۔وقت آگیا ہے کہ ہم اپنی نوجوان نسل کوسیرتِ نبویؐ کے ساتھ ساتھ قرآن ِ مجید کی انقلابی تعلیمات سے بھی روشناس کریں، تاکہ ہم اپنی اصل کی جانب لوٹ سکیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button