ColumnNasir Naqvi

جہنم کے خریدار .. ناصر نقوی

ناصر نقوی

 

ہر کلمہ گو کے ذہن میں جہنم اور جنت کا واضح فرق موجود ہوتا ہے اور یہی نہیں، ہر شخص کی تمنا جنت ہی ہوتی ہے وہ دوسروں کو جہنم اور اس کے عذاب سے ڈراتا بھی ہے لیکن خود دنیا کی جہنم کی ہر رنگینی سے لطف اندوز ہونا اپنا حق سمجھتا ہے کیونکہ چار دن کی زندگی پھر اندھیری رات کے فلسفے سے بھی واقف ہے ۔مالک کائنات خدائے بزرگ و برتر سب سے اچھا انصاف کرنے والا ہے، اس نے آدم زادوں کو عقل و فہم دے کر دوسرے جانوروں کے مقابلے میں سوشل اینمل کا درجہ بھی دیا ،پھر بھی معاشرے اور حالات و واقعات سب کی ذ ہنی پرورش ایک سی نہیں کی لہٰذا یکساں صلاحیتیں رکھنے کے باوجود ہر آدمی الگ سہی، مگر لہو کا رنگ ایک ہے ،اس بنیادی تبدیلی میں تعلیم و تربیت اور معاشرہ انتہائی اہم کردار ادا کرتا ہے لیکن بدقسمتی سے یورپ کی پیروی اور جدیدیت کی خواہش پر ایک سے بڑھ کر ایک تعلیمی اداروں کی موجودگی میں مہنگی اور مشکل تعلیم بھی آدمی کو انسان بنانے میں ناکام صرف اس لیے دکھائی دیتی ہے کہ اسے تربیت پر فوقیت مل چکی ہے جبکہ ہمارا معاشرہ روز اول سے تضادات کا شکار ہے۔ ہماری پرانی نسل نے اپنی جدو جہد آزادی ، معاشرتی روایات اور اخلاقیات کو اپنی نئی نسل سے چھپایا ، سچ جھوٹ کی ایسی ایسی داستانیں سنائیں کہ آج جب نئی نسل خصوصی اضافے کے بعد واپس لوٹائے تو انہیں پریشانی ہو جاتی ہے۔ یقین جانئے کہ اے لیول اور او لیول کے طلباء، دوسرے بچوں سے زیادہ تاریخی ، مذہبی اور ادبی معلومات سے آگاہ ہیں چاہیں وہ اسے توجہ دیں یا نہ دیں ، انہیں مطالعہ پاکستان اور اسلامیات کے ساتھ اپنی قومی زبان اردو اجنبی لگتی ہے، کیونکہ اس نصاب پر حقیقی توجہ نہیں دی گئی، اسی طرح علاقائی زبانوں میں سب سے زیادہ بولی اور سمجھی جانے والی پنجابی اپنے پنجاب میںغیر سمجھ کر پڑھائی نہیں جاتی ، چند مخصوص لوگ قومی زبان اردو اور ماں بولی پنجابی کیلئے اپنا کردار ادا کرنے کی کوشش میں مگن ہیں لیکن ان کی کوئی سننے کو تیار نہیں ، ایسا اس لیے ہو رہا ہے کہ ہمارے وجود میں تضاد بیانی گھر کر چکی ہے اسی لیے پوری قوم کہتی کچھ ہے اور کرتی کچھ اور ہے ۔
کہتے ہیں جیسی روح ویسے فرشتے ، لہٰذا ہمارے سیاسی رہنماء بھی ان سے دو ہاتھ آگے ہیں، جناب منو بھائی اکثر کہا کرتے تھے ، پاکستانی پوری قوم جنت کی خواہش مند ہے، انہیں پتا ہے کہ شہادت بڑا اعلیٰ مقام ہی ہے ، میں تمہیں شہید کر کے جنت کا پروانہ دلا سکتا ہوں ، تو عالم باعمل ہو کہ بد کردار وہ فوراً جواب دے گا ، نہیں بھئی نہیں ،ابھی نہیں ، ہم نے دنیا میں ابھی دیکھا ہی کیا ؟ جانا تو سب نے ہے، اپنی باری پر جائیں گے ، اس طرح تو خودکشی اور بے موت مارے جانا کوئی اعزاز نہیں ، لیکن ان ہی لوگوں سے یہ کہہ دیں کہ چند روپے خرچ کرو ، میں محکمہ ہائوسنگ سے ایک پلاٹ الاٹ کرادوں گا اکثریت تیار ہو جائے گی۔ میں نے کئی عالم باعمل کو بھی ان چکروں میں گھن چکر بنتے دیکھا ، البتہ کچھ احتیا ط میں اپنی جگہ نام نامی بیگم صاحبہ یا کسی رشتے دار کا لکھا دیتے ہیں وہ دنیا سے ڈرتے ہیں کہ کہیں کسی کو پتانہ لگ جائے انہیں پتا ہے کہ یہ کاروبار ناجائز اور حرام ہے کیونکہ جو شخص پیسے لے کر کام کروا رہا ہے ۔ رشوت کا عادی راشی ہے اور ہم اور آپ جانتے ہیں کہ رشوت لینے والا اور دینے والا دونوں جہنمی ہیں۔ آقائے دو جہاں کی حدیث مبارکہ کی روشنی میں پھر ایسے کاروباری
شخص سے پوچھیں تو وہ پوری ذمہ داری سے جواب دے گا ہم تو مجبور ی میں ایسا کر رہے ہیں اس معاشرے میں حق تو ملتا نہیں اسی طرح ایک صاحب نے تو اس بات پر جھگڑا شروع کر دیا کہ آپ چار جماعتیں پڑھ کر ہمیں جہنم کا ٹکٹ دے رہے ہیں لیکن یہ نہیں بتاتے کہ اللہ الرحمان ورحیم ہے وہ معاف کرنے والا ہے توبہ کے دروازے ہر وقت کھلے ہیں ۔
اس پوری بات چیت سے جو تاثر آپ تک پہنچا وہ حقیقی بات نہیں ، اصلی بات یہ ہے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان اس وقت بحرانوں میں پھنسا ہوا ہے ،معاشی اور سیاسی معاملات میں حکمرانوں اور سیاستدانوں کو مورد الزام ٹھہرا سکتے ہیں لیکن سیلابی تباہ کاریوں میں بھی یہی لوگ ملوث ہیں جنہوں نے جانتے بوجھتے بھی خلق خدا کیلئے ایسے انتظام نہیں کئے جن سے اس مشکل گھڑی میں مثبت نتائج حاصل کئے جاسکتے ہم سب دنیا کی رنگینیوں کے بعد بھی جنت کے متلاشی ہیں جبکہ مفادات کی چکی میں خریدار جہنم کے بنے ہوئے ہیں صاحب حیثیت ملکی اور بیرون ملک پاکستانی اپنی اپنی ہمت کے مطابق سیلاب زدگان کی مدد کر رہے ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ کیا یہ حقداروں تک پہنچ رہی ہے، حکومتی کارروائیاںاپنی جگہ پھر بھی اطلاعات یہی ہیں کہ لالچی اور موقع پرست ٹولے اپنے اثرو رسوخ سے مال بکری کرنے میں دیدہ دلیری سے لگے ہوئے ہیں اور کسی کو خدا کا خوف نہیں ، کسی کے ذہن وگمان میں بھی نہیں کہ اگر ان متاثر ین کی جگہ وہ ہوتے تو کیا ہوتا ، سب کو اپنی اپنی پڑی ہے، سیاست کے ہیروز بھی صرف فوٹو سیشن کیلئے متاثرین کے پاس گئے، ان کا خیال ہے کہ سیلاب منجانب قدرت خدا ہے اور امداد و بحالی حکومتوں کا کام ہے کوئی یہ جذبہ نہیں رکھتا کہ معاملات اس قدر
خراب ہیں کہ حکومتوں کی بس ہو چکی ہے، یہ بحالی صرف قومی جذبے اور یکجہتی سے ہی ہو سکے گی لیکن ہمارے رویوں میں تبدیلی نہیں آئی ، شوبز سے تعلق رکھنے والی شخصیات بھی ان حالات پر مگر مچھ کے آنسو بہا رہی ہیں انہوں نے کہیں متاثرہ علاقے میں جانے کی بجائے گھر سے ہی اپنے پرموٹر ز رپوٹرز کی مدد سے شہہ سرخیوں اور تصویر کے ساتھ بیان لگوا کر اپنی ذمہ داری پوری کر دی ان عقل کے اندھوں کو بالی وڈ کی اداکارہ انجلینا جولی کی سرگرمیاں نظر نہیں آئیں یہ کافر حسینہ جب کبھی جہاں کہیں کوئی آفت آتی ہے وہاں پہنچ جاتی ہے 2010 کے سیلاب میں بھی آئی تھی ماضی کی طرح دنیا بھر سے آج بھی اس نے امداد کی اپیل کی ہے کہ مصیبت کے ماروں کا کچھ سوچیں ، یہ حقیقت ہے کہ آج سیلاب نے اچھے بھلے کاشتکاروں سے زمین ، گھر ، فصلیں چھین لیں ہیں ان علاقوں میں زمین نام کی کوئی چیز نہیں ہر طرف کیچڑ کے سوا کچھ نہیں ، پھر بھی کتنی پاگل ہے انجلینا جولی کہ وہ اپنی پر تکلف زندگی چھوڑ کر تعفن زدہ علاقوں میں پھر رہی ، یقین جانئے اسے جنت کی بھی تلاش نہیں ہو گی، صرف یہ جانتی ہے کہ مصیبت کی گھڑی میں انسان کو خلق خدا کی مدد کرنی چاہیے، سو وہ کر رہی ہے، حالانکہ اس نے 2010 کا تجربہ اچھا نہیں قرار دیا تھا اس کی تحریر کردہ رپورٹ میں یہ گلہ شکوہ بھی تھا کہ میں غریبوں اور بے گھروں کے پاس جانا اپنا فرض سمجھتی تھی لیکن حکمران اپنے خاندان کے ساتھ میرے ہمراہ فوٹو سیشن کیلئے فکر مند تھے۔ہمارے معاشرے کا تضاد دیکھیں، ہماری شوبز سے منسلک شخصیات خواتین و حضرات رمضان کی خصوصی ٹرانسمیشن سے لے کر محرم الحرام تک جھومتے ، حمد وثناء کرتے آنسو بہاتے دیکھے جاتے ہیں ،ان کے بیان وکلام سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ان سے بڑا دین دار کوئی نہیں ، تالیوں کی گونج میں چم چم کرتی گاڑیاں ، موٹر سائیکلیں خوش نصیبوں میں تقسیم کرنے کے بعد ایسی رقت آمیز دعا کرائی جاتی ہے کہ پتھر دل بھی پگھل جاتے ہیں پھر بھی میلوں دور سے فارغ بیٹھی انجلینا جولی سندھ کی نواحی بستیوں دادو وغیرہ پہنچ گئی اس کے سر پر کالا دوپٹہ ہے اور گود میں بے سہارا بچے ، کافر لوگ ، نہ کوئی مذہب نہ مسلک ، نہ کوئی پیر نہ کوئی مرید اور نہ ہی انہیں اپنے گھر بار بچوں کی فکر۔ ہم ماشااللہ اپنے خاندان سے جڑے ہیں ،نیکی کا حکم بھی یہی ہے کہ اپنے گھر سے شروع کرو ہمارے وسائل ہی محدود ہیں مہنگائی ، بے روزگاری نے جینا حرام کردیا ہے، ایسے میں بھلا کیسے بھلائی کے کام ہو سکتے ہیں ،ان ترقی یافتہ کافروں کے مسائل کم اور وسائل بھی زیادہ ہیں ہمارا ان کا مقابلہ نہیں۔
اب سنئے ملک کے تاجر طبقے کی یہ رفاہی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں، موجودہ حالات میں بھی اپنا فرض سمجھ کر امدادی کاموں میں پیش پیش ہیں لیکن حالات کی سنگینی سے ہر ممکن فائدہ اٹھانا بھی اپنا حق سمجھتے ہیں سیلاب کی تباہی نے خورونوش کے علاوہ تمام ضروریات زندگی کی راہ میں رکاوٹ ڈالی ہے۔ سڑکیں تباہ ہو چکی مال کی ضرورت کے مطابق سپلائی بھی نہیں ہو رہی ، لہٰذا مصنوعی مہنگائی کا بازار بھی گرم ہو گیا ، جن کے گودام بھرے ہیں وہ اپنی مرضی کے ریٹ پر مال فروخت کر رہے ہیں ذخیرہ اندوزوں کی چاندی ہے، ان کا کہنا ہے کہ جب رسدا ور طلب کے مطابق اشیاء نہیں ملے گی تو پھر قیمتوں کا اضافہ ایک فطری عمل ہے۔ اول تو ہم کاروباری لوگ ہیں ہم نے ہر حال میں دو دونی چار ہی کرنی ہے۔ کمائیں گے نہیں تو کھائیں گے کیا ؟ دوسرے مشکل حالات میں سب کچھ تو ہمارے گوداموں سے فراہم کیا جارہا ہے۔ سوچیں اگر ہم نے بھی گودام خالی رکھے ہوتے تو کیسا مشکل ترین بحران پیدا ہوتا؟ ہم اگر اپنی خدمت کے عوض چند پیسے کمالیں گے تو یہ ہمارا حق ہے پھر بھی تنقید ہم پر کی جاتی ہے ایسی صورت حال میں اب فیصلہ آپ کریں کہ کون جنت کا متلاشی ہے اور کون جہنم کا خریدار؟

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button