ٹرینوں میں بغیر ٹکٹ مسافروں کو جرمانے

ٹرینوں میں بغیر ٹکٹ مسافروں کو جرمانے
تحریر: رفیع صحرائی
خبر ہے کہ گزشتہ دو ہفتے کے دوران ٹرینوں میں بغیر ٹکٹ سفر کرنے والے قریباً پانچ ہزار مسافروں کے خلاف کارروائیاں کی گئی ہیں۔ دو ہفتے کے دوران مختلف ٹرینوں پر چھاپے مارے گئے اور 4931مسافروں کو بغیر ٹکٹ سفر کرتے ہوئے پکڑ لیا گیا۔ ان مسافروں کو 153120روپے جرمانہ کیا گیا جبکہ ٹکٹوں کی مد میں مسافروں سے 70لاکھ 44ہزار روپے وصول کر کے خزانے میں جمع کروائے گئے۔
اس خبر سے مجھے قریباً چالیس سال پہلے کا ایک واقعہ یاد آ گیا۔ قصور ریلوے اسٹیشن پر پاکستان ریلوے کے ایس ٹی ایز ( اسپیشل ٹکٹ ایگزامینرز) جنہیں عرف عام میں ٹی ٹی کہا جاتا تھا، کا ایک اجلاس منعقد ہوا۔ محکمہ ریلوے کے کچھ افسران بھی اس اجلاس میں شریک تھے جن کے سامنے ٹی ٹی حضرات کی جانب سے چارٹر آف ڈیمانڈز پیش کیا گیا جس میں تنخواہیں بڑھانے کا مطالبہ بھی شامل تھا۔ اس مطالبے کے حق میں تقاریر بھی ہوئیں اور خوب دلائل بھی پیش کیے گئے۔ یہ اجلاس شرکاء کی زیادہ تعداد کے پیشِ نظر اسٹیشن کے پلیٹ فارم پر منعقد ہو رہا تھا۔ ٹی ٹی حضرات ٹرینوں کے لیٹ ہونے کی وجہ سے ڈیوٹی اوقات میں اضافے یعنی اوور ٹائم کی مد میں دوگنا معاوضے کا مطالبہ بھی کر رہے تھے۔ ان دنوں ٹرینیں کئی کئی گھنٹے لیٹ ہو جایا کرتی تھیں۔ مسافروں میں یہ تاثر پایا جاتا تھا کہ اوور ٹائم کے لالچ میں عملہ جان بوجھ کر ٹرین لیٹ کرتا ہے۔ واپس اس اجلاس کی طرف آتے ہیں۔ جب ٹی ٹی حضرات کا اپنے مطالبات کے حق میں شور حد سے بڑھ گیا تو پلیٹ فارم پر موجود ایک دیہاتی مسافر آگے بڑھا اور افسران سے مخاطب ہو کر بولا۔
’’ جناب! آپ مجھ سے پانچ سو روپے روزانہ لے لیا کریں۔ بس مجھے لاہور سے پاک پتن تک ٹی ٹی لگا دیں‘‘۔
اجلاس میں یکدم سناٹا چھا گیا۔ پھر سرگوشیاں ابھریں اور اس کے بعد قہقہے لگنے شروع ہو گئے۔ اس سادہ سے دیہاتی نے صرف ایک جملے میں لاہور تا پاک پتن ریلوے سیکشن کی پوری صورتِ حال واضح کر دی تھی۔ یہ 1985ء کے لگ بھگ کی بات ہے۔ لاہور پاکپتن سیکشن پر پانچ اپ اور پانچ ڈان ٹرینیں چلا کرتی تھیں۔ ایک ٹرین ریل کار کے نام سے لاہور تا پاک پتن چلتی تھی جو دن کے وقت لاہور قصور کے درمیان شٹل چکر بھی لگاتی تھی۔ باقی ٹرینیں لاہور تا سمہ سٹہ یا لودھراں تک جاتی تھیں۔ تب مسافروں میں ٹکٹ خریدنے کا رواج ذرا کم تھا۔ اگر لاہور سے پاک پتن تک کرایہ دس روپے ہوتا تو ٹی ٹی صاحب کو پانچ روپے نذرانہ دے کر مسافر ٹرین میں بیٹھ جاتا۔ ٹی ٹی بھی خوش، مسافر بھی خوش اور خزانے کو مسلسل ٹیکہ لگتا رہتا۔ طلباء اور ملازمت پیشہ حضرات ریلوے کے ’’ کنفرم اور پیشہ ور مفت بر‘‘ ہوا کرتے تھے۔ پچاس فیصد سے زائد مسافر بغیر ٹکٹ سفر کیا کرتے تھے۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ٹی ٹی حضرات کا بینک بیلنس تو بڑھتا گیا مگر ٹرینیں مسلسل خسارے میں رہیں۔ اب اس سیکشن پر چار ٹرینیں بند ہو چکی ہیں۔ پاکستان ریلوے نے حقیقتِ حال جان کر اصلاح کرنے کی بجائے اس ٹریک پر اسی فیصد ٹرینیں بند کرنا مسئلے کا حل سمجھا۔ اب اس ٹریک پر صرف ایک ٹرین چلتی ہے۔ یہی حال پورے پاکستان میں ہوا ہے۔ منافع میں چلنے والے ادارے کو اس کے ملازمین نے تباہ و برباد کر کے رکھ دیا۔ شنید ہے کہ اس تباہی میں افسرانِ بالا بھی ملوث ہیں جنہوں نے مبینہ طور پر ٹرانسپورٹرز کمپنیوں سے مک مکا کر کے ٹرینوں کی بندش میں اپنا کردار ادا کیا۔ کہیں ٹھیکوں کی مد میں کروڑوں روپے کے گھپلے ہوئے تو کہیں سکریپ اور پرزے بیچ کر اپنی جیبیں گرم کی گئیں۔
پاکستان ریلوے نے ٹرینیں ٹھیکے پر دیں تو ٹھیکے پر چلنے والی ٹرینوں اور حکومتی انتظام میں چلنے والی ٹرینوں کی کارکردگی میں نمایاں فرق نظر آنے لگا۔ آپ موازنہ کر کے دیکھ لیں، پرائیویٹ ٹرینوں میں صفائی کا نظام بہتر ہوتا ہے۔ وہ بروقت پہنچتی ہیں۔ ان میں روشنی کے لیے بلب اور پنکھے درست حالت میں ہوتے ہیں جبکہ سرکاری انتظام میں چلنے والی ٹرینیں لیٹ بھی ہوتی ہیں، ان میں صفائی کا معیار غیر تسلی بخش ہوتا ہے۔ ان میں پنکھے خراب اور بلب ٹوٹے ہوئی ملتے ہیں۔ مسئلہ صرف مینیجمنٹ کا ہے۔ پرائیویٹ کمپنیز ٹرین کے ہر کمپاٹمنٹ کے لیے ٹکٹ چیکر اور ایک سپاہی کی ڈیوٹی لگاتی ہیں۔ ان کی نظر اپنے کمپارٹمنٹ کے ہر مسافر پر ہوتی ہے۔ وہ بغیر ٹکٹ سفر کرنے والے ہر مسافر سے کرائے کے علاوہ دس یا بیس روپے آن لائن ٹکٹ کی فیس وصول کرتے ہیں اور پوری رقم کا ٹکٹ گیجٹ سے نکال کر مسافر کو دے دیتے ہیں۔ اس ٹکٹ کا آن لائن ریکارڈ فوری طور پر ہیڈآفس منتقل ہو جاتا ہے۔ اگر ٹرین کے دس ڈبے ہوں گے تو اس ٹرین میں دس ٹکٹ چیکر ہوں گے۔ محکمہ ریلوے نے سخت خسارے میں جانے کے باوجود سبق نہیں سیکھا۔ اس نے وہی پچاس ساٹھ سالہ نظام سینے سے لگا رکھا ہے۔ ٹرین میں چاہے دس ڈبے ہوں مگر پوری ٹرین کے لیے ایک ٹکٹ ایگزامینر کی ڈیوٹی لگائی جاتی ہے۔ ایک بندہ ایک وقت میں صرف ایک کمپارٹمنٹ ہی کو دیکھ سکتا ہے۔ بغیر ٹکٹ سفر کرنے والے مسافر بھی ٹرین روانہ ہونے سے پہلی سوار نہیں ہوتے۔ وہ اس ڈبے میں سوار ہوتے ہیں جس میں ٹکٹ ایگزامینر سوار نہ ہو۔ ٹکٹ ایگزامینرز محکمہ کی تباہی کا حال اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں مگر انہوں نے بھی اپنا رویہ نہیں بدلا۔ بغیر ٹکٹ مسافروں سے پیسے وصول کر کے انہوں نے جیبیں بھرنے کا سلسلہ کم ضرور کیا ہے لیکن اس روش کو ترک نہیں کیا۔ اگر محکمہ ریلوے بھی پرائیویٹ کمپنیز کے تحت چلنے والی ٹرینوں کے نظام کو اپنا لے تو چھاپے مارنے اور بغیر ٹکٹ مسافروں کو پکڑنے کی ضرورت ہی نہ رہے۔




