
جگائے گا کون؟
ناممکنات کو ممکن بنانے والا معاہدہ
تحریر: سی ایم رضوان
اس وقت پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت کے درمیان اعتماد اور باہمی یقین کی جو سطح موجود ہے وہ پہلے کبھی دیکھنے کو نہیں ملی تھی، اور یہی اتحاد پاکستان کو قومی اہمیت کے بڑے اہداف حاصل کرنے کے قابل بنا رہا ہے۔ دوسری طرف بھارت کو حالیہ جھڑپوں میں عبرتناک شکست سے دوچار کرنے کے تناظر میں دنیا بھر میں پاکستان کو جو اعتماد، وقار اور شان و شوکت میسر آئی ہے وہ پوری مسلم امہ کے لئے باعث فخر ہے۔ اس وقت ملک کی دونوں طاقتور شخصیات کے درمیان ایک منفرد اور ہم آہنگ تعلق ہے جو خالص قومی مفاد پر مبنی ہے اور پاکستان کی ترقی پر مرکوز ہے۔ صد شکر کہ وزیر اعظم شہباز شریف اور فیلڈ مارشل سید عاصم منیر مکمل ہم آہنگی کے ساتھ کام کر رہے ہیں، ان کے درمیان رابطہ مثالی ہے اور پاکستان کی خارجہ اور دفاعی پالیسی کے لئے ایک مشترکہ ویژن پایا جاتا ہے۔ اب یہ بات بھی تسلیم کر لی گئی ہے کہ حالیہ پاک بھارت جنگ میں وطن عزیز کی قابلِ ذکر فتح کا سبب بھی یہی تھا کہ تب بھی ملک کی سیاسی اور عسکری قیادت کے مابین غیر معمولی سطح کی یکجہتی اور سمجھ بوجھ کا عمل دخل مثالی تھا۔ ان کا تعاون عسکری، سفارتی اور سیاسی ردعمل کے تمام پہلوئوں پر محیط تھا جس سے اس بات کو یقینی بنایا گیا کہ ملک کے اسٹریٹجک مقاصد کو واضح اور موثر انداز میں حاصل کیا جائے۔ اسی پراعتماد شراکت داری نے سعودی عرب کے ساتھ ہونے والے حالیہ عسکری معاہدے کی بنیاد رکھی ہے۔ یہ اعلیٰ سطح کا تاریخی کئی ماہ کی محتاط اور مربوط سفارتکاری کا عکاس ہے جو اعلیٰ سیاسی و عسکری قیادت کی پشت پناہی کے ساتھ ممکن ہوا۔ یاد رہے کہ ماضی میں سول اور عسکری قیادت کے درمیان اختلافات کی وجہ سے ملک کا مستقبل خطرات سے دوچار ہوتا آیا ہے۔ خاص طور پر نیوٹرل تو جانور ہوتے ہیں جیسے سلوگنز نے ملک کو جگ ہنسائی کے سوا کچھ نہیں دیا۔ اب جبکہ یہ تاریخی معاہدہ ہوا ہے تو اس پر بھارتی میڈیا میں واویلا مچ گیا ہے۔ جس پر وزیرِ دفاع خواجہ آصف کا کہنا ہے کہ پاک سعودی معاہدے سے بھارت کو ہونے والی پریشانی فطری ہے، بھارت کا چیخیں مارنا کوئی مسئلہ نہیں ہے، ان کا کہنا ہے کہ ہمارے کسی ملک کے خلاف کوئی عزائم نہیں، ہم تو برصغیر میں بھی امن چاہتے ہیں، اگر اب بھی ہمارے خلاف جارحیت ہوتی ہے تو دفاع کرنا ہمارا حق ہو گا۔ ڈپٹی وزیر اعظم اسحاق ڈار نے کہا ہے کہ پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان ہونے والا دفاعی معاہدہ ایک روز میں نہیں ہوا بلکہ اس معاہدے کی تکمیل کے لئے مہینے لگے ہیں۔ چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو نے بھی تہنیتی پیغام دیا ہے۔
پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان ہونے والا یہ اسٹریٹجک معاہدہ کئی اعتبار سے غیر معمولی نوعیت کا حامل ہے جس کے اثرات پر دنیا بھر میں بحث ہو رہی ہے۔ مسلم دنیا، مشرق وسطیٰ اور جنوبی ایشیا میں اسے خاص توجہ سے دیکھا جا رہا ہے۔ ابھی اس پر کئی ممالک کا ردعمل محتاط ہے، بھارت نے کھل کر تبصرہ نہیں کیا، امریکی بھی صورتحال کا جائزہ ہی لے رہے ہیں۔ ایرانی ردعمل بھی مختلف ممکن ہے کیونکہ تہران میں بھی اس پیشرفت کا گہرائی سے تجزیہ ہو رہا ہوگا۔ پاکستان کے نقطہ نظر سے البتہ اس میں بہت کچھ، بہت دلچسپ، اہم اور غیر متوقع ہے۔ تاہم اس میں کوئی شک نہیں کہ اس معاہدے نے ہر ایک کو چونکا دیا ہے۔ یہ ہر اعتبار سے سرپرائز ثابت ہوا۔ کسی بھی بڑے اخبار، تھنک ٹینک، تجزیہ کار یا عالمی انٹیلی جنس ایجنسی نے اس قسم کے معاہدے کا اندازہ نہیں لگایا تھا۔ کہیں پر ہلکا سا اشارہ بھی نہیں ملا۔ یہ بذات خود ایک بڑی کامیابی ہے۔ اس امر میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان اور سعودی عرب میں امریکی اثر و رسوخ موجود ہے اور یہاں سے اتنی اہم خبر لیک ہونے کے قوی امکانات موجود تھے۔ مگر ایسا نہ ہو سکا۔ کہا جا رہا ہے کہ ایران اسرائیل جنگ نے بھی اس تصور کو مضبوطی بخشی ہوگی، قوی امکانات یہی ہیں کہ اسرائیل کے قطر پر حملے نے معاملے کو فیصلہ کن پوزیشن دی ہو اور پھر ایک ہفتے کے اندر ہی یہ بڑی ڈیل ہوگئی۔ تاہم اسے جس ذمہ داری اور سنجیدہ انداز میں خفیہ رکھا گیا وہ لائق تحسین ہے۔ یہ معاہدہ دو دوست ممالک کے درمیان ہوا اور جو مرکزی شق سب کے سامنے لائی گئی، وہ یہی ہے کہ مشترکہ دفاع ہو گا، ایک پر حملہ دوسرے پر حملہ تصور ہوگا۔ اس اعتبار سے تو پاکستان پر حملے کی صورت میں سعودی عرب کی جانب سے فوجی اور ہر قسم کی مدد متوقع ہو گی یا ہونی چاہیے۔ تاہم ہر جگہ تجزیہ کار اسے دوسرے زاویے سے دیکھ رہے ہیں۔ زلمے خلیل زاد اور اس قبیل کے بعض دیگر تجزیہ کاروں نے تو صاف کہہ دیا ہے کہ لگتا ہے سعودی عرب پاکستان کی نیوکلیئر چھتری کے نیچے آ رہا ہے۔ بیشتر جگہوں پر ایسا تاثر لیا گیا ہے کہ جیسے دفاعی اور عسکری اعتبار سے زیادہ طاقتور اور مضبوط پاکستان نے اپنے ایک دیرینہ قریبی دوست ملک کو اپنے تحفظ میں لے لیا ہے۔ یقیناً اس سے پاکستان کا قد زیادہ بلند ہوا ہے۔ پاکستان کے سابق وزیر اور خارجہ امور کے تجزیہ کار مشاہد حسین کا تو خیال ہے کہ پاکستان نے خاموشی سے عرب دنیا کی حفاظت سے مغرب کو نکال کر خود جگہ لے لی ہے۔ ہر جگہ عمومی تاثر یہی ہے کہ سعودی عرب نے اپنی حفاظت کی خاطر پاکستان سے یہ معاہدہ کیا ہے۔ یہ سوال بہرحال اہم ہے کہ کیا معاہدے میں نیوکلیئر ڈیٹرنس کی بات کی گئی ہے؟ ابھی تک تو ایسی کوئی بات اس معاہدے میں سامنے نہیں آئی۔ بظاہر ایسی کوئی گارنٹی بھی نہیں دی گئی ہے البتہ تجزیہ کار اسے قرین قیاس سمجھ رہے ہیں۔ ایک بھارتی تجزیہ کار رابعہ اختر کی رائے ہے کہ اس بات کا امکان نہیں ہے کہ پاکستان باضابطہ طور پر سعودی عرب کو جوہری تحفظ دے گا، مگر اس معاملے میں ابہام ہی سعودی مقاصد کو پورا کر سکتا ہے۔ بھارت سرکار کا ابتدائی ردعمل حیران کن طور پر محتاط رہا ہے۔ تاہم بھارتی تشویش چھپائے نہیں چھپ رہی، وہاں کئی دفاعی تجزیہ کاروں، صحافیوں اور فعال سیاسی کارکنوں نے اس پر تشویش ظاہر کی ہے، کانگریس کے بعض رہنماں نے مودی حکومت پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ مشرق وسطیٰ میں بھارتی اثر و رسوخ میں کمی آئی ہے۔ یہ واضح ہے کہ اس معاہدے سے بھارت خوش نہیں ہوگا کیونکہ پاک سعودی عرب تعلقات نہ صرف زیادہ مضبوط، گہرے اور مستحکم ہوئے ہیں بلکہ ان میں وسعت اور گہرائی آئی ہے۔
کئی ممتاز مغربی تجزیہ کار اور عسکری ماہر سمجھتے ہیں کہ پاکستان کے پاس معقول تعداد میں نیوکلیئر ہتھیار موجود ہیں اور ایسے لانگ رینج تیز رفتار میزائل بھی جو 3ہزار کلومیٹر تک مار کر سکتے ہیں۔ پاکستان کا میزائل شاہین تھری نیوکلیئر وار ہیڈ لے جانے والا میزائل تصور ہوتا ہے، یہ ہائپر سونک میزائل ہے اور اس کی رفتار 8سے 10میک تک بتائی جاتی ہے۔ پہلے تاثر یہ تھا کہ اس کی رینج 2700کلومیٹر تک ہے، مگر مغربی عسکری حلقوں میں یہ کہا جاتا ہے کہ پاکستان نے دانستہ طور پر اس کی رینج کم بتائی ہے، ورنہ یہ آسانی سے 3300سے 3500کلومیٹر تک مار کر سکتا ہے، یاد رہے کہ اسرائیل کا دارالحکومت تل ابیب پاکستان سے 3200کلومیٹر کے لگ بھگ ہے۔ پاکستان نے چند سال قبل یمن کے خلاف جنگ کے لئے سعودی عرب کی درخواست مسترد کر دی تھی، تاہم پاکستان ایک نکتے پر طویل عرصے سے یکسو ہے اور جو بھی حکمران آیا، وہ اس پر متفق رہا ہے کہ حرمین شریفین کے تحفظ کے لئے پاکستانی افواج کو سعودی عرب کے ساتھ کھڑا ہونا چاہیے۔ اس لحاظ سے اگر سعودی عرب پر ممکنہ اسرائیلی حملے کی بات ہو تو پاکستان کھل کر سعودی عرب کے ساتھ جائے گا اور پھر اس تعاون کی کوئی حد نہیں ہوگی کہ حرمین شریفین کا تحفظ اور محافظ الحرمین کہلانا پاکستان اور پاکستانی افواج، لیڈروں، کمانڈروں کے لئے بہت جذباتی معاملہ ہے۔ البتہ پاکستان سعودی عرب اور ایران کے درمیان تعلقات بہتر کرانے کی کوشش کرے گا اور یوں یمن کا بحران شاید ختم ہی ہو جائے۔ بعض عرب تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ سعودی عرب نے پہل کی ہے اور ایک طرح سے یہ بارش کا پہلا قطرہ ہے۔ امکانات ظاہر کئے جا رہے ہیں کہ متحدہ عرب امارات، قطر، بحرین اور شاید عمان بھی پاکستان کے ساتھ اسی نوعیت کے معاہدے کا حصہ بن جائیں۔ تاہم ضروری نہیں کہ ایسا عجلت میں ہو، ابھی تو ہر ملک یہ بھی دیکھ رہا ہے کہ امریکا اس پر کیا ردعمل دیتا ہے؟ کیا خبر ایک اور دفاعی معاہدہ کئی مسلم ممالک مل کر کریں جن میں عرب ممالک، پاکستان اور ترکیہ بھی شامل ہوں۔ ایک خیال یہ بھی ہے کہ امریکا تو قطعی طور پر برداشت نہیں کرے گا کہ اتنا بڑا ریجنل شفٹ آ جائے اور عرب ممالک امریکی ڈیٹرنس سے نکل کر پاکستان کو اپنا محافظ بنا لیں۔ امریکا اس سے بھی خوفزدہ ہوگا کہ کیا یہ سب کچھ ان عرب ممالک کو چینی بلاک میں لے جانے کے لئے تو نہیں ہو رہا؟ وائٹ ہائوس اعلانیہ طور پر جو بھی کہی، امریکی اس پیشرفت کو پسند نہیں کریں گے، پاکستان پر امریکی دبائو بھی آئے گا، بہت سی سازشیں بھی ہوں گی اور کئی ایسے مدعے اور معاملات اچھالے جائیں گے جن کی طرف پہلے امریکا توجہ نہیں دے رہا تھا۔ قوی امکان تو یہ ہے کہ سعودی عرب بیلنس کرنے کی کوشش کرے گا اور ہو سکتا ہے اس نے بیلنس کر کے ہی یہ قدم اٹھایا ہو۔ تاہم جو درپردہ مخالفت ہونی ہے، وہ تو ہوگی۔ سب سے زیادہ امکانات تو یہ ہیں کہ پاکستان اسلحے کے حوالے سے بڑی پیشرفت کر سکتا ہے۔ جدید ترین میزائلوں کی تیاری پر کام تیز ہو جائے گا۔ پاکستان اب بڑی تعداد میں ہائپر سونک بیلسٹک میزائل اور تیز رفتار خطرناک ڈرون بنانے کی کوشش کرے گا۔ سعودی مالی مدد اور سپورٹ سے پاکستان کی عسکری قوت اور سازو سامان کے ساتھ جدید اسلحے کے حصول اور خود کفالت میں خاصا اضافہ ہوگا۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ مزید پاکستانی دستے سعودی عرب جائیں، سعودی فوج کی تربیت وغیرہ میں بھی اضافہ ہو۔ یہ بھی ممکن ہے۔ پاکستان میں سعودی انویسٹمنٹ میں بھی خاصا اضافہ ہوگا، اس کے علاوہ امکانات ہیں کہ سعودی عرب پاکستان میں مزید چند ارب ڈالر اگلے 3یا 5سالوں یا زیادہ عرصے کے لئے پارک کردے تاکہ پاکستانی روپیہ ڈالر کے مقابلے میں مستحکم ہو۔ پاک سعودی عرب معاہدے کے بعد یہ سب کچھ اب ممکن لگ رہا ہے۔ یعنی متعدد ناممکنات کو ممکن بنا سکتا ہے۔





