پاکستان

یہ ناقابل تصور ہے سپریم کورٹ شہریوں کے بنیادی حقوق چھین لے، جسٹس اطہرمن اللہ

سپریم کورٹ کے جسٹس اطہر من اللہ نے کہا ہے کہ آرٹیکل 8 ریاست کو ایسی قانون سازی سے روکتا ہے جو بنیادی حقوق کو ختم یا محدود کرے اور یہ ناقابل تصور ہے کہ سپریم کورٹ شہریوں کے بنیادی حقوق چھین لے۔

جسٹس اطہر من اللہ نے مختار احمد علی کی سپریم کورٹ ملازمین کی معلومات دینے سے متعلق درخواست پر اردو میں اضافی نوٹ جاری کردیا۔

جسٹس اطہر من اللہ کے اضافی نوٹ میں کہا گیا کہ اپنے بھائی قاضی فائز عیسیٰ کے فیصلے سے مکمل اتفاق کرتا ہوں، کیس کے فیصلے میں اضافی رائے دینا چاہتا ہوں۔

جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ معلومات تک رسائی کا حق آئین کے آرٹیکل 19 اے میں دیا گیا ہے، کوئی حکومت یا ادارہ معلومات تک رسائی کے بنیادی حق سے محروم نہیں کر سکتی۔

اضافی نوٹ میں انہوں نے لکھا ’درست ہے کہ آرٹیکل 19 اے کے بنیادی حق کا استعمال مناسب پابندیوں کے تابع ہے، مناسب پابندیوں کی اصطلاح آئینی حق کا دائرہ محدود کرنے کا اختیار نہیں دیتی، آرٹیکل 8 ریاست کو ایسی قانون سازی سے روکتا ہے جو بنیادی حقوق کو ختم یا محدود کرے‘۔

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ سپریم کورٹ بنیادی حقوق کے تناظر میں دیگر اداروں کے اقدامات کا عدالتی جائزہ لیتی ہے، یہ ناقابل تصور ہے کہ سپریم کورٹ شہریوں کے بنیادی حقوق چھین لے۔

اضافی نوٹ میں کہا گیا ہے کہ عوام یہ سمجھیں کہ بنیادی حقوق کے محافظ خود حقوق محدود کرنے میں ملوث ہیں تو ان کا اعتماد ختم ہو جائے گا، عوامی اعتماد ختم ہوا تو عدلیہ کی آزادی کمزور پڑ جائے گی۔

جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کے پاس تلوار یا خزانے کا کوئی کنٹرول نہیں، سپریم کورٹ کی قوت صرف عوام کا اعتماد ہے، معلومات تک رسائی کا حق بدعنوانی کے خلاف ایک قلعہ ہے۔

اضافی نوٹ میں کہا گیا کہ ججز اور ملازمین کی مراعات سپریم کورٹ کا بجٹ عوامی اہمیت کے حامل اور شہریوں کی دلچسپی کے موضوع ہیں، شہریوں کو معلومات کی فراہمی کیلئے درخواست دائر کرنے کی ضرورت ہی نہیں ہونی چاہیے۔

جسٹس اطہر من اللہ نے مزید کہا کہ سابق چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کے فیصلے سے متفق ہوں، معلومات تک رسائی کے قانون کو سختی سے نافذ کیا جائے۔

واضح رہے کہ 16 اکتوبر 2023 معلومات تک رسائی کے حق سے متعلق مقدمے کا فیصلہ سابق چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسٰی کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے سنایا۔

سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا کہ رجسٹرار سپریم کورٹ 7 روز میں معلومات درخواست گزار کو فراہم کرے، معلومات کے حصول کا تقاضا کرنے والے پر وجوہات بتانا لازم ہے۔

اس میں کہا گیا ہے کہ درخواست گزار کو انٹرا کورٹ اپیل اور سپریم کورٹ میں اپیل کے لیے جمع کرائی گئی فیس واپس کی جائے۔

عدالت عظمیٰ نے کہا کہ فیصلے کو اردو میں بھی جاری کیا جائے گا، معلومات فراہم کرنے والا وجوہات کے جائزے کا پابند ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button