حکومت نے آئینی ترمیم پر مولانا کو منانے کے لیے ایک عرب ملک کا فون کروایا؟
پاکستان کی سیاست کا رخ آنے والے دنوں میں کس جانب ہوگا؟ کیا عمران خان کی راحت کا سامان پیدا ہوگا یا پھر اتحادی حکومت کے تخت کو دوام ملے گا ان سب سوالوں کے جواب جس ایک شخصیت کی جیب میں موجود ہیں وہ ہیں مولانا فضل الرحمان۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ 26ویں آئینی ترمیم کا بنیادی مقصد ایسا بندو بست کرنا ہے جس سے موجودہ نظام کی ‘فیلڈ فارمیشن’ برقرار رہے۔ اس ضمن میں حکومتی ‘چانکیاز’ کا خیال ہے یہ تواتر چیف جسٹس قاضی فائز عیسی’ کے بغیر نا ممکن ہے۔ لیکن اب تک اس پوری کوشش کو صرف مولانا کی وجہ سے ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا ہے۔ حکومت و اسٹیبلشمنٹ کو شدید خفت کا سامنا ہے۔ اور ہو بھی کیوں نہ کہ حکومت نے اپنی طرف سے ہر غیر سیاسی حربہ استعمال کر کے یہ فر ض کر لیا تھا کہ اب یہ ترمیم کا مسئلہ حل ہو کر ہی رہے گا۔ بس نہیں کیا تو سیاسی عمل نہیں کیا اور یہی اس کی سبکی کا باعث بنا۔ اب تازہ ترین انکشاف کے مطابق حکومت نے مبینہ طور پر مولانا فضل الرحمان کو ایک اہم عرب دوست ملک سے فون کروا کر آئینی ترمیم کروانے کے لئے حکم نما تاکید کروائی۔ اور اس بارے میں حکومت کے عہدہدار آنکھیں مار مار کر چسکے لیتے اور اعتماد سے گھومتے تھے۔ ملک کے معروف صحافی و اینکر حامد میر نے اپنے تازہ ترین کالم میں اس انکشاف سمیت دیگر انکشافات کرتے ہوئے لکھا ہے کہ کچھ حکومتی شخصیات یہ دعوے کرتی رہیں کہ مولانا فضل الرحمان ہمارے دامِ الفت میں گرفتار ہو چکے ہیں۔ جب ہم نے ایک اہم حکومتی شخصیت سے ان کے دعوے کی وجہ پوچھی تو انہوں نے آنکھ مار کر کہا کہ مولانا کو ایک ایسی جگہ سے حکم جاری کروایا گیا ہے، جہاں مولانا انکار نہیں کر سکتے۔ اسی غلط فہمی میں 26ویں آئینی ترمیم کی منظوری کیلئے پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کا اجلاس بلا لیا گیا۔ مولانا نے ایک دفعہ نہیں بار بار وزیر اعظم اور ان کے وزراء سے کہا کہ میں کسی ایسی آئینی ترمیم کا حصہ نہیں بنوں گا جس کا مقصد آئین کے ڈھانچے کو تباہ کرنا ہو۔ پھر یہ صاحبان نمبرز گیم پوری ہونے کا دعویٰ کیوں کرتے رہے؟ جی ہاں! ان کے اعتماد کی وجہ وہ جگہ تھی جہاں سے آنے والے حکم پر یہ صاحبان فوراً جھک جاتے ہیں۔ مولانا نے اس جگہ نہ انکار کیا نہ کوئی گستاخی، انہوں نے اپنا مدعا بڑے ادب سے بیان کیا کیونکہ مولانا کئی غیر ملکی زبانیں بول سکتے ہیں۔ یہ تو سب کو معلوم ہے کہ مولانا فضل الرحمان کی جماعت جمعیت علماءے اسلام کے سعودی عرب کے ساتح براہ راست تعلقات ہیں۔ مولانا ہر سال ہی سعودی شاہی خاندان کے مہمان خصوصی کے طور پر حج کرنے سعودی عرب جاتے ہیں اور پاک سعودی تعلقات میں بھی انکا کردار رہا ہے۔ یہ سب واضح ہوجانے کے بعد سوال یہ ہے کہ کیا یہ ملکی معاملات میں جان بوجھ کر غیر ملکی مداخلت کروانا نہیں ہے ؟ اور اگر ایسا ہے تو کیااس حکومت پر بھی غداری کا مقدمہ چلنا چاہیے؟ حکومت کے ہاتھ سوائے شرم کے یہی جرم باقی بچتا ہے۔