بچوں کے حقوق کا تحفظ اور وفاقی محتسب کا اہم کردار

ضیاء الحق سرحدی
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے 1959میں منظور شدہ بچوں کے حقوق کا اعلامیہ ایک اہم دستا ویز ہے، جس میں بچوں کی صحت کی دیکھ بھال، اچھی غذائیت، تعلیم اور بچوں کے حقوق کی وضاحت کی گئی تھی۔ اس اعلامیہ نے آگے چل کر بچوں کے حقوق سے متعلق بین الاقوامی قانون سازی کے لئے ایک بنیادی دستاویز کا کام کیا اور متنوع سیاق و سباق میں بچوں کے حقوق کے تحفظ اور فروغ کے لئے بننے والے قوا نین اور پالیسیوں کے با رے میں پو ری دنیا کی رہنما ئی کی۔1989میں عالمی رہنماؤں نے بچوں کے حقوق سے متعلق اقوام متحدہ کے کنونشن کی صورت میں دنیا بھر کے بچوں کے ساتھ ایک ہمہ گیر عہد کیا۔ جس میں حکومتوں کی ذمہ داریوں کے ساتھ ساتھ بچوں کے حقوق کی بھی بھر پور وضاحت کی گئی ہے۔
پاکستان میں گزشتہ کئی برسوں سے بچوں کی حا لت کو بہتر بنانے اور ان کے حقوق کے تحفظ کے لیے قانونی اور ادارہ جاتی فریم ورک میں بہتر ی لا نے کے لیے مسلسل کوششیں جا ری ہیں۔ یہاں یہ بات خصوصی اہمیت کی حا مل ہے کہ وفاقی محتسب نے بچوں کی فلاح و بہبود اور ان کے حقوق کے تحفظ کے سلسلے میں اپنی کوششیں تیز تر کر تے ہو ئے ایک نما یاں کردار ادا کیا اور اس سلسلے میں وفاقی محتسب کا عزم غیر متزلزل رہا۔بچوں کی فلاح و بہبود کو متاثر کرنے والے بڑھتے ہوئے چیلنجوں کے پیش نظر، وفاقی محتسب سیکرٹریٹ میں دفتر شکایات کمشنر برائے اطفال(Office of The Grievance Commissioner for Children) کا قیام عمل میں لا یا گیا جس کی طرف سے وفاقی محتسب کے ’’ تشخیص، تفتیش اور کسی شکا یت کے ازالے اور اصلاح‘‘ کے مینڈیٹ پر عملدرآ مد کی بھر پور کوشش کی جا تی ہے تا کہ اس سلسلے میں درپیش چیلنجوں اور رکا وٹوں کی اصل و جو ہات کی نشا ند ہی کر کے اور مناسب طر یق کار وضع کر کے ان رکا وٹوں کو دور کیا جا سکے نیز اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ مشاورتی عمل کے ذریعے ملکی اور بین الاقوامی ذمہ داریوں کو پورا کیا جا سکے۔
پاکستان کی آبادی 240ملین سے زیادہ ہے جس کا 58%بچوں اور نوعمر لڑ کوں پر مشتمل ہے چنا نچہ سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ کم از کم چار شعبوں میں ان کی ضروریات کو کیسے پورا کیا جائے۔
(الف)، بچوں کی صحت اور بہبود۔
( ب)، بچوں کی غذائیت اور انہیں مناسب خوراک کی فراہمی کیوں کہ موسمیاتی تبد یلیوں اور2022 کے سیلاب اور اس کے اثرات کی وجہ سے غذائی تحفظ کی صورتحال مزید خراب ہو چکی ہے۔
( ج)، دنیادی تعلیم اور سکولنگ کیوں کہ پاکستان میں اسکول سے باہر بچوں کی تعداد بہت زیا دہ ہے۔
( د)، بچوں کی فلاح و بہبود اور تحفظ، جو کہ بچوں کی اسمگلنگ، چائلڈ لیبر اور بچوں کے خلاف سائبر کرائمز سمیت دیگر نا پسند ید ہ کارروائیوں کے باعث سب سے زیادہ خطرناک صورت حال اختیار کر چکا ہے۔
بچوں کے حقوق کے دائرہ کار کے اندر رہتے ہو ئے، شکا یات کمشنربرا ئے اطفال(OGCC) ایک نگران ادارے کا کردار ادا کر رہا ہے اور پاکستان میں بچوں کی حالت پر نظر رکھے ہوئے ہے۔ کلیدی حکمت عملی میں، دیگر معا ملات کے ساتھ ساتھ، ایسی میڈیا رپورٹس پر نگا ہ رکھنا بھی شامل ہے جن میں بچوں کی خلاف تشدد کے واقعات کی نشاندہی کی گئی ہو تی ہے تا کہ مختلف سطحوں پر صوبائی حکام سمیت تمام اسٹیک ہولڈرز کے با ہمی روابط کو ممکن بنا کر طے شد ہ مقا صد اور نتا ئج حا صل کئے جا سکیں۔ مذکورہ بالا صورت حال کو مدنظر رکھتے ہوئے، مندرجہ ذیل چند اہم اقدامات اٹھائے گئے ہیں:
1۔ بچوں کے حقوق سے آ گا ہی کے لئے Promotion & Protection of Child Rightsکے عنوان سے ایک تفصیلی کتا بچہ شائع کیا گیا ہے۔
2۔ بچوں کے خلاف تشدد کے واقعات اور ان کے مو ثر ازالے کے لئےOGCC میڈ یا میں رپورٹ ہو نے والے واقعات پر گہر ی نظر رکھتا ہے۔
3۔ اکتو بر 2022میں اسلام آ باد میں اسٹریٹ چلڈرن کی حالت زار کے بارے میں ایک تفصیلی اسٹڈ ی رپورٹ تیار کی گئی جس کی سفارشات انتظامی اداروں اور پرا ئیو یٹ تنظیموں کو بھیجی گئیں کیو نکہ یہ قانون سازی اور نجی شعبے کی مدد کی متقا ضی تھیں۔ اب یہ سفا رشات عملد رآ مد کے مختلف مراحل میں ہیں، مثلاً فیڈرل ڈائریکٹوریٹ آف ایجوکیشن (FDE)، این جی اوز کے ساتھ مل کر، اسلام آ باد میں اسٹر یٹ چلڈ رن کے لیے مفت اور لازمی تعلیم کی ذمہ داری ادا کر رہا ہے۔FDE اب تکNAVTTCکے تعاون سے 42غیر رسمی تعلیمی مراکز اور 06ٹیکنیکل لیبا رٹر یاں قائم کرنے کے علاوہ موجودہ اسکولوں میں تقریباً 18000بچوں کو داخل کرا چکا ہے۔ وفاقی محتسب سیکرٹریٹ اس تمام عمل میں متعلقہ اداروں سے رابطہ میں ہے۔
4۔ OGCC نے بچوں کے خلاف سائبر کرائمز کی روک تھام کے معاملے کو بھرپور طریقے سے آگے بڑھایا ہے،
اور اس سلسلے میں چار اہم سمتوں پر خصو صی توجہ مرکوز کی ہے۔
( الف)، بیداری پیدا کرنا اور میڈیا میں احسا س ذمہ داری بڑ ھا نا۔
(ب)، صلا حیتوں میں اضا فے کی وکا لت۔
(ج)، قانونی اصلاحات ۔
( د)، تعلیمی اصلاحات۔
پیمرا، پی ٹی وی، پی بی سی، پی ٹی اے اور دیگر سوشل میڈیا ذرائع سے عوامی خدمت کے پیغامات کو باقاعدگی سے پھیلانے کے ساتھ ساتھ عوام میں آگاہی پیدا کرنا اور اس معا ملے میں میڈ یا کے اندر حسا سیت کو اجا گر کر نا ایک مسلسل عمل ہے۔ اسی طرح ایف آئی اے کے سائبر کرائم ونگ کے تعاون سے بچوں کو سائبر کرائمز کے خطرے سے بچانے اور آ گا ہ کر نے کے لئے اس معا ملے کو اسلام آ باد میں متعلقہ اداروں کے ساتھ اٹھا یا گیا۔ وفاقی محتسب کے ادارے کی جانب سے COMSATSیونیورسٹی اسلام آباد کے تعاون سے 30نومبر 2023کو’’ بڑ ھتے ہو ئے سا ئبر کرا ئمز اور معا شر تی کمز ور یوں‘‘ کے موضوع پر ایک روزہ سیمینار کا بھی انعقاد کیا گیا، جس میں مختلف سرکاری وزارتوں کے نمائندوں، اداروں اور اسٹیک ہولڈرزنے شرکت کی۔ سیمینار میں اس بات پر زور دیا گیا کہ سائبر کرائمز کی ابھر تی ہو ئی نو عیت کا مقابلہ کرنے والی ٹیکنالوجی کا حصول اور استعمال وقت کی ایک اہم ضرورت ہے، جس کے لیے تمام شعبوں میں مسلسل موافقت، تعا ون اور اخترا عی اقدا مات کی اشد ضرورت ہے۔ وفاقی محتسب کا دفتر اپنی ذمہ دار یوں سے بخوبی واقف ہے اور اپنا کردار ادا کرنے کے تمام مواقع استعمال کرنے کے لیے ہمہ وقت تیار رہتا ہے۔ واضح رہے کہ وفاقی محتسب کے ادارے میں بچوں سے متعلق کیسز کی رپورٹنگ کے لیے الگ سے ایک ہیلپ لائن نمبر 1056 بھی موجود ہے۔ جہاں تک بچوں کے تحفظ کے سلسلے میں قا نو نی اصلا حات کا تعلق ہے، پا رلیمنٹ کی جانب سے زینب الرٹ ریسپانس اینڈ ریکوری ایکٹ 2020کی منظوری، پاکستان میں بچوں کے تحفظ کے لیے قانونی اصلاحات میں اہم اقدامات کی عکاسی کرتی ہے جو کہ زینب انصاری کے نام سے منسوب ہے اور جس کے المناک کیس نے عوامی غم و غصے کو جنم دیا۔ اس ایکٹ کے ذریعے گمشدہ یا اغوا شدہ بچوں کی تیزی سے اطلا ع دینے اور انہیں جلد از جلدبازیاب کرانے کے لیے ایک جامع نظام قائم کیا گیا ہے۔ اسی طر ح 18جولائی 2023کو پارلیمنٹ نے بچوں کے خلاف سائبر کرائمز کی روک تھام اور کنٹرول کے قانون میں ترمیمی ایکٹ منظور کیا جو کہ قانونی فریم ورک کو جدید چیلنجوں سے ہم آہنگ کرنے میں وفاقی محتسب کی مسلسل کوششوں کا غماز ہے۔ بچوں کی قومی کمیٹی (NCC)بھی ایک اہم فورم ہے جسے وفاقی محتسب نے قائم کیا، یہ کمیٹی مشا ورت کے ساتھ کام کرتی ہے۔ اس کے مینڈیٹ میں بچوں کے حقوق خاص طور پر خطرا ت میں پڑنے والے بچوں کی حالت کی نگرانی اورحفا ظت نیز شکا یات کمشنر برا ئے اطفال (OGCC)کے ذریعے ان کی شکایات کا ازالہ اور سٹیک ہولڈرز کے ساتھ مشاورت سے انتظامی مسائل حل کرنا
شامل ہے۔ امید کی جاتی ہے کہ یہ کمیٹی بچوں کے بہتر مستقبل کے لیے ٹھوس حکمت عملی تیار کرنے کے سلسلے میں جا مع اور قا بل عمل تجا ویز پیش کرے گی۔ ( بشکریہ ادارہ وفاقی محتسب ، اسلام آباد)۔







