یوم شہدائے کشمیر، قربانیوں کے عزم کا دن

یوم شہدائے کشمیر، قربانیوں کے عزم کا دن
حبیب اللہ قمر
پاکستان سمیت دنیا بھر میں کشمیریوں کی طرف سے تیرہ جولائی کو یوم شہدائے کشمیر بھرپور انداز میں منایا گیا۔ حریت کانفرنس کی اپیل پر تاریخی ہڑتال کی گئی اور دنیا بھر میں کشمیری شہداء سے اظہار یکجہتی کے لیے جلسوں، کانفرنسوں اور سیمینارز کا انعقاد کیا گیا۔ اس سے قبل آٹھ جولائی کو برہان وانی کا یوم شہادت یوم مزاحمت کے طور پر منایا گیا۔ کشمیری مسلمانوں کی تاریخ قربانیوں سے بھری پڑی ہے۔ کوئی دن ایسا نہیں گزرتا جب نہتے کشمیری مسلمانوں کی عزتیں و حقوق پامال نہ ہوتی ہوں اور ان کی جائیدادوں و املاک کو تباہی سے دوچار نہ کیا جاتا ہو لیکن 13جولائی 1931ء کا دن کشمیر کی تاریخ میں انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ یہی وہ دن تھا کہ جب سری نگر کی سنٹرل جیل کے باہر ڈوگرہ فوج نے بدترین ریاستی دہشت گردی کا مظاہرہ کرتے ہوئے 23افراد کو فائرنگ کر کے شہید کر دیا۔ اس واقعہ سے قبل 19اپریل 1931ء کو جموں کی جامع مسجد کے امام مفتی محمد اسحاق میونسپل باغ کمیٹی میں عیدالاضحی کا خطبہ دینے کیلئے موجود تھے کہ ڈوگرہ پولیس کے انتہائی متعصب ڈی آئی جی چودھری رام چند نے انہیں عید کا خطبہ دینے اور نماز کی ادائیگی سے روک دیا جس پر مقامی مسلمانوں نے اسے مذہبی معاملات میں مداخلت قرار دیا اور پورے جموں میں ایک زبردست احتجاجی لہر چھڑ گئی۔ ابھی یہ سلسلہ جاری تھا کہ جموں میں ہی 4جون 1931ء کوایک ہندو پولیس انسپکٹر لبھو رام نے ( نعوذ بااللہ) قرآن پاک کی بے حرمتی کا ارتکاب کیا جس پر کشمیری مسلمانوں کے جذبات مزید مشتعل ہو گئے اور پوری ریاست جموں کشمیر میں احتجاج کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہو گیا۔ ان واقعات کیخلاف 25جون کو ریڈنگ روم پارٹی کی جانب سے سری نگر میں ایک بہت بڑے جلسہ عام کا انعقاد کیا گیا جس میں شیخ محمد عبداللہ سمیت کئی لیڈروں نے ڈوگرہ راج کے خلاف تقریر یں کیں۔ اسی جلسے میں عبدالقدیر نامی ایک نوجوان جسے مجمع میں کوئی نہیں جانتا تھا’ نے آگے بڑھ کر ڈوگرہ حکمرانوں کے خلاف قرآن و حدیث کی روشنی میں ایسی زبردست تقریر کی جس نے لوگوں کا خون گرما کر رکھ دیا۔ انہوں نے قرآن و سنت کی روشنی میں شرکا کو بتایا کہ جب مسلمانوں کی عزتیں، جان و مال اور حقوق محفوظ نہ ہوں اور انہیں عبادات کی بھی مکمل آزادی حاصل نہ ہو تو پھر مسلمانوں پر فرض ہے کہ وہ میدان میں عمل میں نکلیں اور دین اسلام کے دفاع کیلئے قربانیوں و شہادتوں کا راستہ اختیار کیا جائے۔ ان کے اس خطاب کے فوری بعد انہیں گرفتار کر کے جیل میں ڈال دیا گیا۔ پانچ جولائی کو اس کیس کی سماعت سینٹرل جیل سری نگر میں کرنے کا فیصلہ کیا گیا جس کے خلاف 12جولائی کو پورے شہر میں تاریخی ہڑتال کی گئی۔13جولائی کو سینٹرل جیل میں کیس کی سماعت ہونا تھی۔ اس دن صبح سے ہی سری نگر اور گردونواح سے قافلوں نے جیل کے باہر پہنچنا شروع کر دیا۔ آہستہ آہستہ یہ تعداد اس قدر بڑھی کہ دور دور تک ہر طرف لوگوں کا ایک سمندر نظر آتا تھا جو دینی جذبہ کے تحت اپنے اس بھائی کو جیل میں ڈالے جانے کے خلاف احتجاج کرنے اور اس کیس کی کاروائی سے متعلق آگاہی کیلئے یہاں پہنچے تھے۔ ابھی یہ سلسلہ جاری تھا کہ نماز ظہر کا وقت آن پہنچا اور لاکھوں کشمیریوں نے نماز کی تیاری کا آغاز کر دیا۔ اس دوران ایک نوجوان اذان کہنے کیلئے آگے بڑھا اور ابھی اس نے اللہ اکبر ہی کہا تھا کہ ڈوگرہ فوجیوں نے گولی چلائی جو اس کے سینے پر لگی اور وہ موقع پر شہید ہوگیا۔ ڈوگرہ فوجیوں کی یہ حرکت پورے مجمع کیلئے بہت بڑا چیلنج تھی۔ پہلے نوجوان کی شہادت کے بعد دوسرا آگے بڑھا، اس نے بھی ابھی اللہ اکبر ہی کہا تھا کہ اسے بھی گولی مار کر شہید کر دیا گیا۔ جیل کے باہر موجود کشمیری اس قدر پرعزم تھے کہ ہر شخص آگے بڑھ کر اذان کہتے ہوئے شہادت حاصل کرنے کا متمنی تھا ۔ کسی کو یہ بات گوارا نہ تھی کہ جس نماز کی نیت سے اذان کہی جارہی ہے وہ مکمل نہ ہو سکے۔ اس طرح غیور کشمیری آگے بڑھتے اور اذان کے الفاظ کہتے ہوئے اپنے سینوں پر گولیاں کھاتے رہے۔ یوں پوری دنیا کی تاریخ میں یہ منفرد اذان تھی جسے کہنے کیلئے 23افراد نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔ سنٹرل جیل کے باہر نہتے کشمیریوں پر اس طرح گولیاں برسانے کی خبر جب وادی کے اطراف و کناف میں پھیلی تو ہر طرف ایک طوفان بپا ہو گیا اور ڈوگرہ حکمرانوں کے خلاف نفرت کا لاوا پھوٹ پڑا۔ جگہ جگہ لوگوں نے سڑکوں پر نکل کر احتجاج شروع کر دیا جو کئی ماہ تک جاری رہا۔ پندرہ جولائی سے چوبیس ستمبر تک کشمیر کے چپے چپے میں ڈوگرہ فوجیوں کی جانب سے احتجاج کرنے والوں کا زبردست قتل عام کیا گیا اور اس عرصہ میں کثیر تعداد میں مزید کشمیری شہید کر دئیے گئے۔17جولائی 1931کو جمعہ کا دن تھا ۔ چار دن پہلے سنٹرل جیل کے باہر ہونے والے قتل عام کے باعث پوری وادی غم واندوہ میں ڈوبی ہوئی تھی۔ ڈوگرہ حکمرانوں کے خلاف کشمیر ی مسلمانوں کے دلوں میں پیدا ہونے والی نفرت شعلوں میں تبدیل ہوچکی تھی۔ ہر سو لوگ سراپا احتجاج تھے ۔ کاروبار زندگی ٹھپ ہو چکا تھا۔ نماز جمعہ کے بعد پوری وادی میں احتجاج کا پروگرام تھا۔ لوگ قطار اندر قطار مساجد کا رخ کر رہے تھے۔ ایسے لگتا تھا کہ جیسے تمام راستے مساجد کو جاتے ہوں۔ بھاری تعداد میں ہندوستانی فورسز تعینات تھیں۔کسی کو معلوم نہ تھا کہ آج خون کی ایک اور ہولی کھیلی جائے گی۔ نماز جمعہ کی ادائیگی کے بعد جب احتجاجی جلوس نکالا گیا تو وہاں تعینات ڈوگرہ فوجیوں نے ایک بار پھر بندوقوں کے دہانے کھول دئیے اور دیکھتے ہی دیکھتے چھ کشمیری شہید کر دئیے گئے۔ لوگوں کے جذبات اس قدر مشتعل تھے کہ غلام محمد خان نامی ایک نوجوان جس کی شادی انہی دنوں ہوئی تھی، نے جب جلوس پر گولیاں چلتے ہوئے دیکھیں تو اس نے اپنی دکان میں جلنے والے چولہے سے ایک جلتی ہوئی لکڑی نکالی اور پولیس اہلکاروں پر ٹوٹ پڑا جنہوں نے جواب میں تھری ناٹ تھری بندوق سے اس کے سینے میں کئی گولیاں پیوست کیں اور وہ موقع پر ہی جام شہادت نوش کر گیا۔ اس کے بعد کرفیو نافذ ہوا اور تین روز تک لاشیں جامع مسجد میں پڑی رہیں۔ بعد میں مقامی لوگوں نے ان تمام نعشوں کو ایک ہی جگہ دفن کیا جو مزار شہدا1931ء کے نام سے موسوم ہے۔ اس واقعہ کو 92برس گزر چکے ہیں لیکن ان شہداء کی قربانیوں کو آج بھی اسی طرح یاد کیا جا تا ہے جنہوں نے اس وقت اپنے آج کو کشمیری قوم کے کل کیلئے قربان کر دیا۔13جولائی کے شہداء کا مشن آج بھی ادھورا ہے۔ غاصب بھارتی فوج کے خلاف قربانیاں پیش کرنے والے کشمیریوں نے ثابت کیا ہے کہ انہوںنے اپنے اس مشن کو فراموش نہیں کیا ہے۔ کشمیر میں اگر اس وقت لوگ اپنے بچوں کے جنازوں کو کندھا دیتے تھے تو آج بھی اس جیسے واقعات پیش آرہے ہیں، جہاں بوڑھے والدین اپنے بچوں کو منوں مٹی تلے دفن کرتے نظر آتے ہیں۔ حریت کانفرنس کے قائدین نے برہان وانی کے یوم شہادت کی طرح 13جولائی کو بھی پورے کشمیر میں ہڑتال کا اعلان کیا جس پر یوم شہداء کشمیر کے موقع پر لاکھوں کشمیریوں کی طرف سے بھارت سرکار کے غاصبانہ قبضہ کے خلاف اپنے جذبات کا اظہار کیا گیا۔ بہرحال کشمیریوں کی جدوجہد آزادی پوری قوت سے جاری ہے اور جگہ جگہ پاکستانی پرچم لہرائے جارہے ہیں۔ بھارتی فوج ہر قسم کے وسائل اور صلاحیتیں صرف کرنے کے باوجود جدوجہد آزادی کشمیر پر قابو پانے میں کامیاب نہیں ہو سکی ۔ ایسے حالات میں کہ جب بھارت سرکار کشمیریوں کی جدوجہد آزادی کچلنے کے لیے ہر حربہ آزما رہی ہے، حکومت پاکستان کو نئے سرے سے پالیسیاں ترتیب دینے کی ضرورت ہے۔ پاکستانی حکمرانوں کو چاہیے کہ وہ قائد اعظم محمد علی جناحؒ کی کشمیر پالیسی پر کاربند ہوں اور کشمیریوں سے ہر ممکن تعاون کے ساتھ ساتھ انڈیا کے دہشت گرد کردار کو پوری دنیا پر بے نقاب کیا جائے تاکہ مظلوم کشمیریوں کو غاصب بھارتی فوج کے ظلم و تشدد سے نجات دلائی جاسکے۔







