تازہ ترینخبریںپاکستان

بہت سے لوگوں کے پاس چھڑی ہے لیکن انکی اخلاقی اتھارٹی کیا ہے؟: چیف جسٹس

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا ہے کہ ہمارے پاس فیصلوں پر عمل کیلئے کوئی چھڑی نہیں، ہم سمجھتے ہیں یہ وقت ایک قدم پیچھے ہٹنے کا ہے، ہم نے عدالتی فیصلوں پر عمل درآمد نہ کرنے والوں کو سزا نہیں سنائی۔

سپریم کورٹ میں ملٹری کورٹس میں سویلینز کے ٹرائل کے خلاف درخواستوں پر سماعت کا آغاز ہوا۔ چیف جسٹس سپریم کورٹ کی سربراہی میں 7 رکنی لارجر بینچ نے سماعت کا آغاز کیا۔

سماعت کے دوران وفاقی حکومت کی جانب سے جسٹس منصور علی شاہ پر اعتراض اٹھایا گیا۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ مجھے ہدایت ہے کہ جسٹس منصورعلی شاہ بینچ کا حصہ نہ ہوں۔

چیف جسٹس نے اس موقع پر کہا کہ آپ کی مرضی سے بینچ نہیں بنایا جائے گا۔ کس بنیاد پرآپ جسٹس منصورعلی شاہ پراعتراض اٹھا رہے ہیں ؟ جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ مفادات کے ٹکراؤ کی وجہ سے اعتراض اٹھایا گیا ہے۔

جسٹس منصور علی شاہ نے خود کو بینچ سے الگ کرتے ہوئے کہا کہ میں کبھی بینچ میں نہیں بیٹھتا جب مجھ پر جانبداری کا شبہ ہو۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے اٹارنی جنرل سے مخاطب ہوکر کہا کہ آپ ایک قابل وکیل ہیں، آپ اچھے کردار اور اقدار کے حامل وکیل ہیں۔ ہماری حکومت ہمیشہ بینچز کی تشکیل پر بات کرتی ہے۔ کبھی کہا جاتا ہے بینچ درست نہیں بنایا گیا۔ آپ ہمیں ہم خیال ججز کا طعنہ دیتے ہیں، آپ کرنا کیا چاہتے ہیں؟

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہم نے ہمیشہ تحمل کا مظاہرہ کیا ہے، ہم نے عدالتی فیصلوں پر عمل درآمد نہ کرنے والوں کو سزا نہیں سنائی۔  ہم سمجھتے ہیں یہ وقت ایک قدم پیچھے ہٹنے کا ہے۔ بہت سے لوگوں کے پاس چھڑی ہے لیکن انکی اخلاقی اتھارٹی کیا ہے؟

چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے سوال کیا کہ کیا آپ تنازع چاہتے ہیں؟ یہ عدالت کی اخلاقی اتھارٹی ہے کہ وہ حق اور سچ کی بات کرے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ‘ہم ابھی اٹھ کر جارہے ہیں، ہم بعد میں واپس آئیں گے، آپس میں مشاورت کے بعد آگے کا لائحہ عمل طے کریں گے’۔ جس کے بعد سپریم کورٹ کا 7 رکنی بینچ اٹھ کر چلا گیا۔

عدالتی عملے کے مطابق سپریم کورٹ کا 7 رکنی بینچ ٹوٹنے کے بعد چیف جسٹس عمر عطا بندیال نیا بینچ تشکیل دیں گے۔ نیا بینچ 11 بجے دوبارہ کیس کی سماعت کرے گا۔

خیال رہے کہ آج فوجی عدالتوں میں سویلین کے ٹرائل سے متعلق کیس میں وزیر دفاع خواجہ آصف کی نمائندگی عرفان قادر کر رہے ہیں جبکہ وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ کی نمائندگی شاہ خاور کے سپرد ہے۔

ذرائع کے مطابق دورانِ سماعت 9 مئی واقعہ کے حوالے سے ویڈیو کورٹ روم میں چلانے کی استدعا بھی کیے جانے کا امکان ہے۔

خیال رہے کہ اس سے قبل 23 جون کو سپریم کورٹ میں سماعت کے آغاز پر سویلین کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کے خلاف بنایا گیا نو رکنی بینچ قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس طارق کے علیحدہ ہونے سے ٹوٹ گیا تھا۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا دورانِ سماعت کہنا تھا کہ ‘سپریم کورٹ پروسیجر بل کا فیصلہ ہونے تک اس بینچ میں نہیں بیٹھ سکتا، اِس بینچ کو کورٹ ہی نہیں مانتا۔’

جواب دیں

Back to top button