تازہ ترینتحریکخبریں

اسپىکر رولنگ ازخود نوٹس کیس: سپریم کورٹ کا فیصلہ کچھ دیر میں

اسپىکر رولنگ ازخودنوٹس کیس میں فىصله محفوظ شام ساڑھے سات بجے سناىا جائے گا

اسپیکرکی رولنگ سے متعلق ازخودنوٹس کیس میں چیف جسٹس عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ بظاہر آرٹیکل 95 کی خلاف ورزی ہوئی،ووٹنگ ہونےدی جاتی تومعلوم ہوتا وزیراعظم کون ہے؟ اگرکسی دوسرےکے پاس اکثریت ہےتوحکومت کیوں الیکشن کا اعلان کرے؟

تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں اسپیکرکی رولنگ سے متعلق ازخودنوٹس کیس کی سماعت ہوئی ، چیف جسٹس کی سربراہی میں5 رکنی لارجر بینچ نے سماعت کی۔

ایڈووکیٹ جنرل پنجاب عدالت میں پیش ہوئے، ایڈووکیٹ جنرل نے کہا کہ چیف جسٹس کےریمارکس پرنجی ہوٹل میں اجلاس کیاگیا، نجی ہوٹل میں حمزہ شہبازکووزیراعلیٰ منتخب کیاگیا، آج باغ جناح میں ایک اورتقریب کی جارہی ہے، اس تقریب میں حلف برداری ہوگی۔

جس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہم پنجاب کےمعاملےکونہیں دیکھ رہے، بہترہےآپ یہ معاملہ لاہورہائیکورٹ لیکرجائیں، ایڈووکیٹ جنرل نے کہا اس کے بعد حمزہ شہبازسرکاری افسران کی میٹنگ طلب کر رہے ہیں تو چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آپ نےجوکہناہےوہ تحریری طور کہیں۔

احمد اویس نے عدالت کو بتایا کہ آج باغ جناح میں حلف برداری تقریب رکھی گئی ہے، حمزہ شہباز سابق گورنرچوہدری سرورسےحلف لینے جا رہے ہیں، انہوں نے سرکاری مشینری کا اجلاس بھی بلا لیا ہے۔

چیف جسٹس عمرعطا بندیال نے کہا ہم نےاس معاملےپرفیصلہ کرنےسےانکارکر دیا ، ہم نےقومی اسمبلی کے معاملے کو دیکھنا ہے۔

جسٹس مظہرعالم کا کہنا تھا کہ ٹی وی پریہ بھی دکھایا گیا پنجاب اسمبلی کوتالالگا دیاگیا، پنجاب میں آپ کیا کر رہے ہیں؟ چیف جسٹس نے بھی کہا لاہورہائی کورٹ موجود ہے وہاں جائیں، قومی اسمبلی کےکیس سےتوجہ نہیں ہٹاناچاہتے۔

وکیل اعظم نذیرتارڑ نے کہا ایم پی ایزعوام کےنمائندےہیں، عوامی نمائندوں کو اسمبلی جانے سے روکیں گے تو وہ کیا کریں؟ جس پر جسٹس جمال مندوخیل کا کہنا تھا کہ کیا وزیراعظم پوری قوم کےنمائندےنہیں ہیں؟

صدر مملکت کے وکیل بیرسٹرعلی ظفر نے جواب دیا کہ وزیراعظم بلاشبہ عوام کے نمائندےہیں، جسٹس مظہر نے استفسار کیا کہ پارلیمنٹ میں آئینی خلاف ورزی ہوتی رہےاسےتحفظ حاصل ہوگا؟ کیاعدالت آئین کی محافظ نہیں ہے؟

جسٹس جمال مندوخیل نے بھی استفسار کیا پارلیمنٹ کارروائی سےکوئی متاثرہوتودادرسی کیسےہوگی؟ کیادادرسی نہ ہوتوعدالت خاموش بیٹھی رہے؟ جس پر بیرسٹرعلی ظفر کا کہنا تھا کہ آئین کاتحفظ بھی آئین کےمطابق ہی ہوسکتاہے، آئین کےتحفظ کیلئےاس کےہرآرٹیکل کو مدنظررکھنا ہوتا ہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہ عدم اعتماد پر ووٹنگ ہونے دی جاتی تو معلوم ہوتاوزیراعظم کون ہے، اگرزیادتی کسی ایک ممبرکے بجائے پورےایوان سے ہو تو کیا ہوگا؟ جس پر علی ظفر نے سوال کیا اگرججزکاآپس میں اختلاف ہو توکیاپارلیمنٹ مداخلت کر سکتی ہے؟ پارلیمنٹ عدلیہ میں مداخلت نہیں کرسکتی،عدلیہ بھی نہیں کرسکتی۔

جسٹس عطا بندیال نے استفسار کیا کہ کیاوفاقی حکومت کی تشکیل کاعمل پارلیمان کااندرونی معاملہ ہے؟ صدر مملکت کے وکیل نے بتایا کہ
وفاقی حکومت کی تشکیل،اسمبلی تحلیل کا عدالت جائزہ لے سکتی ہے تاہم وزیراعظم کےالیکشن،عدم اعتماد دونوں کاجائزہ عدالت نہیں لے سکتی۔

چیف جسٹس نے بیرسٹرعلی ظفر سے مکالمے میں کہا کہ علی ظفرصاحب آپ نےجس فیصلےکاحوالہ دیاوہ حلف سےمتعلق ہے، یہاں معاملہ حلف لینےکانہیں رولنگ کاہے، کہیں تولائن کھینچناپڑےگی۔

جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیئے کہ پارلیمان کااستحقاق ہےکہ قانون سازی کرے، اگرپارلیمان قانون سازی نہ کرےتوکیاہوگا؟ جس پر
وکیل صدرمملکت نے بتایا کہ قانون سازی نہ ہوتوپرانےقوانین ہی برقراررہیں گے، جمہوریت اورالیکشن کوالگ نہیں کیاجاسکتا، ووٹرزسب سے زیادہ با اختیار ہیں۔

بیرسٹرعلی ظفر کا کہنا تھا کہ عدالت ماضی میں قراردےچکی سیاسی مسائل میں دادرسی کا فورم عوام ہے، جونیجو حکومت کا خاتمہ عدالت نےخلاف آئین قراردیاتھا، کیس میں عدالت نے کہا معاملہ الیکشن میں جارہا ہے عوام فیصلہ کریں گے۔

جسٹس مظہرعالم نے ریمارکس میں کہا ہمارےسامنے معاملہ عدم اعتماد کا ہے، عدم اعتماد کے بعدرولنگ آئی، اس ایشوکوایڈریس کریں، جس پر وکیل علی ظفر کا کہنا تھا کہ یہاں بھی اسمبلی تحلیل کرکے الیکشن کا اعلان کردیا گیا۔

اسپیکرکی رولنگ سے متعلق ازخود نوٹس کیس میں چیف جسٹس سپریم کورٹ کا کہنا تھا کہ ایشو یہ ہے آرٹیکل 58 صدر وزیر اعظم کے مشورے پر اسمبلی تحلیل کرتا ہے، جس وزیراعظم کیخلاف عدم اعتماد آئی وہ اسمبلی تحلیل کی سفارش نہیں کرسکتا، ہم نے اسمبلی کی تحلیل میں اس معاملے کو دیکھنا ہے۔

چیف جسٹس عمرعطابندیال نے استفسار کیا کہ آپ کیوں نہیں بتاتے کہ کیا آئینی بحران ہے؟ سب کچھ آئین کے مطابق ہو رہا ہے تو آئینی بحران کہاں ہے؟ ملک میں کہیں اور بحران ہو سکتا ہے، میری بھی یہی گزارش ہے کہ ملک میں کوئی آئینی بحران نہیں۔

جسٹس عمرعطابندیال نے مزید کہا کہ بظاہرآرٹیکل95کی خلاف ورزی ہوئی، کسی دوسرےکے پاس اکثریت ہے تو حکومت الیکشن اناؤنس کرے ، الیکشن کرانے پر قوم کے اربوں روپے خرچ ہوتےہیں، ہر بار الیکشن سے قوم کا اربوں کانقصان ہوگا، یہ قومی مفاد ہے۔

جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیئے پی ٹی آئی قومی اسمبلی ایوان میں سب سےبڑی جماعت ہے، کیا یہ بہتر ہے دیگر چھوٹی جماعتیں غیر فطری اتحاد سے حکومت قائم کریں؟ تحریک انصاف کےمقابل کیایہ ملک کےلئےبہتر ہوگا؟ جس پر وکیل علی ظفر کا کہنا تھا کہ میری رائےمیں اس معاملےپر عدالت کوتوجہ دینےکی ضرورت نہیں۔

صدر مملکت کے وکیل علی ظفر کے دلائل مکمل ہونے کے بعد وزیراعظم کے وکیل امتیاز صدیقی نے دلائل کا آغاز کیا۔

وزیراعظم کے وکیل نے کہا کہ عدالت ماضی میں اسمبلی کارروائی میں مداخلت سےاجتناب کرتی رہی ہے، چوہدری فضل الہٰی کیس میں اراکین کوووٹ دینےسےروکا،تشددکیاگیا، عدالت نےاس صورتحال میں بھی پارلیمانی کارروائی میں مداخلت نہیں کی۔

امتیاز صدیقی کا کہنا تھا کہ ایوان کی کاروائی عدلیہ کے اختیار سے باہر ہے، عدالت پارلیمان اپنا گند خود صاف کرنے کا کہے، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ کہاگیا عدم اعتماد پر لیو گرانٹ ہونے کے بعد رولنگ نہیں آ سکتی، درخواست گزارکہتےہیں 28مارچ کو تحریک پیش ہونے سے پہلے رولنگ آ سکتی تھی۔

جسٹس عطال بندیال نے امتیازصدیقی سے مکالمے میں استفسار کیا اس معاملےپر آپ کیاکہیں گے؟ جس پر وکیل وزیراعظم نے کہا اپوزیشن نے ڈپٹی اسپیکر کی صدارت پراعتراض نہیں کیاتھا، ڈپٹی اسپیکرنےاپنےذہن کےمطابق جوبہترسمجھاوہ فیصلہ کیا، پارلیمان میں ڈپٹی اسپیکرنے جو فیصلہ دیااس پروہ عدالت کوجوابدہ نہیں، تحریک عدم اعتماد خالصتاً پارلیمان کی کارروائی ہے،مداخلت نہیں ہوسکتی۔

چیف جسٹس نے مزید کہا کہ قانون یہی ہےکہ پارلیمانی کارروائی کے استحقاق کا فیصلہ عدالت کرےگی، عدالت جائزہ لےگی کہ کس حد تک کارروائی کو استحقاق حاصل ہے۔

وکیل امتیاز صدیقی کا کہنا تھا کہ اسپیکرکواگرمعلوم ہوبیرونی فنڈنگ ہوئی یاملکی سالمیت کو خطرہ ہے، تواسپیکر قانون سے ہٹ کر بھی ملک کو بچائے گا، اسپیکرنےاپنےحلف کےمطابق بہترفیصلہ کیا، اسپیکر کا فیصلہ پارلیمنٹ کا اندرونی معاملہ ہے۔

وزیراعظم کے وکیل نے مزید دلائل میں کہا کہ آرٹیکل69کو127سےملاکرپڑھیں توپارلیمانی کارروئی کوتحفظ حاصل ہے، سپریم کورٹ آرٹیکل69کےتحت پارلیمنٹ کی کارروائی میں مداخلت نہیں کر سکتی۔

جسٹس منیب اختر کا کہنا تھا کہ جن فیصلوں کاحوالہ دیاگیاسپریم کورٹ ان پرعمل کرنےکی پابندنہیں، عدالت فیصلوں میں دی گئی آبزرویشنز کی پابند نہیں تو امتیاز صدیقی نے کہا ڈپٹی اسپیکر نے نیشنل سیکیورٹی کمیٹی پر انحصار کیا، نیشنل سیکیورٹی کمیٹی پرکوئی اثرانداز نہیں ہو سکتا۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ اسپیکر کے سامنے کیا مواد موجود تھا جس پر انہوں نے تحریک کوختم کیا؟ وکیل وزیراعظم نے بتایا کہ اس سوال کا جواب اٹارنی جنرل دیں گے۔

جسٹس عطا بندیال نے مزید استفسار کیا کہ ڈپٹی اسپیکر کو کب بریفنگ ملی تھی؟ تو وکیل امتیاز صدیقی نے کہا کہ قومی سلامتی کمیٹی کی ڈپٹی اسپیکر کو بریفنگ کا علم نہیں، جس پر چیف جسٹس پاکستان کا کہنا تھا کہ اگر آپ کو معلوم نہیں تو اس پر بات نہ کریں۔

امتیازصدیقی نے بتایا کہ وزیراعظم کوتحریک خارج ہونے کا علم ہوا تو اسمبلی تحلیل کر دی ، جس پر چیف جسٹس نے پوچھا اسپیکر نےتحریک عدم اعتماد 28 مارچ کو کیوں مسترد نہیں کی؟

جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیئے کہ اسمبلی تحلیل نہ ہوتی توایوان ڈپٹی اسپیکرکی رولنگ ختم کرسکتا تھا، وزیراعظم نے صورت حال کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اسمبلی تحلیل کی، اسمبلی نہ توڑی جاتی تو ارکان ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ ریورس کرسکتےتھے، اسپیکر،ڈپٹی اسپیکر عدالتی جائزے سے بلاترہیں کیا آپ یہ کہہ رہےہیں۔

وزیراعظم کے وکیل امتیاز صدیقی کے دلائل مکمل ہونے پر اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر کے وکیل نعیم بخاری نے دلائل کا آغاز کیا۔

نعیم بخاری نے کہا کہ صدر مملکت کےوکیل علی ظفر کے دلائل اختیارکرتاہوں، عدالت کے سامنے مختصر گزارشات پیش کروں گا، سوال ہوا تھا پوائنٹ آف آرڈرتحریک عدم اعتمادمیں نہیں لیاجاسکتا، پوائنٹ آف آرڈر تحریک عدم اعتماد سمیت ہر موقع پرلیاجاسکتاہے، کیا پوائنٹ آف آرڈر موو کرنیوالے کے پاس کوئی ریمیڈی نہیں ہے؟

جسٹس مظہر عالم نے پوچھا ڈپٹی اسپیکر کے پاس رولنگ کا مواد کیا تھا، جس پر وکیل نعیم بخاری نے کہا مجھے گزارشات کو فریز کرنےدیں، عدالت کے سوالات کا جواب دوں گا تو جسٹس مظہر عالم کا کہنا تھا کہ ہم بھی آپ کو سننے کےلئےبے تاب ہیں، جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا آپ کافی فریش لگ رہے ہیں۔

 

چیف جسٹس نے کہا کہ پوائنٹ آف آرڈر وزیر قانون نے ہٹایا تھا، کیا آپ کے پاس وزیر قانون کے پوائنٹ آف آرڈر کا متن ہے؟

جسٹس مظہر عالم نے استفسار کیا کہ کیا سپیکر کو کوئی مواد پیش کیا گیا؟

جسٹس جمال خان مندوخیل نے دریافت کیا کہ رولنگ آئینی تھی یا غیر آئینی تھی، اگر رولنگ غیر آئینی تھی تو کیا سپریم کورٹ جائزہ لے سکتی ہے۔

نعیم بخاری نے کہا کہ رولنگ کے دوران کیا طریقہ کار کی غلطی کی گئی؟ ماضی میں سپریم کورٹ نے مداخلت سے گریز کیا تھا اگر اسپیکر فواد چوہدری کا پوائنٹ آف آرڈر مسترد کردیتا تو کیا سپریم کورٹ سے رجوع کیا جاسکتا تھا۔

‏جسٹس جمال خان مندوخیل نے استفسار کیا کہ کیا اسپیکر کا عدم اعتماد پر ووٹنگ نہ کرانا آئین کی خلاف ورزی ہے؟

نعیم بخاری نے کہا کہ اگر اسپیکر پوائنٹ آف آرڈر مسترد کر دیتا کیا عدالت تب بھی مداخلت کرتی؟ پوائنٹ آف آرڈر پر سپیکر تحریک عدم اعتماد مسترد کر سکتا ہے، پہلے کبھی ایسا ہوا نہیں لیکن اسپیکر کا اختیار ضرور ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ ماضی میں جب اسمبلی توڑی گئی تو اسے غلط قرار دینے کے باوجود بھی الیکشن کے عمل کو نہیں روکا گیا۔

نعیم بخاری نے کہا کہ اسمبلی کی کارروائی شروع ہوتے ہی فواد چوہدری نے پوائنٹ آف آرڈر مانگ لیا، تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ شروع ہوجاتی تو پوائنٹ آف آرڈر نہیں لیا جا سکتا تھا۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ موشن اور تحریک کے لفظ میں کیا فرق ہے؟ جس پر نعیم بخاری نے بتایا کہ موشن اور تحریک کے الفاظ ایک ہی اصطلاح میں استعمال ہوتے ہیں۔

ساتھ ہی ا ‏سپیکر اور ڈپٹی اسپیکر کے وکیل نعیم بخاری نے پارلیمانی کمیٹی برائے قومی سلامتی کے منٹس عدالت میں پیش کردیے۔

جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ اسپیکر کی تحریک مسترد کرنے کا اختیار قانون میں کہاں لکھا ہے، ہم پوائنٹ آف آرڈر کی تعریف سمجھنا چاہتے ہیں۔

چیف جستس نے کہا کہ سوال یہ ہے کہ جب عدم اعتماد کی تحریک آجائے تو کیا نیا پوائنٹ آف آرڈر اٹھایا جاسکتا ہے۔

جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ کیا اٹھایا گیا پوائنٹ آف آرڈر ایجنڈے میں شامل تھا؟

نعیم بخاری نے عدالت جواب دیا کہ پوائنٹ آف آرڈر پر کسی بھی وقت بات ہوسکتی ہے ۔

جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ عدم اعتماد کی تحریک پر ووٹنگ آئینی تقاضا ہے، کیا ووٹنگ کے آئینی حقوق کو رولز کے زریعے غیر مؤثر کیا جاسکتا ہے؟

nعیم بخاری نے 28 مارچ کے قومی اسمبلی اجلاس میں وقفہ سوالات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ تمام اپوزیشن اراکین نے کہا سوال نہیں پوچھنے صرف ووٹنگ کرائیں، اس شور شرابے میں ڈپٹی اسپیکر نے اجلاس ملتوی کر دیا۔

انہوں نے مزید کہا کہ پارلیمانی کمیٹی برائے قومی سلامتی کو خط پر بریفننگ دی گئی، کمیٹی کو بتایا گیا کہ عدم اعتماد ناکام ہوئی تو نتائج اچھے نہیں ہوں گے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ریکارڈ کے مطابق پارلیمانی کمیٹی قومی سلامتی میں 11 لوگ شریک ہوئے تھے، پارلیمانی کمیٹی کو بریفننگ دینے والوں کے نام میٹنگ منٹس میں شامل نہیں۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ پارلیمانی کمیٹی کو بریفننگ کس نے دی تھی؟

جسٹس مظہر عالم نے کہا کہ پارلیمنٹ کی کارروائی بڑی مشکل سے 2 یا تین منٹ کی تھی۔

چیف جسٹس نے کہا کہ کیا پوائنٹ آف ارڈر پر اپوزیشن کو موقع نہیں ملنا چاہیے تھا؟

جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ رولنگ ڈپٹی اسپیکر نے دی جبکہ رولنگ پر دستخط اسپیکر کے ہے، ڈپٹی اسپیکر کے دستخط کدھر ہیں؟ جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ پارلیمانی کمیٹی میٹنگ کے منٹس میں ڈپٹی اسپیکر کی موجودگی ظاہر نہیں ہوتی، کیا ڈپٹی اسپیکر اجلاس میں موجود تھے۔

نعیم بخاری نے کہا کہ جو دستاویز پیش کی ہے وہ شاید اصلی والی نہیں ہے۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ کیا وزیر خارجہ پارلیمانی کمیٹی اجلاس میں موجود تھے؟ وزیر خارجہ کے دستخط میٹنگ منٹس میں نظر نہیں آ رہے، کیا وزیر خارجہ کو اجلاس میں نہیں ہونا چاہیے تھا؟

عدالت نے کہا کہ وزیر خارجہ کو پارلیمانی کمیٹی اجلاس میں ہونا چاہیے تھا، مشیر قومی سلامتی معید یوسف کا نام بھی میٹنگ منٹس میں نظر نہیں آ رہا۔ ‏ چیف جسٹس نے کہا کہ پارلیمانی کمیٹی قومی سلامتی اجلاس میں 57 ارکان موجود تھے، اراکین اسمبلی کے نوٹس میں خط کے مندرجات آ گئے تھے، کیا پوائنٹ آف آرڈر پر رولنگ کی بجائے اپوزیشن سے جواب نہیں لینا چاہیے تھا؟

نعیم بخاری نے عدالت میں فواد چوہدری کا پوائنٹ آف آرڈر پیش کرتے ہوئے کہا کہ پوائنٹ آف آرڈر پر بحث نہیں ہوتی۔

اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ نیشنل سیکیورٹی کمیٹی اجلاس کی تفصیل کھلی عدالت میں نہیں دے سکوں گا، عدالت کسی کی وفاداری پر سوال اٹھائے بغیر بھی فیصلہ کرسکتی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ وزیراعظم سب سے بڑے اسٹیک ہولڈر ہیں اس لیے اسمبلی توڑنے کا اختیار بھی انہی کے پاس ہے، اسمبلی تحلیل کرنے کے لیے وزیراعظم کو وجوہات بتانا ضروری نہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ صدر سفارش پر فیصلہ نہ کریں تو 48 گھنٹے بعد اسمبلی ازخود تحلیل ہوجائے گی، تحریک عدم اعتماد پر ووٹ ڈالنا کسی رکن کا بنیادی حق نہیں تھا بلکہ ووٹ ڈالنے کا حق آئین اور اسمبلی رولز سے مشروط ہے، اسپیکر کسی رکن کو معطل کرے تو وہ بحالی کے لیے عدالت نہیں آ سکتا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کہنا چاہتے ہیں تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ رولز سے مشروط ہے؟ . اٹارنی جنرل نے کہا کہ تحریک عدم اعتماد سمیت تمام کارروائی رولز کے مطابق ہی ہوتی ہے۔

 

 

گزشتہ 4 سماعتوں میں کیا ہوا؟

گزشتہ سماعت میں صدر مملکت نے آرٹیکل 184/3 کے تحت دائر درخواستوں کے قابل سماعت ہونے پر اعتراض کیا تھا اور ان کے وکیل بیرسٹر علی ظفر نے کہا تھا کہ یہ مقدمہ درحقیقت پارلیمان کے استحقاق میں مداخلت ہے، سپریم کورٹ پارلیمان کے بنائے قانون کو پرکھ سکتی ہے لیکن مداخلت نہیں کر سکتی۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے تھے کہ آئین کا آرٹیکل 69 اپنی جگہ لیکن جو ہوا اس کی کہیں مثال نہیں ملتی، ‏اگر اسے ہونے دیا گیا تو اس کے بہت منفی اثرات ہوسکتے ہیں۔

جسٹس جمال خان مندوخیل کا کہنا تھا کہ یہاں کوئی پوچھنے والا نہیں، اگر کسی نے غداری کی تو ملک کے سربراہ نے پوری اسمبلی ہی اڑا دی۔

قبل ازیں 5 اپریل کو ہونے والی سماعت میں پیپلز پارٹی کے رضا ربانی اور مسلم لیگ (ن) کے مخدوم علی خان نے اپنے دلائل مکمل کیے تھے جبکہ چیف جسٹس نے کہا تھا کہ کیس جلد نمٹانا چاہتے ہیں، نگران حکومت کا قیام کیس کی وجہ سے رکا ہوا ہے۔۔

اس سے قبل 4 اپریل کی سماعت میں سپریم کورٹ نے پیپلز پارٹی کی جانب سے اس معاملے کی سماعت کے لیے فل کورٹ بینچ بنانے کی درخواست مسترد کردی تھی۔

اس معاملے کی پہلی سماعت میں سپریم کورٹ نے تمام سیاسی قوتوں اور ریاستی اداروں کو آئینی حدود کے مطابق کردار ادا کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے وزیراعظم اور صدر کے تمام احکامات سپریم کورٹ کے حتمی فیصلے سے مشروط کردیے تھے۔

خیال رہے کہ وزیراعظم عمران خان کے خلاف اپوزیشن نے 8 مارچ کو تحریک عدم اعتماد جمع کرائی تھی جس پر تاخیر کے بعد 3 اپریل کو ووٹنگ متوقع تھی۔

تاہم ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری کی سربراہی میں ہونے والے قومی اسمبلی کا اجلاس شروع ہوتے ہیں وقفہ سوالات میں بات کرتے ہوئے وزیر قانون فواد چوہدری کی جانب سے قرارداد پر سنگین اعتراضات اٹھائے گئے۔

فواد چوہدری نے اپوزیشن کی پیش کردہ تحریک عدم اعتماد کو بیرونِ ملک سے پاکستان میں حکومت تبدیل کرنے کی کوشش قرار دیا تھا۔

جس کے بعد ڈپٹی اسپیکر نے عدم اعتماد کی تحریک کو آئین و قانون کے منافی قراد دیتے ہوئے مسترد کردیا اور اجلاس غیر معینہ مدت تک کے لیے ملتوی کردیا۔

ایوانِ زیریں کا اجلاس ملتوی ہونے کے فوراً بعد قوم سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان نے صدر کو اسمبلیاں تحلیل کرنے کی تجویز بھجوانے کا اعلان کیا اور قوم کو نئے انتخابات کی تیاری کرنے کی ہدایت کی۔

وزیر اعظم نے کہا تھا کہ اسپیکر نے اپنے اختیارات استعمال کرتے ہوئے جو فیصلہ کیا اس کے بعد میں صدر مملکت کو تجویز بھیج دی ہے کہ اسمبلیاں تحلیل کریں ہم جمہوری طریقے سے عوام میں جائیں اور عوام فیصلہ کرے کہ وہ کس کو چاہتے ہیں۔

بعدازاں صدر مملکت نے آئین کے آرٹیکل 58 (1) اور 48 (1) کے تحت وزیراعظم کی جانب سے قومی اسمبلی تحلیل کرنے تجویز منظور کرلی تھی۔

ایک ہی روز کے دوران صورتحال میں تیزی سے رونما ہونے والی ڈرامائی تبدیلیوں کے بعد رات گئے صدر مملکت عارف علوی نے ایک فرمان جاری کرتے ہوئے ہدایت کی کہ قومی اسمبلی، کابینہ کے تحلیل اور وزیر اعظم کی سبکدوشی کے بعد نگراں وزیر اعظم کے تقرر تک عمران خان اس عہدے پر کام کرتے رہیں گے۔

قومی اسمبلی میں ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری کی جانب سے اپوزیشن کی جانب سے وزیراعظم کے خلاف پیش کی گئی تحریک عدم اعتماد بغیر ووٹنگ مسترد کیے جانے کے بعد پیدا ہونے والی سیاسی صورت حال پر چیف جسٹس پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال نے ازخود نوٹس لیا تھا۔

از خود نوٹس کے علاوہ مختلف پارٹیوں کی جانب سے عدالت عظمیٰ میں درخواستیں دائر کی گئی تھیں جن پر سماعت کے لیے رکنی لارجر بینچ تشکیل دیا گیا تھا۔

انتدائی سماعت میں سپریم کورٹ نے تمام سیاسی قوتوں اور ریاستی اداروں کو آئینی حدود کے مطابق کردار ادا کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا تھا کہ وزیراعظم اور صدر کے تمام احکامات سپریم کورٹ کے حتمی فیصلے سے مشروط ہوں گے۔

چیف جسٹس کا کہنا تھاکہ کوئی حکومتی ادارہ غیر آئینی حرکت نہیں کرے گا، تمام سیاسی جماعتیں اور حکومتی ادارے اس صورت حال سے فائدہ نہیں اٹھائیں گے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button