CM RizwanColumn

مدارس اور حکومتی مفاہمت ضروری

جگائے گا کون؟
تحریر: سی ایم رضوان
ہر پاکستانی حکومت کی ہمیشہ سے یہ خواہش اور کوشش رہی ہے کہ ملک بھر کے پھیلے ہوئے ہزاروں دینی مدارس اگر سرکاری تحویل میں نہیں آتے تو کم از کم مالیاتی نگرانی اور امتحانات کے شعبوں میں ان پر ریاستی کنٹرول ضرور قائم ہو جائے۔ حکومتی حلقے اس کے لئے یہ دلیل دیتے ہیں کہ اس سے دینی تعلیم کے نظام میں یکسانیت پیدا ہوگی، فرقہ واریت کی شدت میں کمی آئے گی، مالی بدعنوانیوں کے الزامات سے مدرسین کے منتظمین محفوظ ہو جائیں گے، نصاب میں عصری علوم شامل ہونے سے علماء کی تعلیم کا معیار بہتر ہوگا اور امتحانات کا ایک معیاری نظام قائم ہو جائے گا۔ جہاں تک ان مقاصد کا تعلق ہے ان کی افادیت سے کوئی باشعور انکار نہیں کر سکتا لیکن حکومت کو اس مہم میں کامیابی اب تک حاصل نہیں ہوئی اور نہ ہی مستقبل قریب میں حاصل ہونے کا کوئی امکان نظر آتا ہے جس کے اسبابِ یہ ہیں کہ ایک تو دینی مدارس کے مالیاتی نظام کی بنیاد حکومتی ذرائع پر نہیں بلکہ معاشرہ کے اصحابِ خیر کے رضاکارانہ تعاون پر ہے اور دینی مدارس کے آزادانہ نظام کی سوا سو سالہ جدوجہد کے نتیجہ میں یہ فضا ابھی تک موجود و مستحکم ہے کہ دینی تعلیم کے حوالہ سے عام آدمی کے اعتماد کا رشتہ دینی مکاتب و مدارس کے ساتھ قائم ہے۔ مغربی لابیاں اور ذرائع ابلاغ دینی مدارس کی کردار کشی اور ان کے خلاف نفرت پیدا کرنے کے لئے بڑے جتن کرتی رہتی ہیں لیکن ہمارے معاشرے کے اس مزاج کو بدلنا ان کے بس میں نہیں ہے کہ دین سے تعلق رکھنے والا شہری خواہ وہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے پڑوس میں رہتا ہو، مسئلہ پوچھنے کے لئے کسی دینی مدرسہ کے مولوی سے ہی رجوع کرے گا اور اگر وہ صدقے کا بکرا دینا چاہتا ہے تو اسے بھی کسی دینی مدرسہ یا مکتب تک پہنچا کر ہی مطمئن ہوگا لہٰذا جب تک یہ فضا موجود ہے دینی مدارس کے مالیاتی نظام کو کسی حکومتی سہارے کی ضرورت نہیں اور جب مدارس حکومتی سہاروں سے بے نیاز ہیں تو اپنے نظام میں حکومتی دخل اندازی کو قبول کرنے کے لئے کیسے تیار ہوں گے؟
پچھلے 76سال کے دوران ملک میں قائم ہونے والی کوئی حکومت دین اور دینی اقدار کے حوالہ سے عوام کا یہ اعتماد حاصل نہیں کر سکی کہ لوگ اپنے دینی معاملات کسی ذہنی تحفظ کے بغیر اس کے سپرد کرنے کے لئے تیار ہو جائیں بلکہ اس بارے میں بے اعتمادی کی فضا اس حد تک قائم ہے کہ کوئی حکومت کسی دینی معاملہ میں کوئی صحیح قدم اٹھاتی ہے تو اسے بھی عزائم اور مقاصد کے پس منظر میں بدنیتی اور سیاست کاری پر محمول کیا جاتا ہے اور یہ امر واقعہ ہے کہ اگر کوئی دینی مدرسہ، جماعت یا ادارہ حکومت کے قریب ہونے کی کوشش کرتا ہے تو جتنا وہ حکومت کے قرب میں آگے بڑھتا ہے اسی تناسب سے وہ دین دار عوام کے اعتماد سے محروم اور شکوک و شبہات کا شکار ہوتا چلا جاتا ہے۔ اس صورتحال میں دینی عوامی حلقوں کا اعتماد قائم رکھنے کے لئے دینی مدارس یہ ضروری سمجھتے ہیں کہ وہ حکومت سے جس قدر دور رہیں بہتر ہے۔ دینی مدارس پر ریاستی کنٹرول کے بارے میں کچھ تلخ عملی تجربات بھی حکومتی عزائم کے راستے میں رکاوٹ ہیں اور ان تجربات کے بعد دینی تعلیم کے حوالہ سے حکومتی نظام پر کسی درجے کا اعتماد قائم ہونے کا کوئی امکان باقی نہیں رہا۔ مثلاً ماضی قریب میں بہاولپور کے جامعہ عباسیہ کو محکمہ تعلیم نے اسلامی یونیورسٹی قرار دے کر اپنی تحویل میں لے لیا اور اعلان کیا گیا کہ یہاں درس نظامی اور جدید تعلیم کا مشترکہ نظام پڑھایا جائے گا۔ کچھ عرصہ یہ نظام قائم رہا، حضرت علامہ شمس الحقؒ افغانی اور حضرت مولانا احمد سعید کاظمیؒ جیسے اکابر علماء کو وہاں لایا گیا لیکن رفتہ رفتہ دینی تعلیم یعنی درس نظامی کا عنصر نصاب سی خارج ہوتا چلا گیا اور اب وہاں وہی نصاب و نظام رائج ہے جو ملک کے باقی کالجوں اور یونیورسٹیوں میں ہے۔ اسی طرح اوکاڑہ کے جامعہ عثمانیہ کو جو اپنے وقت میں ملک کے بڑے دینی مدارس میں شمار ہوتا تھا، محکمہ اوقاف نے اپنی تحویل میں لیا اور سرکاری نظام کے تحت اسے چلانے کا اعلان کیا گیا۔ لیکن اب وہاں صورتحال یہ ہے کہ مدرسہ کے کمرے محکمہ اوقاف نے مختلف فرموں اور کمپنیوں کو کرائے پر دے رکھے ہیں اور مدرسہ نامی کسی چیز کا وجود وہاں اس وقت باقی نہیں ہے۔
ان واقعات سے دینی حلقوں کا یہ ذہن مزید پختہ ہو گیا ہے کہ دینی مدارس پر ریاستی کنٹرول سے حکمرانوں کا مقصد یہ ہے کہ یہ مدارس یا تو جامعہ عثمانیہ اوکاڑہ کی طرح بالکل ختم ہو جائیں اور اگر ختم نہیں ہوتے تو جامعہ عباسیہ بہاولپور کی طرح سرکاری تعلیمی نظام میں ضم ہو کر اسی کا حصہ بن جائیں۔ اس وجہ سے بھی دینی مدارس اور ان سے وابستہ دین دار عوامی حلقے مدارس پر ریاستی کنٹرول یا سرکاری محکموں سے کسی درجہ کے تعلق کا ’’ رسک‘‘ لینے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ یاد رہے کہ حکومت پاکستان نے ایک دور میں دینی مدارس کی اسناد کو سرکاری سطح پر تسلیم کرنے کا فیصلہ کیا تھا اور یونیورسٹی گرانٹس کمیشن نے دینی مدارس کی آخری سند ( شہادۃ العالمیہ) کو ایم اے اسلامیات و عربی قرار دینے کا نوٹیفیکیشن جاری کیا تھا جسے ملک کی بعض یونیورسٹیوں نے تسلیم کیا اور اس کی بنیاد پر فضلائے درس نظامی کو ایم اے، ایم فل اور پی ایچ ڈی کرنے کے مواقع فراہم کیے لیکن پنجاب یونیورسٹی اور محکمہ تعلیم کی نوکر شاہی نے اسے تسلیم نہ کیا اور اسے غیر موثر بنانے کی مسلسل تگ و دو ہوتی رہی۔ یہاں تک کہ دینی مدارس کی اسناد کے بارے میں حکومتی پالیسی کے تذبذب کی وجہ سے ابھی تک کوئی متبادل پروگرام نہیں طے پا سکا۔ اس سلسلہ میں محکمہ تعلیم کی بیوروکریسی کی پالیسی مکمل طور پر حوصلہ شکن چلی آ رہی ہے۔ اس سلسلے میں سرکاری کرسی پر بیٹھے ہوئے ایک عالم دین دینی مدارس کے منتظمین سے صاف کہہ رہے ہیں کہ دینی مدارس کی اسناد کی سرکاری حیثیت کی بات آپ بھول جائیں۔ یہ ضیاء الحق کا ڈنڈا تھا جس کی وجہ سے ہم خاموش ہوگئے تھے اور کچھ دیر بات چل گئی تھی۔ اب اگر آپ ڈگری کی بات کرتے ہیں تو آپ کو سرکاری نظام کے تحت پراپر چینل پر آنا ہوگا ورنہ ڈگری وگری کی بات ذہن سے نکال دیں ایسا کبھی نہیں ہو گا۔
یہی وجہ ہے کہ سرکاری کالجوں اور سکولوں میں ’’ درس نظامی گروپ‘‘ کے نام سے وفاقی محکمہ تعلیم کا وہ منصوبہ بھی اب شکوک و شبہات کی نذر ہوتا دکھائی دے رہا ہے جس کی تیاری میں محکمہ تعلیم کے ایسے افسر شامل ہیں جن کی دین داری اور دینی حمیت شک و شبہ سے بالا تر ہے۔ سرکاری کالجوں اور سکولوں میں ’’ درس نظامی گروپ‘‘ کے نام سے دینی تعلیم کا یہ پروگرام وفاقی وزارت تعلیم نے تیار کیا جسے انٹرمیڈیٹ بورڈوں کی مشترکہ کمیٹی کے اجلاس میں ملک بھر کے انٹرمیڈیٹ بورڈز کے چیئرمینوں نے منظور کر لیا
اسی طرح ایک دائرہ میں وہ دینی مدارس شامل ہیں جنہوں نے درس نظامی کے ساتھ میٹرک، ایف اے اور بی اے کی ریگولر تعلیم اور امتحانات کو اپنے نظام میں شامل کر لیا ہے اور ’’ نظامت تعلیمات اسلامیہ‘‘ کے نام سے ایک الگ وفاق قائم کر کے اس بنیاد پر کام شروع کر دیا ہے۔ اس وفاق کا ہیڈکوارٹر جامعہ منظور الاسلامیہ عیدگاہ لاہور چھائونی میں قائم ہے۔ ان حضرات نے اس مقصد کے لئے درس نظامی کے مروجہ نصاب میں تخفیف کی ہے جو بعض اہل علم کے نزدیک محل نظر ہے لیکن بہرحال ایک تجرباتی کام کا آغاز ہو گیا ہے۔ دوسرے حصہ میں وہ حضرات ہیں جو درس نظامی کے نصاب اور سکولوں کالجوں کے نصاب کو گڈمڈ کر دینے کے قائل نہیں ہیں اور سکول و کالج کے نصاب کو بنیاد بنا کر اس میں دینی تعلیم کو اس حد تک سمو دینا چاہتے ہیں کہ اس نصاب سے گزرنے والا طالب علم قرآن و حدیث سے استفادہ کی اہلیت حاصل کر سکے اور دین کے بارے میں ضروری معلومات رکھنے والا مسلمان ہو۔ اس کے ساتھ ہی وہ درس نظامی کے فضلاء کے لئے کسی ایسے نظام کے خواہشمند ہیں کہ ان میں سے ذہین اور باصلاحیت حضرات عصری تعلیم کے ضروری مراحل سے گزر کر قومی زندگی کے مختلف شعبوں میں داخل ہوں تاکہ عدلیہ اور انتظامیہ میں دینی تعلیم و تربیت سے بہرہ ور رجال کار کی کمی کا خلا کم سے کم کیا جا سکے۔ شاہ ولی اللہ یونیورسٹی گوجرانوالہ کے قیام کا بنیادی ہدف بھی یہی ہے جو ابھی تجربات کے مد و جزر سے گزر رہی ہے۔
پروفیسر محمد طاہر القادری، ڈاکٹر اسرار احمد، پیر محمد کرم شاہ الازہری، مولانا محمد اکرم اعوان اور ان جیسے دیگر ارباب فکر و دانش کے قائم کردہ مختلف تعلیمی نظام اسی تیسرے عنصر کے دائرے میں شامل ہیں اور ان کے علاوہ بھی ملک بھر میں عریبک سکولوں، اکیڈمیوں اور اداروں کا ایک وسیع سلسلہ دن بدن بڑھ رہا ہے اور اگر ان سب کے درمیان مفاہمت و مشاورت کا کوئی نظام قائم ہو جائے تو قومی سطح پر ایک مستقل نظام تعلیم کا مضبوط نیٹ ورک سامنے بھی سامنے آ سکتا ہے اور آج کل جو دینی مدارس کی رجسٹریشن کے حوالے سے جو مسائل چل رہے ہیں ان کا بہتر حل نکل سکتا ہے۔ قومی زندگی میں دینی تعلیم کے سلسلہ میں مختلف سطحوں پر پائی جانے والی فکری و عملی کشمکش کا بھی خاتمہ ہونا چاہیے تاکہ دینی تعلیم کے لئے کام کرنے والے حضرات جس رخ پر بھی کام کریں اور جو طریق کار بھی اپنائیں یہ ان کی صوابدید کی بات ہے لیکن باہمی رابطہ و مشاورت کی فضا ضرور قائم کریں، اس سے ان کے کام کی افادیت اور وزن دونوں میں اضافہ ہوگا اور وہ معاشرہ میں دینی تعلیم و تربیت کے فروغ کے مشترکہ مقصد میں زیادہ اعتماد اور دلجمعی کے ساتھ پیش رفت کر سکیں گے۔

جواب دیں

Back to top button