Column

عوام کی بہتری کیلئے کب فائنل کال دی جائے گی؟

عبدالرزاق برق
اس وقت پہلی دفعہ قوم ایک عجیب منظر دیکھنے پر مجبور ہے کہ حکومت اور اپوزیشن کے زعما ایک دوسرے پر آتشیں لفظوں کی گولہ باری اس طرح سے کر رہے ہیں کہ دشمن ملک کیخلاف بھی ایسی شعلہ نوائی کم ہی دیکھنے کو ملے گی۔ دونوں جانب اس بات کا احساس وجود ہی نہیں رکھتا کہ ایک دوسرے میں زہر فشانی نوجوانوں کے اذہان و قلوب میں کیا کیا تلاطم پیدا کر رہی ہے، جس سے سیاسی رہنمائوں کی آگ اگلتی زبانوں سے معاشرے میں نفرتوں کے الائو جلا دیئے جائیں اور نئی نسل کو کس طرح سے ملک کی مستقبل سے مایوس کر رہی ہے۔ وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا کا لب و لہجہ اور وفاق پاکستان کو دھمکیاں بھی سیاسی طرز عمل نہیں بلکہ ملک کا جمہوری نظام، سماجی استحکام اور معیشت سمیت کوئی بھی شعبہ حکومت اور اپوزیشن کے اثرات سے محفوظ نہیں، یہ سیاسی محاذ آرائی کا شاخسانہ ہے کہ سماج کے ہر شعبے پر اس کے منفی اثرات مرتب ہورہے ہیں۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ مسلح جتھوں کا وفاقی دارالحکومت پر یلغار کرنا کوئی جواز نہیں رکھتا لیکن کیا یہ حکومت کی ناکامی نہیں کہ وہ مظاہرین کو انگیج کرنے اور ریڈ زون تک پہنچنے سے روکنے کیلئے پرامن ذرائع استعمال کرنے میں ناکام رہی جس کی وجہ سے مظاہرین ریڈ زون تک پہنچنے میں کامیاب ہوسکے۔ سوال یہ ہے کہ دشمنوں میں گھرا پاکستان کیا اس صورتحال کا متحمل ہوسکتا ہے؟ یہ اس لئے کہ موجودہ حالات ایک ایسے وقت میں پیدا ہوئے ہیں کہ اس وقت ملکی یکجہتی کی ضرورت ہے اور عالمی سطح پر خطے میں بدلتی ہوئی صورتحال میں پاکستان کے مفادات کے تحفظ کی ضرورت ہے لیکن یہاں وفاق اور صوبہ ایک دوسرے کیخلاف مورچہ زن ہیں۔ اگر ان کرتوتوں اور ذاتی و گروہی انا، ضد کی وجہ سے ملک کو کوئی نقصان پہنچا تو کچھ بھی محفوظ نہیں رہے گا۔ اس حقیقت کو تسلیم کرنا چاہئے کہ ایک دوسرے کو قوت سے دبانے کی اس جنگ میں پورے نظام کاہی بوریا بستر گول نہ ہوجائے اور بات چیت مذاکرات، مفاہمت اور مصالحت کے سوا نظام ملک اور سیاسی اکائیوں کی بقا، استحکام اور بہتری کا کوئی راستہ موجود نہیں، جو بھی فریق پہل کرے گا وہی فائدے میں رہے گا، جتنا وقت ضائع ہوگا اتنا ہی نقصان بڑھے گا۔ کیا پاکستان میں اب تک احتجاج، ہڑتالوں سے کوئی بھی حکومت اقتدار سے محروم ہوئی ہے؟ احتجاج جمہوری حق ہے اور یہ حق کسی حکومت نے نہیں دیا بلکہ یہ آئینی حق ہے اور کسی کو یہ حق نہیں کہ سیاسی جماعت یا ملک کے کسی احتجاج کو طاقت کے زور پر روکے، یہ حق بھی کسی کا نہیں ہوسکتا کہ اپوزیشن کے احتجاج کو روکنے کیلئے قومی خزانے کا بے دریغ استعمال کیا جائے۔ تحریک انصاف کے پاس کریک ڈائون سے نمٹنے کیلئے کوئی حکمت عملی نہیں تھی کیونکہ پی ٹی آئی کا ناقابل تلافی نقصان ہوگیا ہے، سیکڑوں کارکن گرفتار ہوگئے ہیں۔ ان کیلئے مشکلات بڑھ گئی ہیں اور فائنل کال کے بعد بھی سیکڑوں لوگ مقدمات میں پھنس گئے ہیں۔ اگرچہ اس احتجاج میں پنجاب، سندھ، بلوچستان سب خاموش رہے، وہاں سے کوئی شریک نہیں ہوا اور آگے سہولت کاری نہیں تھی اس لئے ناکام ہوگئے لیکن سب سے بڑا سوال یہ بنتا ہے کہ پی ٹی آئی نے بانی پی ٹی آئی کی رہائی کیلئے سب سے بڑا احتجاج کرلیا اور حکومت نے پی ٹی آئی کا احتجاج کچلنے کیلئے زور آزمائی کی اور پی ٹی آئی کے احتجاج کو روکنے کیلئے اٹھارہ ماہ میں حکومت نے 207ارب روپے خرچ کئے، 80کروڑ روپے تین ہزار کنٹینر کے مالکان کو کرایہ ادا کیا گیا۔ 370سیف سٹی کیمروں کو نقصان پہنچا جبکہ سرکاری اہلکاروں کا جانی اور بے بس شہریوں کا نقصان الگ ہے جبکہ 90کروڑ سے زائد سکیورٹی اہلکاروں کی ٹرانسپورٹ پر خرچ ہوئے اور لگ بھگ ڈیڑھ ارب روپے پولیس کے کھانے اور ٹرانسپورٹ پر خرچ ہوئے، 30کروڑ کے اخراجات ایف سی، رینجرز اور فوج کی تعیناتی پر خرچ ہوئے، اسلام آباد کے 12ہزار، پنجاب کے 16ہزار پولیس اہلکاروں کی ڈیوٹیز پر لگایا گیا، ایک ارب 50کروڑ روپے کی مالیت کی سرکاری و غیر سرکاری املاک کو نقصان پہنچا، اب دھرنے اور احتجاج کے ہونے اور انہیں روکنے پر نقصان صرف عوام کا ہورہا ہے اور بوجھ قومی خزانے پر پڑ رہا ہے اور دونوں عوام کا نام لے کر سیاست کر رہے ہیں، اتنی بڑی رقم سے اگر عوام کو ریلیف دینے، مہنگائی کم کرنے پر خرچ کی جاتی تو عوام کو درپیش مشکلات میں کافی حد تک کمی لائی جاسکتی تھی، دونوں ہی فریق اگر ملکی معاشی حالات اور عوام کی حالت زار کا خیال کر لیتے تو احتجاج کچلنے کی یہ رقم عوام پر خرچ ہوسکتی تھی، حکومت اور اپوزیشن کبھی عوام کی بہتری کیلئے کب فائنل کال دیں گے؟ جس سے عوام پر مسلط کی گئی بیروزگاری اور مہنگائی سے نجات اور سکون مل سکے۔ لیکن کوئی یہ نہیں بتا سکا کہ اسلام آباد پر پی ٹی آئی کی یلغار کرنے سے خود پی ٹی آئی اور عوام کو کیا صلا ملا؟ کیا اسلام آباد پر یلغار سے بانی پی ٹی آئی عمران خان رہا ہوئے؟ مفت میں قومی خزانے سے اربوں روپے ضائع ہوگئے اور ساتھ ہی حکومت، پی ٹی آئی کے نوجوان بھی ہلاک ہوئی، نہ حکومت کو کچھ ملا نہ پی ٹی آئی کو کچھ ملا؟ پی ٹی آئی والوں کیلئے اسلام آباد یلغار کرنا ضروری تھا یا کرم ایجنسی میں پشتونوں کا کشت و خوں روکنا ضروری تھا؟ وہاں کرم ایجنسی میں پشتونوں کے آپس میں شیعہ اور سنی کے نام پر لڑائی کرنے سے دونوں طرف سے سیکڑوں پشتون ہلاک ہوئے، کیا پی ٹی آئی کو اسلام آباد سے نزدیک تھا کرم ایجنسی نزدیک نہیں تھا؟ وہاں اس کشت و خوں کو روکنے کیلئے احتجاج کرتا، وہاں پر سیکڑوں پشتون خون میں لت پت تھے لیکن پی ٹی آئی نے ایک بندے کی رہائی کیلئے اسلام آباد پر یلغار کی لیکن کرم ایجنسی میں پشتونوں کا کشت و خوں روکنے کیلئے ایک بیان بھی نہیں دیا۔ پی ٹی آئی سے تعلق رکھنے والے پشتون نوجوانوں کو یہ بات سمجھنی ہوگی کہ پی ٹی آئی صرف انہیں اپنے سیاسی مفادات کیلئے استعمال کر رہی ہے، جلسے جلوس اور احتجاجی مظاہروں میں پختون نوجوانوں کی توانائی کو سیاسی سٹیج پر استعمال کیا جاتا ہے لیکن جب بات ان کے مسائل، روزگار، تعلیم اور امن کی آتی ہے تو پی ٹی آئی مکمل طور پر ناکام نظر آتی ہے۔ پختون نوجوانوں کو یہ سوچنا چاہے کہ وہ کس کیلئے اپنی توانائیاں صرف کر رہے ہیں؟ اس جماعت نے خیبر میں پشتون خوا میں تین بار حکومت کی لیکن پختون عوام کے حقیقی مسائل حل کرنے کے بجائے صرف سیاسی تماشے میں انہیں مصروف رکھا ہے، یہ پہلی بار نہیں کہ وفاق اور صوبے میں ایک دوسرے کی مخالف سیاسی حکومت آئی ہے، حقیقت یہ ہے کہ بہت کم ایسا ہوا ہے کہ چاروں صوبوں اور وفاق میں ایک ہی پارٹی کی حکومت آئی ہو، 90کی دہائی میں وفاق اور پنجاب میں ایک دوسرے سے متحارب جماعتیں برسر اقتدار رہی ہیں، احتجاج بھی ہوتا رہا لیکن کبھی کسی ایک اکائی نے وفاق پر چڑھائی کی دھمکی دی نہ چڑھائی کرنے کی کوشش کی، اس سے قبل ایسا موقع نہیں آیا، ماضی میں دہشت گردی کی سنگین صورتحال کا سامنا بھی رہا لیکن سیاسی بے چینی بھی سر اٹھاتی رہی مگر قومی سلامتی چیلنجز کے دوران سیاسی اختلافات کو بھی بھلا کر قومی اتفاق رائے پیدا کرنے کی روایت برقرار رہی جو اس مرتبہ دکھائی نہیں دے رہی، فریقین طاقت کے استعمال کو آخری آپشن قرار دے رہے ہیں، اس کا نتیجہ کیا نکل سکتا ہے اس کا انہیں اندازہ نہیں حالانکہ جس طرح کل تک پیپلز پارٹی اور نواز لیگ دشمن تھے، ایک دوسرے کے بارے میں آگ اگلتے تھے آج ایک گھاٹ پر پانی پیتے ہیں، ان تمام اختلافات کا حل یہ ہے کہ اپوزیشن حکومت دونوں کی ذمہ داری ہے کہ نفرت اور عناد کے شعلوں کو ہوا دینے کے بجائے بجھانے کی کوشش کریں، زخموں پر نمک چھڑکنے کے بجائے مرہم رکھنے کی کوشش کریں، پی ٹی آئی نے اپنی فائنل کال کے نام پر زوردار طاقت کا مظاہرہ کر دکھایا، ریاست نے اپنی رٹ قائم کرکے دکھا دی، اب فریقین کو چاہئے کہ ملک کی خاطر بیٹھ کر آگے بڑھیں اور اختلافات کو ختم کرنے کا راستہ نکالے، اقتدار، اختیار اور طاقت حکومت کے پاس ہے، کچھ دینے کا اختیار اسی کا ہے لہٰذا لازم ہے کہ حکومت اب بات چیت کا ڈول ڈالے اور تمام سیاسی عناصر کو ایک میز پر لائے، صدر پاکستان اور سپیکر قومی اسمبلی دونوں کی ذمہ داری ہے کہ جلتی پر تیل ڈالنے والوں کو روکیں اور آگ بجھا کر امن کی جانب کوئی راستہ نکالیں، اگر یہ سلسلہ نہ روکا گیا تو خطرہ ہے کہ جمہوریت کا دفتر ہی نہ لپیٹ دیا جائے، یہ جو پی ٹی آئی پر پابندی عائد کر رہے ہیں جوکہ غیر جمہوری مطالبہ ہے اور وہ اس کام کے ذریعے جمہوریت کا چراغ گل کرنا چاہتے ہیں، کسی بھی سیاسی جماعت کے رہنمائوں اور کارکنوں کو یہ بات فراموش نہیں کرنی چاہئے کہ سیاسی جماعتوں پر پابندی لگانے کا مقصد جمہوریت کا گلہ گھوٹنا ہے اور ڈکٹیٹرشپ کی راہ ہموار کرنا ہے، اس لئے ایسے عناصر یا سیاسی کارکنوں کی حوصلہ شکنی کرنی چاہئی، اسی کے ساتھ تمام سٹیک ہولڈرز کو یہ بھی چاہے کہ ضد اور انا کا خول توڑیں، تباہی بہت ہوچکی ہے، سیاسی اختلافات دشمنی کی شکل اختیار کر رہے ہیں، یہ خون آشام لڑائی اگر یہی نہ روکی گئی تو بہت نہیں سب کچھ برباد ہوکر رہ جائے اور حکومت کو لاٹھی چلانے کی بات کرنا چھوڑ دیں، بات چیت کا راستہ تلاش کریں، اپوزیشن کو چاہے کہ ضد انا اور دھمکیوں سے کبھی مسائل حل نہیں ہوتے، صرف پاکستان کے نہیں بلکہ دنیا کے کسی کمزور ترین ملک میں بھی ریاست کو مسلح جتھوں اور دھمکیوں سے ڈرانا ناممکن نہیں، لازم ہے کہ زمینی حقائق کو تسلیم کریں اور بات چیت کا راستہ اختیار کریں، بات چیت کے بغیر سیاسی عدم استحکام سمیت کسی بھی مسئلہ کا حل ممکن نہیں، حکومت اور اپوزیشن دونوں جتنی جلدی ہوسکے آپس میں مذاکرات شروع کریں، اس میں عوام کا مفاد بھی ہے اور حکومت کا بھی۔

جواب دیں

Back to top button