اکتوبر بریسٹ کینسر سے آگاہی کا مہینہ

تحریر :روشن لعل
ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن نے اکتوبر کو دنیا بھر میں چھاتی کے کینسر سے آگاہی کا مہینہ قرار دے رکھا ہے۔ اسی وجہ سے اکتوبر 2024، دنیا کے دیگر ملکوں کی طرح پاکستان میں بھی بریسٹ کینسر سے آگاہی مہم کے مہینے کے طور پر منایا جارہا ہے۔ اس مہینے کو یہاں رسمی طور پر تو چھاتی کے کینسر سے آگاہی کا مہینہ تو قرار دے دیا گیا لیکن اکتوبر کا پہلا ہفتہ گزرنے کے باوجود بریسٹ کینسر کی حساسیت سے متعلق وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی جانب سے کوئی خاص سرگرمی دیکھنے مین نہیں آئی۔ شاید بریسٹ کینسر سے آگاہی کے سلسلہ میں حکومتوں کے سرگرم نہ ہونے کی وجہ یہ ہے کہ وطن عزیز میں عوامی بہبود کے کاموں کی بجائے سیاسی افراتفری و ہلچل سے وابستہ سرگرمیوں میں ملوث ہونے کو ترجیح دی جاتی ہے۔ بریسٹ کینسر ایک خالص طبی مسئلہ ہے مگر جب یہاں حکمرانوں کی ترجیحات عوام کو صحت کی بہتر سہولتیں فراہم کرنے کی بجائے اقتدار کی رسہ کشیوں میں الجھے رہنا ہوگا تو اس اہم معاملہ کی طرف عام لوگوں کو کیسے متوجہ کیا جاسکے گا۔ ملک کے سیاسی، سماجی اور معاشی حالات جیسے بھی ہوں، بریسٹ کینسر ایک ایسا حساس مسئلہ ہے جسے دیگر معاملات کی وجہ سے نظر انداز کرنا کسی طور مناسب نہیں ہے۔ ماہرین کے مطابق پاکستان میں ہر 9میں سے 1خاتون بریسٹ کینسر کے خطرے کی زد میں ہو سکتی ہے۔ جب یہاں چھاتی کے کینسر کے پھیلائو کا اس حد تک خطرہ موجود ہو تو پھر حکومتیں کیسے اس مسئلہ پر اپنی آنکھیں بند رکھ سکتی ہیں۔
بریسٹ کینسر کو خالص عورتوں کی بیماری کہا جاتا ہے کیونکہ اسسے متاثر ہونے والوں میں 98فیصد سے زیادہ تعداد عورتوں کی ہے۔ دنیا میں ہر برس دس لاکھ سے زیادہ عورتیں بریسٹ کینسر کے مرض میں مبتلا ہوتی ہیں۔ چھاتی کے کینسر کے حوالے سے اکثر یہ سوال اکثر پوچھا جاتا ہے کہ کہ کن عورتوں کا اس کینسر سے متاثر ہونے کا زیادہ امکان ہوتا ہے۔ ماہرین کے مطابق، ضروری نہیں کہ چھاتی کے کینسر کا مرض ہر عورت کو لاحق ہو مگر اس کے باوجود کسی بھی عورت کا اس کی زد میں آنے کے امکان کو رد نہیں کیا جاسکتا۔ بریسٹ کینسر کے معاملے میں ہمیں کس قدر حساس ہونا چاہیے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کی شائع شدہ ایک رپورٹ کے مطابق یہ کینسر 2022میں 670000سے زیادہ خواتین کی اموات کا باعث بنا۔ ویسے تو بریسٹ کینسر کو ترقی یافتہ ملکوں کی عورتوں کا مرض کہا جاتا ہے مگر یہ بات حیران کن ہے کہ پسماندہ ملکوں میں اس کینسر کے باعث موت کے منہ میں جانے والی خواتین کی تعداد زیادہ ہوتی ہے۔ اگر مشرقی افریقہ کے ملکوں میں ایک لاکھ میں سے 20عورتوں کے بریسٹ کینسر میں مبتلا ہونے کا خطرہ ہوتا ہے تو مغربی یورپ کی ایک لاکھ خواتین میں سے 90کے لیے یہ خطرہ ہو سکتا ہے۔ ترقی پذیر ملکوں میں مجموعی طور پر عورتوں کے بریسٹ کینسر میں مبتلا ہونے کا خطرہ ایک لاکھ میں سے 40خواتین کے لیے ظاہر کیا گیا ہے۔ امریکہ اور یورپی ممالک کی عورتوں کے کم ترقی یافتہ ممالک کی خواتین کی نسبت بریسٹ کینسر کے مرض میں زیادہ مبتلا ہونے کے باوجود وہاں اس کینسر کی وجہ سے اموات کی تعداد پسماندہ ملکوں سے کم ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ایک تو یورپ و امریکہ میں ابتدائی مرحلے پر ہی اس مرض کی تشخیص ہو جاتی ہے اور دوسرا وہاں علاج کے مواقع اور سہولتیں ترقی پذیر ممالک سے بہت بہتر ہیں۔ جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے تو یہاں اس کینسر میں مبتلا عورتیں اس وقت علاج کی طرف رجوع کرتی ہیں جب ان کا مرض تیسرے یا چوتھے درجے تک پہنچ کر تقریباً لاعلاج ہو چکا ہوتا ہے۔
بریسٹ کینسر کو ویسے تو عورتوں کا مرض تصور کیا جاتا ہے مگر یہ مسئلہ صرف عورتوں کا نہیں بلکہ انسانوں کا ہے۔ یہ مسئلہ ہر اس گھر کا ہے جہاں عورت موجود ہے کیونکہ جہاں عورت موجود ہے وہاں بریسٹ کینسر کے ظاہر ہونے کا امکان بھی موجود ہے۔ اس لیے بریسٹ کینسر کیسے اور کیوں نمودار ہو سکتا اور اس کی ابتدائی علامات کیا ہیں اس سے آگاہی صرف عورتوں کے لیے ہی نہیں بلکہمردوں کے لیے بھی ضروری ہے۔ پاکستان میں بریسٹ کینسر کی ابتدائی علامات اور علاج کی تفصیلات سے مردوں کا آگاہ ہونا اس لیے بھی زیادہ ضروری ہے کیونکہ یہاں عام گھروں میں عورت اپنے ذاتی معاملات طے کرنے اور حتیٰ کہ علاج کے لیے بھی آزاد اور خود مختار نہیں ہے۔ اس کے علاوہ یہاں ستی ساوتری بنے رہنے کی روایت کے زیر اثر اکثر عورتیں گھر کے دوسرے افراد کی نسبت اپنے مسائل اور تکلیفوں کی طرف کم ہی دھیان دیتی ہیں، دوسرا پاکستان کی عورتیں ہوں یا مرد، کسی مہلک بیماری میں مبتلا ہونے کے شک کے بعد اس کے تشخیصی ٹیسٹوں سے بھاگنا یہاں تقریباً سب کی نفسیات کا حصہ ہے۔ اس صورتحال میں گھر کے مردوں میں سے خاص طور پر باپ اور خاوند کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اس بات سے آگاہ رہیں کہ کسی خاتون میں بریسٹ کینسر کی ابتدائی علامات کیا ہوسکتی ہیں اور اگر خدانخواستہ یہ علامات ظاہر ہوجائیں تو مریض خاتون کو حوصلہ دیتے ہوئے فوراً ڈاکٹر سے رجوع کرنا چاہیے۔ بریسٹ کینسر کی ابتدائی علامات کیا ہوسکتی ہیں اس سلسلے میں آگاہی کے لیے ضروری ہے کہ حکومتیں تشہیری مہم کے لیے اخبارات اور ٹی وی چینلوں کو زیادہ سے زیادہ استعمال کریں۔ اس وقت دنیا میں بریسٹ کینسر کا پھیلائو جس حد تک دیکھنے میں آرہا ہے اس کے پیش نظر ضروری ہے کہ ہر عورت ذاتی طور کسی معالج سے رجوع کر کے اس مرض کی ابتدائی علامات سے متعلق آگاہی حاصل کرے۔ جو عورتیں اس معاملے میں آگاہ ہیں ان کا فرض ہے کہ اپنے گھر، خاندان اور ملنے والی خواتین کے ساتھ اس حوالے سے گفتگو کریں اور اپنی معلومات ان تک پہنچائیں۔
اس وقت دنیا میں ’’ سوزن جی کومن فار دی کیور‘‘ نامی تنظیم بریسٹ کینسر کے خلاف سب سے موثر اور متحرک کردار ادا کر رہی ہے۔ یہ تنظیم نینسی گڈ مین کومن نامی خاتون نے 1982میں اپنی بہن سوزن گڈمین کومن کے نام پر قائم کی جو 33برس کی عمر میں بریسٹ کینسر کے مرض میں مبتلا ہونے کے بعد1980میں 36سال کی عمر میں انتقال کر گئی۔ نینسی گڈ مین کو جب یہ معلوم ہوا کہ بریسٹ کینسر کی ابتدائی علامات ظاہر ہونے کے پر مناسب احتیاط اور علاج کی صورت میں مریض کی زندگی بچائی جاسکتی ہے تو اس نے اپنی بہن کی موت کا دکھ زیادہ محسوس کرنا شروع کردیا۔ دکھ کی اس کیفیت سے باہر نکلنے کے لیے اس نے خود سے وعدہ کیا کہ اس کی بہن کی زندگی تو ممکن ہونے کے باوجود نہ بچ سکی مگر وہ اس مرض سے تحفظ کے لیے نہ صرف دوسری عورتوں کی رہنمائی بلکہ بریسٹ کینسر کے خاتمے کی ہر ممکن کوشش بھی کرے گی۔ اس کے بعد سوزن نے بریسٹ کینسر کے خاتمے کو اپنی زندگی کا مقصد بناتے ہوئے اپنی بہن کے نام پر بنائی گئی تنظیم کے ذریعے جدوجہد کا آغاز کر دیا۔ اس تنظیم کے ذریعے دنیا میں آگاہی پھیلائی جاتی ہے کہ بروقت تشخیص اور علاج کے ذریعے بریسٹ کینسر کا علاج ممکن ہے۔