نواز شریف بتائیں عمران کیوں مقبول ہے؟
امتیاز عاصی
مسلم لیگ نون کے قائد میاں نواز شریف ملک کے تین بار وزیراعظم رہ چکے ہیں۔ مارشل لاء دور میں وہ پنجاب کے وزیر خزانہ تھے بعد ازاں صوبے کے وزیراعلیٰ کے منصب پر فائز رہے۔ وزیراعلیٰ کے عہدے پر رہتے ہوئے ارکان اسمبلی کے عزیزوں اقارب کو پرکشش ملازمتیں دیں۔ وزیراعظم بنے تو ارکان اسمبلی اور صحافیوں کو پلاٹ اور یلوکیپ اسکیم گاڑیاں دیں اور گاڑیوں کی رقم قومی خزانے سے ادا کی ۔ موٹر ویز بنائے ان کے دور میں آج کے مقابلے میں مہنگائی نہیں تھی اور غریب عوام پریشان نہیں تھے۔ جنرل پرویز مشرف نے اقتدار پر شب خون مارا تو میاں صاحب سعودی عرب چلے گئے اور جدہ میں سرور محل میں قیام کیا۔ عمران خان نے اقتدار سنبھالا تو لندن چلے گئے۔ میاں صاحب نے تازہ ترین بیان میں عمران خان کے پیچھے چلنے والوں کو بھیٹر بکریوں سے تشبیہ دے کر کروڑوں عوام کی دل شکنی کی۔ ان کی ہونہار بیٹی محترمہ مریم نواز مسلم لیگ نون کی کھوئی ہوئی عظمت رفتہ کی بحالی کے لئے کوشاں ہیں۔ نواز شریف کے لئے قابل غور بات یہ ہے آخر ملک کے عوام پی ٹی آئی کے بانی عمران خان کے ساتھ کیوں ہیں؟۔ عمران خان تین سال اقتدار میں رہا عوام کے لئے وہ کچھ نہیں کر سکا جس کی لوگوں کو توقع تھی اس کے باوجود عوام عمران خان کے ساتھ کیوں ہیں۔ حقیقت یہ ہے عمران خان نے کرپشن میں ملوث لوگوں کے خلاف بے لاگ احتساب کا نعرہ لگا کر عوام کو اپنی طرف متوجہ کیا۔ اس نے اقتدار سے ہٹائے جانے کے بعد ایک نجی ٹی وی چینل پر اس بات کا برملا اظہار کیا اسے احتساب کرنے کی بجائے طاقت ور حلقوں کارکردگی ٹھیک کرنے کو کہا لہذا اس کے ہاتھ باندھے ہوئے تھے وہ کرپشن میں ملوث سیاست دانوں کو انصاف کے کٹہرے میں لانے میں ناکام رہا۔ عمران خان کی بے بسی اور اس کی قانونی ٹیم کی نااہلی اس بات سے عیاں تھی وہ منی لانڈرنگ کیس میں شہباز شریف اور حمزہ شہباز کے خلاف فرد جرم لگوانے میں ناکام رہا۔ چیف جسٹس آف پاکستان کے احکامات کے باوجود وہ احتساب عدالتوں کی تعداد میں اضافہ نہیں کر سکا۔ سیاست دانوں نے ملک اور عوام کے ساتھ تماشا لگایا ہوا ہے ایک جماعت اقتدار میں آتی ہے دوسری جماعت کے رہنمائوں کے خلاف مقدمات قائم کرتی ہے جس کے بعد برسراقتدار جماعت کے دور میں ان کے خلاف مقدمات کا فیصلہ نہیں ہوتا۔ جن سیاسی رہنمائوں کے خلاف مقدمات ہوتے ہیں وہ اقتدار میں آتے ہیں اقتدار سے علیحدہ ہونے والے سیاست دانوں کے خلاف مقدمات درج کرتے ہیں گویا سیاست دانوں کا عوام کے ساتھ کھیل تماشا برسوں سے چلا آرہا ہے۔ عمران خان کو اقتدار سے ہٹائے جانے کے بعد پی ڈی ایم کا دور آیا تو نگران حکومت نے نیب قوانین میں ترامیم کرکے مبینہ کرپشن کے مقدمات سے ہمیشہ کے لئے جان بخشی کرا لی۔ عمران خان نے نیب ترامیم سے سب سے پہلے فائدہ اٹھایا اور مقدمہ ختم کرنے کی درخواست دی۔ حال ہی میں وزیراعظم شہباز شریف اور ان کے بیٹے حمزہ شہباز نے نیب ترامیم کا فائدہ اٹھاتے ہوئے مقدمہ احتساب عدالت سے دوسری عدالت میں منتقل کرنے کی درخواست دے دی۔ سیاست دانوں نے غریب عوام کو بیوقوف بنانے کا صحیح وتیرہ اپنایا ہوا ہے۔ رہی بات نواز شریف کا عمران خان کے کا ساتھ دینے والوں کو بھیٹر بکریاں قرار دینا حقیقت میں بھیٹر بکریاں تو وہ ہیں جنہوں نے آئینی ترامیم کا مسودہ پڑھے بغیر حکومت کا ساتھ دینے کی ٹھانی ورنہ انہیں عقل صمیم ہوتی وہ آئینی ترامیم کے مسودے کا بغور جائزہ لے کر حمایت کرتے۔ گزشتہ چار دہائیوں سے دو جماعتوں نے عوام کے ساتھ جو ناٹک رچایا ہوا ہے عوام اچھی طرح جان گئے ہیں۔ دراصل عمران خان نے سوئے ہوئے عوام کو باشعور کیا ورنہ پاکستان کے عوام آنکھیں بند کرکے پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون کو ووٹ دیتے تھے۔ مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی کے قائدین کے خلاف ہر دور میں مقدمات بنے جنہیں اقتدار میں آنے کے بعد انہیں ختم کرایا گیا جس کی وجہ عدلیہ کے ججوں کی تقرری سیاسی رہنمائوں کی مرضی سے ہوتی ہے ۔جب کبھی ججوں کی تقرری ہوتی ہے من پسند وکلاء سے جوڈیشل کمیشن جج منتخب کرتا ہے۔ جوڈیشل کمیشن میں صاحب اقتدار جماعت کے لوگ شامل ہوتے ہیں لہذا انہیں اپنی مرضی کے ججوں کی تقرری میں کسی قسم کی مشکل کا سامنا نہیں ہوتا۔ مرحوم جسٹس قیوم والی مثال سب کے سامنے ہے بے نظیر بھٹو کو سزا دینے کے لئے نواز شریف نے سفارش کی۔ جسٹس قیوم شریف خاندان سے تعلق نہ رکھنے والے ہوتے تو نواز شریف کسی جج کو فون پر کبھی سفارش نہیں کر سکتے تھے۔ لاہور ہائیکورٹ میں چیف جسٹس کی تقرری کے لئے پہلے سے موجود طریقہ کار کو پس پشت ڈالتے ہوئے جونیئر جج کی تقرری کی گئی۔ سپریم کورٹ نے 63اے کا فیصلہ دیا تو نظرثانی کی درخواست دائر کرا دی اب سپریم کورٹ نے لارجر بینچ نے اس فیصلے کو کالعدم قرار دے کر فلور کراسنگ کا راستہ کھول دیا ہے۔ آئین میں ترامیم کا معاملہ پہلے سے زیر غور ہے لاجرر بینچ کے حالیہ فیصلے کے بعد منحرف ارکان اسمبلی آئین میں ترامیم کے موقع پر ووٹ ڈال سکیں گے۔ اگرچہ عمران خان مسلم لیگ نون کے مقابلے میں عوام کی ان کی توقعات کے مطابق خدمت نہیں کر سکا تاہم اس کی مقبولیت کی بڑی وجہ اس کے خلاف منی لانڈرنگ کا کوئی مقدمہ ہے نہ ہی اس نے بیرون ملک بڑی بڑی جائیدادیں بنائیں اور سوئس بنکوں میں پیسے رکھے۔ عمران خان کو عوام کے جس طبقے کی زیادہ تر حمایت حاصل ہے ان کا تعلق مڈل کلاس سے ہے جن میں ڈاکٹرز، انجینئرز، بینکرز اور وکلا کے علاوہ نوجوان مرد اور خواتین شامل ہیں۔ کوئی مانے نہ مانے عمران خان کی وجہ شہرت اس کی راست بازی ہے۔ گو اس کی ساکھ کو خراب کرنے کے لئے القادر یونیورسٹی اور توشہ خانہ کے مقدمات قائم کئے گئے جن کا نہ قانونی نہ اخلاقی جواز ہے۔ حقیقت میں ملک کے عوام پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون سے عاجز آئے ہوئے ہیں، جس کا بین ثبوت ہونے والے انتخابات میں سامنے آچکا ہے۔ یہ علیحدہ بات ہے فارم 47کی بنیاد پر عوام کے مسترد کئے جانے والے سیاسی رہنمائوں کو ملک پر مسلط کیا گیا۔ وہ خواہ کچھ بھی کر لیں عوام انہیں آئندہ الیکشن میں بھی مسترد کریں گے۔ جہاں تک نواز شریف کی مقبولیت کی بات ہے ملک گیر دوروں کا کئی بار اعلان کرنے کے باوجود میاں صاحب کسی صوبے کا دورہ نہیں کر سکے البتہ عمران خان دوروں کی کال دے تو عوام امڈ آئیں گے۔ نواز شریف اور عمران خان میں یہی فرق ہے۔