فیصلہ کن لمحات

تحریر : محمد مبشر انوار (ریاض )
2018ء کے انتخابات میں شکست کھانے کے بعد اور مقدمات میں پیشیاں بھگتتے ہوئے، مریم نواز شریف نے اپنے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ ’’ وہ راستہ مجھے بھی آتا ہے اس میں جوتے صاف کرنے پڑتے ہیں ‘‘ جبکہ پس پردہ جوتوں کی صفائی کا کام شروع ہو چکا تھا۔ جبکہ خواجہ آصف نے اسمبلی میں کھڑے ہو کر2019ء میں ہی واضح طور پر کہہ دیا تھا کہ کب تحریک انصاف کی حکومت کے نیچے سے زمین کھسک جائے،انہیں اس کا علم بھی نہیں ہوگا۔بعد ازاں اپنے کئی ایک انٹرویوز میں خواجہ آصف نے اس بیان کی وضاحت کرتے ہوئے کہا تھا کہ کورونا کے باعث تحریک انصاف کی حکومت کو مہلت ملی تھی وگرنہ جنرل باجوہ 2019ء میں ہی حزب اختلاف کے ساتھ رابطے میں آ چکے تھے۔اس کی بنیادی وجہ بیان کرتے ہوئے خواجہ آصف نے عثمان بزدار کو گردانا تھا کہ جنرل باجوہ علیم خان کو وزیر اعلی بنوانا چاہتے تھے لیکن عمران خان نے ان کی بات یا خواہش تسلیم نہیں کی۔کسی بھی سیاست دان کے لئے سیاسی میراث بناناانتہائی مشکل کام ہے اور اس سے کہیں زیادہ مشکل اس میراث کو سنبھالنا ہے کہ اپنے سیاسی مؤقف اور عوامی خواہشات کے برعکس جانا کسی بھی حقیقی سیاسی رہنما کے لئے انتہائی مشکل کام ہوتا ہے لیکن اس حقیقت سے واقف سب سیاسی قائدین نہیں ہوتے۔ یہی وجہ ہے کہ میاں نوازشریف مقتدرہ کی بیساکھیوں پر اقتدار میں تو آئے لیکن بعد ازاں انہیں کسی حد تک عوامی پذیرائی بھی نصیب ہوئی گو کہ اس پذیرائی کے پس پردہ میاں نواز شریف نے کیا کیا کچھ نہیں کیا،اس سے دنیا واقف ہے۔مقتدرہ کی بیساکھی اپنی جگہ لیکن ریاستی مشینری کے تعاون کے بغیر انتخابی سیاست میں کامیابی ان کے لئے ممکن نہیں تھی۔پنجاب بالعموم اور شہر لاہور بالخصوص پیپلز پارٹی کا گڑھ تصور ہوتا تھا،جسے میاں نواز شریف نے بتدریج مختلف طریقوں سے اپنے قابو میں کیا کہ ایک طرف پیپلز پارٹی ،ایک قومی سیاسی جماعت کو پنجاب سے نکالنے کے لئے ہر طرح کی سہولت نوازشریف کو فراہم کی گئی تو دوسری طرف پیپلز پارٹی کے کارکنان پر جبر و ستم بھی روا رکھا،حرص و ہوس کی ترغیب بھی دلائی گئی،ووٹ کو جس طرح عزت دی گئی،ساری دنیا اس سے بخوبی واقف ہے۔بعد ازاں جو نفرت انگیز تقاریر بے نظیر بھٹو کے خلاف کی گئی،جو الفاظ استعمال کئے گئے،وہ سب تاریخ میں محفوظ ہیں جبکہ اداروں سے ملک قیوم جیسے منصفوں کی کمک بھی نواز شریف کو حاصل رہی اور مخالفین کے لئے نواز شریف کو یہ نسخہ تیر بہدف لگا کہ اپنے ہر سیاسی مخالف کے خلاف مقدمات کی بھرمار کر دو۔بدقسمتی سے نظام انصاف ایسا ہے کہ مخالف ان مقدمات میں الجھ کر رہ جاتا ہے جبکہ اس کی توانائی سیاسی میدان میں تقریبا نہ ہونے کے برابر رہ جاتی ہے جبکہ شریف خاندان کے لئے نظام کی سہولیات کی ایک اتنی سی جھلک کافی ہے کہ چار/چھ ہفتوں بغرض علاج بیرون ملک رہنے والے نواز شریف کے لئے تما م تر سہولیات ائیرپورٹ پر پہنچائی جاتی ہیں،ان کے بیٹوں کے لئے پاکستانی قانون/عدالتوں اس وقت غیر فعال رہتی ہیں جب تک ان سے بریت کا یقین نہ ہواور ان کے بیٹے تب تک پاکستانی شہریت سے ہی انکاری رہتے ہیں۔پاکستانی وسائل کی لوٹ مار کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ کوئی بھی عالمی سطح کی تحقیق کے نتیجہ میں سکینڈل منظر عام پر آئے،ممکن ہی نہیں کہ اس میں شریف خاندان اور زرداری خاندان کا نام شامل نہ ہو،جبکہ مقدمات کا سامنا ان کے مخالف عمران خان کو ہے کہ جس کا نام کسی بھی ایسے عالمی سکینڈل میں سامنے نہیں آیا۔مراد یہ ہے کہ عمران خان اپنے قول کے مطابق اپنا سب کچھ اس ملک کی نذر کر چکا ہے اور اس کے تمام تر وسائل اسی ملک میں موجود ہیں،توشہ خانہ یا القادر ٹرسٹ جیسے مقدمات اس کی شہرت کو گہنانے کی بجائے ،اس کو چارچاند لگانی کے کام آرہے ہیں کہ جیسے ہی شفاف عدالتی کارروائی ہوگی،عمران خان اس سے باعزت بری ہو گا،جو اسے عوام میں اور مقبول کر دے گا۔بہرکیف اس عوامی مقبولیت نے عمران خان کے مخالفین کی راتوں کی نیند حرام کر رکھی ہے اور نوازشریف اپنے ماضی میں جھانکتے ہوئے عوام سے شکوہ کناں ہے کہ جب نوازشریف کو اقتدار سے نکالا گیا تھا،تب عوام سڑکوں پر کیوں نہیں آئی تھی؟نوازشریف کا عوام سے یہ سوال تو جائز ہے کہ نواز شریف نے تو انتہائی طاقتور موقف ’’ ووٹ کو عزت دو‘‘ اپنا کر عوام کو سڑکوں پر نکلنے کے لئے کہا تھا لیکن ریاستی جبر نہ ہونے کے باوجود عوام نوازشریف کے لئے سڑکوں پر نہیں نکلی جبکہ عمران خان کے اقتدار سے الگ ہونے پر قوم ازخود سڑکوں پر نکل آئی اور عمران کو عوامی خواہشات کی تعمیل میں سڑکوں پر آنا پڑا۔ان حقائق سے آنکھیں کسی بھی طور نہیں چرائی جا سکتی لیکن شریف خاندان ہو یا زرداری خاندان،ان کے لئے یہ حقائق اہمیت نہیں رکھتے کہ ان کا سیاسی ریکارڈ اس امر کا گواہ ہے کہ انہوں نے کبھی بھی عوامی سیاست نہیں کی اور نہ انہیں عوامی مسائل سے آگہی ہے، ان کا اقتدار ہمیشہ سے ہی بیساکھیوں کا مرہون منت رہا ہے اور ان کی نظریں بھی ہمیشہ پاکستانی وسائل پر گڑی رہی ہیں۔عمران خان کا نام ایسے عالمی تحقیقاتی سکینڈلز میں نہ ملنا اور عوامی حقوق کی خاطر جیل کی سلاخوں میں ڈٹے رہنا،اس کو عوامی مسیحا بنا کر پیش کر رہا ہے اور عوام نے اپنی تمام امیدیں ،عمران خان سے وابستہ کر رکھی ہیں، اسے توڑنے کے لئے پس پردہ کیا کچھ ہو رہا ہے،اس کی تفصیلات وقتا فوقتا سامنے آتی رہتی ہیںلیکن وہ کسی بھی سمجھوتے کے لئے تیار دکھائی نہیں دیتا۔انتخابات سے قبل عمران خان کا سب سے بڑا مطالبہ یہی تھا کہ انتخابات کروائے جائیں لیکن انتخابات میں جس طرح دھاندلی کی گئی،ان پر کی گئی تحقیقات اس کو آشکار کر رہی ہیں۔ پتن نامی ادارے کی جانب سے اسلام آباد کی صرف تین نشستوں پر جو آڈٹ ہوا ہے،وہ ہوشربا ہے کہ کس طرح الیکشن کمیشن نے تحریک انصاف کے جیتے ہوئے امیدواروں کو شکست خوردہ قرار دیا ہے جبکہ حیرت اور افسوس اس امر پر ہے کہ جن کو کامیاب قرار دیا گیا ہے۔ وہ کس قدر بے شرمی اور ڈھٹائی کے ساتھ اس کامیابی پر نازاں دکھائی دیتے ہیں۔ بہرکیف اسلام آباد کے انتخابی ٹربیونل کی سربراہی جسٹس طارق محمود جہانگیری کر رہے ہیں اور انہوں نے اس مقدمہ کی سماعت کرتے ہوئے فریقین سے اصل فارم 45اور فارم 47طلب کئے ہیں،گو کہ معاملہ تحریک انصاف کے حمایت یافتہ امیدواران اور مسلم لیگ ن کے کامیاب امیدواران کے درمیان ہے تاہم دیگر امیدواران کو بھی اصل فارم کے ساتھ عدالت میں طلب کیا گیا ہے۔ شواہد اور شنید یہی ہے کہ تحریک انصاف اور دیگر امیدواران کے فارم ایک جیسے جبکہ الیکشن کمیشن اور مسلم لیگ ن کے فارم ایک جیسے ہیں تاہم موخرالذکر کے فارم 45پر جعلسازی کی گئی ہے یا اگر اسے فارم 47کے مطابق بنا بھی دیا گیا ہے تو دوسرے فارم سے مطابقت نہ رکھنے کی وجہ سے،قوی امید ہے کہ الیکشن کمیشن اور مسلم لیگ ن کے امیدواران کو منہ کی کھانی پڑے گی بشرطیکہ عدلیہ دباؤ سے نک آئی ۔عدلیہ کے دباؤ سے نکلنے کی قوی امید اس لئے ہے کہ محترم جسٹس طارق محمود جہانگیری ان چھ ججز میں شامل ہیں،جنہوں نے سپریم جو ڈیشل کونسل کو خط لکھا تھا اور اس دباؤ کا سامنا بھی وہ پہلے ہی کر چکے ہیںلہذا قوی تر امید یہی ہے کہ وہ قانون کے مطابق ،حقائق و شواہد کی روشنی میں فیصلہ کریں گے۔ اس صورت میں پہلے ہی راؤنڈ میں بظاہر یہ دکھائی دے رہا ہے کہ تحریک انصاف کی اسلام آباد کی تین نشستیں ،اسے واپس مل جائیں گی،جس کا نقصان واضح طور پر مسلم لیگ ن کو نہ صرف پارلیمان میں عددی طور پر ہو گا بلکہ اس کی ساکھ ،جو پہلے ہی نہ ہونے کے برابر رہ چکی ہے،مزید متاثر ہو گی۔ یوں بتدریج تحریک انصاف اپنے دعوے کے مطابق کہ وہ عام انتخابات میں 180نشستوں پر کامیاب ہوئی تھی،قدم بقدم بڑھتی ہوئی دکھائی دے گی،علاوہ ازیں یہ بھی دکھائی دے رہا ہے کہ مخصوص نشستوں کے معاملہ پر جو ناانصافی الیکشن کمیشن نے کی تھی،اس کا ازالہ بھی سپریم کورٹ سے ہو جائیگا۔ اسلام آباد کی تین نشستوں کے بعد،اگلی منزل یقینی طور پر پنجاب اور کراچی ہو گی کہ پنجاب میں بھی عوامی مینڈیٹ پر ڈاکہ ڈالا گیا ہے اور اسی طرح کراچی میں ایم کیو ایم کو بھی اپنی نشستوں کے متعلق بخوبی علم ہے کہ انہیں خصوصی طور پر’’ نوازا ‘‘ گیا ہے۔اس پس منظر میں جب حکومت اور اس کی بیساکھیاں مسلسل دیوار کے ساتھ لگتی دکھائی دے رہی ہے،حکومت اور پشت پناہوں کی جانب سے گرینڈ ڈائیلاگ کی دعوت دراصل ’’ سٹیٹس کو‘‘ کو بچانے کی شعوری کوشش ہے کہ اس نظام کے پروردہ لوگوں کو یہی نظام موافق ہے وگرنہ عوامی سطح پر ان کی پذیرائی ختم ہو چکی ہے۔ عمران خان یا تحریک انصاف کیونکر اس گرینڈ ڈائیلاگ کا حصہ بنے گی؟عمران خان کی ساری جدوجہد ہی اس سٹیٹ کو کے خلاف رہی ہے اور وہ پاکستان کو اس نظام سے چھٹکارا دلانا چاہتا ہے،عوام کو اس کی نیت پر شک نہیں،عوام کا اس پر اعتماد غیر متزلزل ہے، ایسے فیصلہ کن لمحات میں ،عمران خان جیسی شخصیت سے گرینڈ ڈائیلاگ کی آڑ میں ’’ سٹیٹس کو‘‘ کو تقویت دینے والے ’’ سمجھوتے ‘‘ کی توقع کرنا عبث ہے۔