دنیا

ایران جوہری ہتھیار رکھنے کے کتنے قریب ہے؟

ایران کا عالمی طاقتوں کے ساتھ ہونے والا جوہری معاہدہ 2015 ختم ہو چکا ہے۔ اس کے بعد ایران کے جوہری پروگرام میں تیزی آئی ہے۔ نیز جوہری بم بنانے کے لیے درکار وقت میں بھی کمی آئی ہے۔ یہ اس کے باوجود ہے کہ ایران جوہری بم بنانے سے انکاری ہے۔

ایرانی پاسداران انقلاب کور کے سینیئر کمانڈر نے جمعرات کے روز کہا ہے کہ ‘ایران اسرائیلی دھمکیوں کے بعد اپنے جوہری پروگرام پر نظر ثانی کر سکتا ہے۔’

ڈیل کا خاتمہ

2015 میں ہونے والے معاہدے کے تحت تہران پر موجود بین الاقوامی پابندیاں ہٹانے کے بدلے میں ایران پر جوہری پابندیاں لگائی گئیں تھیں۔ ایران پر لگنے والی پابندیاں سخت ترین پابندیاں تھیں۔

معاہدے کی وجہ سے ایران کے افزودہ یورینیم کے ذخیرہ کو کم کیا گیا اور صرف 3.67 فیصد تک افزودہ یورینیم کو چھوڑا گیا۔

امریکہ نے اس موقع پر کہا تھا کہ ایران کو جوہری بم کی تیاری کے لیے کافی مواد تیار کرنے کی ضرورت ہوگی۔ جو جوہری ہتھیاروں سے متعلق پروگرام میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔

2018 میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکہ کو اس معاہدے سے باہر نکالا۔ نیز تہران پر نئے سرے سے پابندیاں عائد کر دیں۔ تہران پر لگنے والی پابندیوں کی وجہ سے تیل کی فروخت میں کمی واقع ہوئی اور تہران کی معیشت کو نقصان کا سامنا کرنا پڑا۔ دوسری جانب ایران نے 2019 میں پابندیوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے جوہری سرگرمیوں کو تیز کر دیا۔

معاہدے کے تحت ایران کو یورینیم کی افزودگی اور مشینوں سے متعلق پابندیوں کا سامنا تھا۔ ایران نے پابندیوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے مشینوں ، یورینیم افزودگی اور ذخیرہ سے متعلق سرگرمیوں کو تیز کر دیا۔

2015 میں معاہدے کے موقع پر یورینیم افزودگی کا ذخیرہ 202.8 کلوگرام تک محدود تھا۔ اقوام متحدہ کے جوہری ادراے کی سہ ماہی بنیادوں پر جاری ہونے والی رپورٹ کے مطابق ماہ فروری میں یورینیئم افزودگی کا ذخیرہ 5.5 ٹن تھا۔

انٹرنیشنل اٹامک انرجی کے مطابق ایران 60 فیصد یورینیئم افزودگی کر رہا ہے۔ خیال کیا جا رہا ہے کہ ایران جوہری ہتھیاروں کی تیاری کے بالکل قریب پہنچ چکا ہے اور جوہری بموں کی تیاری اب محض ہفتوں اور دنوں کی دوری پر پہنچ گئی ہے۔

ہتھیار سازی

یورینیم کی افزودگی کے علاوہ یہ سوال بھی سامنے آرہا ہے کہ دیگر جوہری ہتھیار بنانے میں ایران کو کتنا وقت لگے گا۔ نیز کیا اسے اتنا چھوٹا کیا جائے گا کہ وہ بیلسٹک میزائل جیسے ڈیلیوری سسٹم میں ڈل سکے۔ اس بات کا اندازہ لگانا بہت مشکل ہے کیونکہ یہ واضح نہیں ہے کہ ایران کو اس کا کتنا علم ہے۔

امریکی انٹیلیجنس ایجنسیوں کا خیال ہے کہ ایران کے پاس جوہری ہتھیاروں سے متعلق مربوط پروگرام موجود تھا۔ لیکن اس پروگرام کو 2003 میں روک دیا گیا تھا۔ علاوہ ازیں 2009 تک بھی جوہری ہتھیار بنانے کے لیے کام ہوتا رہا۔

مارچ 2023 میں جنرل مارک ملی نے امریکی کانگریس کو کہا تھا کہ ایران کو ہتھیار بنانے میں کئی ماہ لگیں گے۔ اس موقع پر یہ نہیں بتایا گیا تھا کہ جنرل مارک ملی کس بنیاد پر یہ بات کہہ رہے ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button