Column

کچھ منیر نیازی کے بارے میں

رفیع صحرائی
بڑا شاعر وہی ہوتا ہے جس کی شاعری اس کا تعارف بن جائے، قاری اس کا کوئی بھی شعر پڑھے تو لہجے سے پہچان جائے کہ اس شعر کا خالق کون ہے۔
مدت کے بعد آج اسے دیکھ کر منیر
اک بار دل تو دھڑکا مگر پھر سنبھل گیا
اردو شاعری کے ماہِ منیر اور جدید پنجابی شاعری کے امام منیر نیازی اس تعریف پر سو فیصد پورا اترتے ہیں۔ بلکہ دوسرے شعراء کی نسبت زیادہ پورا اترتے ہیں کہ ان کا لہجہ سب سے انوکھا اور سب سے الگ ہے۔ وہ اپنے لہجے کے خود ہی خالق اور خود ہی خاتم ہیں۔ ان کے لہجے کی نقالی کرنا بہت مشکل ہے۔ طارق عزیز نے ’’ ہمزاد دا دکھ‘‘ کی شاعری میں منیر نیازی کا لہجہ اپنانے کی بھرپور کوشش کی ہے مگر چونکہ یہ ایک شعوری اور منصوبہ بندی کے تحت کی گئی کوشش ہے اس لیے اس میں وہ بے ساختہ پن پیدا نہ ہو سکا جو منیر نیازی کی شاعری کا خاصا ہے۔
منیر نیازی 9اپریل 1923ء کو مشرقی پنجاب کے شہر ہوشیار پور میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے اردو کے 13اور پنجابی کے 3شعری مجموعے یادگار چھوڑے جن میں اس بے وفا کا شہر، تیز ہوا اور تنہا پھول، جنگل میں دھنک، دشمنوں کے درمیان شام، سفید دن کی ہوا، آغاز زمستاں میں دوبارہ، سیاہ شب کا سمندر، ماہِ منیر، چھ رنگین دروازے، ساعت سیار، پہلی بات ہی آخری تھی، ایک دعا جو میں بھول گیا تھا، محبت اب نہیں ہوگی اور ایک تسلسل کے نام شامل ہیں جبکہ ان کی پنجابی شاعری کے مجموعے چار چپ چیزاں، رستہ دسن والے تارے اور سفردی رات کے نام سے اشاعت پذیر ہوئے۔ دو انگریزی شاعری کے مجموعے بھی ان کے کریڈٹ پر ہیں۔
منیر نیازی کے والد محمد فتح خان محکمہ انہار میں ملازم تھے لیکن خاندان کے باقی لوگ فوج یا ٹرانسپورٹ کے شعبہ سے وابستہ تھے۔ منیر ایک سال کے تھے جب ان کے والد کا انتقال ہو گیا۔ ان کی پرورش ماں اور چچاں نے کی۔ ان کی والدہ کو کتابیں پڑھنے کا شوق تھا اور ان ہی سے ادبی مذاق منیر نیازی میں منتقل ہوا۔ لڑکپن سے ہی منیر کو جب بھی کوئی چیز حیران کرتی تھی وہ اسے شعری واردات میں تبدیل کرنے کی کوشش کرتے تھے۔ شروع میں انہوں نے نظم اور غزل کے علاوہ کچھ افسانے بھی لکھے تھے جنہیں بعد میں مسترد کر دیا۔ منیر نے ابتدائی تعلیم منٹگمری ( موجودہ ساہیوال) میں حاصل کی اور یہیں سے میٹرک کا امتحان پاس کر کے نیوی میں بطور سیلر ملازم ہو گئے۔ لیکن یہاں کا ڈسپلن ان کے مزاج کے خلاف تھا۔ ملازمت کے دنوں میں بمبئی کے ساحلوں پر اکیلے بیٹھ کر ’’ ادبی دنیا‘‘ میں شائع ہونے والے سعادت حسن منٹو کے افسانے اور میرا جی کی نظمیں پڑھتے تھے۔ ان ہی دنوں میں ان کا ادبی شوق پروان چڑھا اور انھوں نے نیوی کی ملازمت سے استعفیٰ دے دیا۔ پھر اپنی تعلیم مکمل کی اور ساتھ ہی لکھنے لکھانے کا باقاعدہ سلسلہ شروع کیا۔ انہوں نے لاہور کے دیال سنگھ کالج سے بی۔ اے کیا۔ اس زمانہ میں کچھ انگریزی نظمیں بھی لکھیں۔ تعلیم مکمل ہونے کے بعد ہی ملک کا بٹوارہ ہوگیا۔ ان کا سارا خاندان پاکستان چلا آیا۔ یہاں انہوں نے ساہیوال میں ایک اشاعتی ادارہ قائم کیا جس میں خسارہ ہوا۔ چھوٹے موٹے ناکام کاروبار کرنے کے بعد منیر نیازی لاہور چلے گئے۔ جہاں مجید امجد کے اشتراک سے انہوں نے ایک پرچہ ’’ سات رنگ‘‘ جاری کیا۔ انہوں نے مختلف اخباروں اور ریڈیو کے لئے بھی کام کیا۔ 1960ء کی دہائی میں منیر نے فلموں کے لئے گانے لکھے جو بہت مشہور ہوئے۔ ان میں 1962ء کی فلم ’’ شہید‘‘ کے لئے نسیم بیگم کا گایا ہوا گانا’’ اُس بیوفا کا شہر ہے اور ہم ہیں دوستو‘‘، اسی سال فلم ’’ سسرال‘‘ کے لئے مہدی حسن کی آواز میں ’’ جس نے مرے دل کو درد دیا اس شخص کو میں نے بھلایا نہیں‘‘ اور اسی فلم میں نور جہاں کی آواز میں ’’ جا اپنی حسرتوں پر آنسو بہا کے سو جا‘‘ بیحد مقبول ہوئے۔ 1976ء کی فلم ’’ خریدار‘‘ کے لئے ناہید اختر کی آواز میں ان کا گیت ’’ زندہ رہیں تو کیا ہے جو مر جائیں ہم تو کیا‘‘ بھی بہت مقبول ہوا۔ لیکن بعد میں وہ پوری طرح اپنی ادبی شاعری میں غرق ہو گئے۔
اپنی خوب صورت شاعری کی بدولت لوگوں کے دلوں میں مستقل بسیرا کرنے والے منیر نیازی ایک بڑے شاعر ہی نہیں بلکہ ان کی شاعری پورا سکول آف تھاٹ ہے جہاں ہیولے، پرچھائیں، دیواریں، موسم، ہوا کی سرسراہٹیں، کھلے دریچے، بند دروازے، اداس گلیاں، گلیوں میں منتظر نگاہیں، گھپ اندھیری رات، چھلیڈے، ابدی جدائی، بیتے سمے کی یادیں اور مناظر، اتنا کچھ ان کی شاعری میں بولتا، گونجتا اور احساسات پر حاوی ہو جاتا ہے کہ قاری طلسمِ ہوش ربا کی سحرناکی میں گم ہو جاتا ہے۔ ان کی شاعری وہ جادو ہے جو نہ صرف سر چڑھ کر بول رہا ہے بلکہ اس کے اثر سے بھی کوئی نہیں بچ پایا۔ ان کی شاعری پڑھنے والے کو حیرت کی وادیوں میں لے جاتی ہے اور وہ خواہش کرتا ہے کہ اس جہانِ حیرت ہی میں گم رہے۔
ایک اور دریا کا سامنا تھا منیر مجھ کو
میں ایک دریا کے پار اترا تو میں نے دیکھا
دیکھا جائے تو بیسویں صدی کا آخری نصف منیر نیازی کا عہد ہے جس میں وہ اردو اور پنجابی نظم و غزل، گیت نگاری، فلمی و غیر فلمی شاعری اور ادب کے افق پر ایسا روشن خورشید بن کر چمکتے نظر آتے ہیں جس نے خیرہ کر دینے والی تابانی سے بڑے بڑے لکھاریوں کی آنکھیں چندھیا دی ہیں۔ وہ نام کے ہی نہیں فن کے بھی منیر تھے۔
جانتا ہوں ایک ایسے شخص کو میں بھی منیر
غم سے پتھر ہو گیا لیکن کبھی رویا نہیں
انہوں نے اپنی اردو اور پنجابی شاعری کے ذریعے تین نسلوں پر پائیدار نقوش مرتب کیے اور ان کے اذہان کو اپنی شاعری کے ذریعے اس طرح جکڑا کہ اپنے عہد کے لیجنڈ بن گئے۔ ان کی شاعری کسی کلاسیکی روایت یا دبستان کے زیرِ اثر نہیں ہے۔ بلکہ وہ نوکلاسیک کے موجد ہیں، ان کا اپنا ادبی دبستان ہے۔ ان کی شاعری ہمہ گیر بھی ہے اور ہمہ جہت بھی، پڑھنے والا اپنی مرضی، خواہش اور ضرورت کے مطابق سمتیں تلاش کر لیتا ہے۔ وہ کھوئی ہوئی جنت اور زیست کے زندہ جہنم کو وحدت کی اکائی میں پرونے کے صنّاع ہیں
تھکے لوگوں کو مجبوری میں چلتے دیکھ لیتا ہوں
میں بس کی کھڑکیوں سے یہ تماشے دیکھ لیتا ہوں
منیر اپنی جاذب شکل و صورت کے طفیل خواتین میں بہت پسند کئے جاتے تھے۔ انہوں نے خود اعتراف کیا کہ ان کو کم و بیش چالیس بار عارضہ عشق لاحق ہوا۔ ایک انٹرویو میں انہوں نے کہا تھا ’’ یہ لیلیٰ مجنوں کا زمانہ تو ہے نہیں کہ چلمن کی اوٹ سے محبوب کا رخ روشن دیکھ کر ساری عمر گنوا دی جائے۔ اب تو قدم قدم پر ہماری ہمدم و ہمراز عورت ہے پھر بھلا ایک کے پلّو سے بندھ کر کس طرح زندگی گزاری جا سکتی ہے‘‘۔ بہرحال 1958ء میں انہوں نے بیگم ناہید سے شادی کر لی۔
منیر نیازی کے یہاں بے پناہ انانیت تھی وہ کسی شاعر کو خاطر میں نہیں لاتے تھے۔ قدیم شعراء میں بس میر، غالب اور سراج اورنگ آبادی ان کو پسند تھے۔ اپنے عہد کے شاعروں کو زیادہ سے زیادہ وہ ٹھیک ٹھاک یا بعض کو اچھا کہہ دیتے تھے بڑا شاعر ان کی نظر میں کوئی نہیں تھا۔ کشور ناہید کو وہ اچھی شاعرہ اور پروین شاکر کو دوسرے درجہ کی شاعرہ کہتے تھے۔

منیر نیازی ان شاعروں میں ہیں جن پر دو مختلف زبانوں، اردو اور پنجابی کے ادب نواز اپنا بڑا شاعر ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ منیر نیازی نے شاعری کی اصناف، غزل اور نظم، میں بھی اپنی شاعری کے معیار کو یکساں طور پر بلند رکھا ہے۔ انہوں نے گیت اور کچھ نثری نظمیں بھی لکھیں۔
ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں، ہر کام کرنے میں
ضروری بات کرنی ہو کوئی وعدہ نبھانا ہو
اسے آواز دینی ہو اسے واپس بلانا ہو
ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں
آخری عمر میں ان کو سانس کی بیماری ہو گئی تھی اور اسی بیماری میں 26دسمبر 2006ء کو ان کا انتقال ہو گیا۔
منیر نیازی کی خدمات کے اعتراف کے طور پر حکومت پاکستان نے انہیں صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی اور ستارہ امتیاز جبکہ اکادمی ادبیات پاکستان نے کمالِ فن ایوارڈ سے نوازا تھا۔وہ لاہور میں قبرستان ماڈل ٹائون کے بلاک میں آسودہ خاک ہیں۔
کُج اُنج وی راہواں اوکھیاں سن
کُج گل وچ غم دا طوق وی سی
کُج شہر دے لوک وی ظالم سن
کُج مینوں مرن دا شوق وی سی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button