لیڈروں کی بے حسی اور پارٹی ورکروں کی موت
روہیل اکبر
کسی بھی سیاسی پارٹی میں جب تک ورکر نہ ہوں تب تک لیڈر پیدا نہیں ہوتا ورکر ہی انہیں زمین سے اٹھا کر آسمان تک لے جاتا ہے ان کی خاطر لڑائی کرتا ہے بغیر کسی لالچ اور فیس کے وہ انکا ہر جگہ وکیل بنا پھرتا ہے اور تو اور ایک ورکر ہی ہوتا ہے جو جو اپنے لیڈروں کی خاطر جیلوں میں جاتے ہیں اور خودسوزیاں تک کر جاتے ہیں لیڈر حضرات بھی اپنے ورکروں کی چائے اور بریانی سے تواضع کرتے رہتے ہیں لیکن ورکر تو اس انتظار میں ہوتا ہے کہ جب انکی جماعت اقتدار میں آئے تو پھر انہیں بھی سکون کی زندگی کے کچھ پل میسر آسکیں ہمارے ہاں سیاسی جماعتیں اپنے ورکروں کو خوب استعمال کرتی ہیں انہیں مستقبل کے سنہری خواب دکھانے کے ساتھ ساتھ اپنے ساتھ اقتدار میں بھی شامل کرنے کے سہانے خواب دکھاتے ہیں لیکن جیسے ہی اقتدار ملتا ہے پھر وہ واپس پلٹ کر اپنے ورکروں کی شکل تک نہیں دیکھتے پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم اپنے ورکروں کو کسی نہ کسی حد تک یاد رکھتی ہے لیکن مسلم لیگ ن اقتدار میں آنے کے بعد ورکروں سے دوری اختیار کر لیتی ہے آج مسلم لیگ ن مرکز اور پنجاب میں اقتدار پر ہے لیکن انکے ورکر شدید پریشانی اور مایوسی کا شکار ہیں ن لیگ کے ٹاپ کے ورکروں کی گفتگو آپ سب کے سامنے رکھ رہا ہوں اسکے بعد عام چھوٹے چھوٹے ورکروں کی تکلیف کا اندازہ پڑھنے والے خود لگالیں سب سے پہلے پارٹی کے پرانے ورکر توصیف شاہ کا پیغام ہے کہ مسلم نون کے ایک پرانا ساتھی اور میاں نواز شریف کا وفادار سپاہی چودھری عتیق جس نے تحریک نجات مشرف کی آمریت اور عمران نیازی کے دور میں فرنٹ لائن پہ کام کیا نے گزشتہ روز حالات سے تنگ آ کر خودکشی کر لی اسکی تنگی کی وجہ بھی یہی تھی کہ اس نے سارا وقت ہی پارٹی کے لیے وقف کر رکھا تھا کوئی ایسی جگہ نہیں جہاں پہ وہ نہ پہنچتا ہو کاروبار اس کا وہ تباہ ہو گیا گھر میں کھانے کیلئے دو وقت کی روٹی کے پیسے نہیں تھے اسی پریشانی میں اسکی بیوی بھی اسے چھوڑ کر چلی گئی حالات سے تنگ آکر اس نے خود کشی کرلی جنکی خاطر اس پارٹی ورکر نے اپنا سب کچھ قربان کر دیا اس کے جنازے میں لاہور کے 30 ایم پی ایز اور 14ایم این ایز میں سے صرف خواجہ عمران نذیر نے شرکت کی یہ وہی چودھری عتیق تھا میاں خاندان کی گرفتاریوں پر سراپا احتجاج رہا اور ہر پیشی پر سب سے آگے آگے ہوتا تھا اور کارکنوں کو حوصلہ دیتا تھا لیکن جیسے ہی پارٹی اقتدار میں آئی تو ہماری فرنٹ لائن کا سپاہی خود کشی کر گیا اور جاتے جاتے پیغام دے گیا کہ کارکن ہمیشہ کارکن ہی رہتا ہے اور لیڈروں کے حکومت میں آتے ہی خود کشی کر جاتا ہے اس لیے میری تمام قائدین سے گزارش ہے کہ برائے مہربانی ایسے چند لوگ ہیں ان کو بلا کر ان کے روزگار کا کوئی بندوبست کر دیں کوئی اس میں میرٹ نہیں جائے گا اگر ہم ان کو کوئی روزگار مہیا کر دیں گے تو وہ آپ کو دعائیں ہی دیں گے انہوں نے ساری زندگی پارٹی کو دی ہے ایسے کارکنوں کو بلا کر خود شہباز شریف اور مریم نواز اپنے ہاتھوں سے روزگار فراہم کریں۔ ان کے بعد کلچرل ونگ پنجاب کی صدر مسز ملک نے بھی اپنے دل پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا ہے میں نے 20سال پارٹی کے لیے قربانی دی ہے اب بھی پنجاب کے اضلاع میں پارٹی کا کام ہورہا ہے میرے بچوں نے قربانی دی ہے میرے بیٹے نے تین سال پرائم منسٹر ہاس میں کام کیا جہاں سے ہم نے ٹرانسپورٹ لی نہ رہائش لی اس وقت میں شدید بیمار ہوں میری تین سرجریاں ہوچکی ہیں ابھی بھی بیڈ ریسٹ پہ ہوں میری پارٹی کے کسی قائد، رہنما اور لیڈر نے ہسپتال تو کیا گھر آکر بھی میں میری عیادت نہیں کی اور نہ ہی میرا حال پوچھا یہ صرف میرے ساتھ ہی نہیں بلکہ ہر ورکر کے ساتھ یہی ہورہا ہے جس سے عام پارٹی ورکر بدل ہورہا ہے میاں محمد نواز شریف جس سے میں عشق کی حد تک پیار کرتی ہوں اللہ ان کو سلامتی دے، میاں شہباز شریف، میاں حمزہ شہباز شریف اور باجی مریم کو حالات اور مصائب کا پتہ ہے لیکن اس کے باوجود ورکروں کا استحصال ہورہا ہے جبکہ چودھری عتیق کی موت کا مجھے بے حد صدمہ اور بہت دکھ ہوا ہے اس کے پاس گاڑیاں تھیں اس کے پاس بزنس تھا اس کے پاس کاروبار تھا جو اس نے سب میری طرح پارٹی پر لگا دیا میاں صاحب جب بھی تاریخ پر آتے تو وہ اپنی گاڑی میاں صاحب کی گاڑی کے ساتھ ہی رکھتا تھا اور پھر ایک وقت آیا کہ وہ پارٹی کی لاپراوہی کا ایسا شکار ہوا کہ روٹی کو ترس گیا ن لیگ کے اس دور میں تو ورکر کے ساتھ بہت برا ہورہا ہے توصیف شاہ نے ورکروں کے حق میں آواز اٹھائی ہے تو ہم سب اس کی بھر پور حمایت کرتے ہیں کچھ اسی طرح کی آواز ساہیوال سے ایک پرانے پارٹی ورکر چودھری علیم ظہور کی بھی آئی ہے جن کا کہنا ہے کہ واقعی اس دور میں پارٹی ورکر کے ساتھ بہت برا ہو رہا ہے اس لیے محترمہ مریم نواز سے گزارش ہے کہ ایسے ورکرز جو ہر مشکل دور میں میاں نوازشریف کے ساتھ کھڑے رہے جو ہر گلی، چوک اور چوراہے میں میاں نواز کی جنگ لڑتے رہے ان کو ترقیاتی فنڈز میں حصہ دیا جائے اس لیے کہ وہ عوام کے ساتھ مسلسل رابطے میں رہتے ہیں اور انکو جواب دہ ہیں ہم اپنے لیے نہیں مانگتے پارٹی کے ووٹرز کیلے کوشش کرتے ہیں افسوس سے کہنا پڑتا ہےMPAاور MNAپارٹی ورکرز کی بجائے اپنے چمچوں کو نوازتے ہیں قیادت کی خاموشی اس بات کا یقین دلاتی ہے کہ انہیں ورکرز کی بجائے فصلی بٹیرے چاہیں براہ مہربانی نظریاتی ورکر جو پچھلی صفوں میں کھڑا ہے اسے جاننے کی کوشش کریں۔ میں نے اوپر پیپلز پارٹی کا ذکر کیا تھا کہ وہ اپنے ورکروں کے حق میں بہتر ہے لیکن اتنی بھی بہتر نہیں ہے کہ وہ قربانیاں دینے والوں کو یاد رکھ سکیں اب پیپلز پارٹی میں بھی قربانیاں دینے والے بہت پیچھے رہ گئے جبکہ پیسے والے مفاد پرست آگے نکل گئے نہیں یقین تو شاہدہ جبین کو دیکھ لیں جس کی پیپلز پارٹی کی خاطر قربانیاں اتنی زیادہ ہیں کہ لاہور کی گلیاں اور محلے بھی گواہی دیتے ہیں اس کی پارٹی کی خاطر محنت کی جبکہ اس سے بڑھ کر اور کیا قربانی ہوسکتی ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو کی غیر قانونی اور ناجائز پھانسی پر اس کے بھائی نے بطور احتجاج خود سوزی کرلی تھی یہ قربانیاں ناقابل یقین اور ناقابل فراموش ہیں جنہیں رائیگاں نہیں جانا چاہیے ایسے مخلص ورکروں کو ایوانوں میں ہونا چاہیے جو عوام کے دکھ درد میں شریک ہوتے ہیں ایسے لوگ ہی پارٹی کو چہرہ ہوتے ہیں جسے آج کے لیڈروں نے دھندلا دیا ہے اگر یہ لوگ چلے گئے تو پھر آنے والے دور میں پارٹی ورکر کم فصلی بٹیرے زیادہ نظر آئیں گے جو مفادات میں تو سب سے آگے ہونگے لیکن مشکل میں کسی اور کے ساتھ کھڑے ہوکر آنکھ تک نہیں ملائیں گے۔