سپیشل رپورٹ

بچوں کو روزہ رکھوانے کا کیا حکم ہے؟

علامہ ابن عابدین شامی لکھتے ہیں: ترجمہ: ’بعض فقہاء نے بچے کے روزہ رکھنے کے قابل ہونے کی عمر سات سال بتائی ہے، (وہ لکھتے ہیں) ہمار ے زمانے کا مشاہدہ یہ ہے کہ اتنی عمر میں بچہ روزہ رکھنے کے قابل نہیں ہوتا اور اس کا مدار ہر ایک کی جسمانی صلاحیت، صحت اور موسم (گرما یا سرما) پر ہے اور ظاہر یہ ہے کہ جتنے دن آسانی سے وہ روزہ رکھ سکے اسے کہا جائے، پورے مہینے کے روزے رکھوانا ضروری نہیں ہے، (مزید لکھتے ہیں) اگر نابالغ بچہ روزہ رکھنے کے بعد بغیر عذر کے توڑ دے تو اس پرقضا نہیں ہے۔‘

(ردالمحتار علیٰ الدرالمختار ،جلد3،ص:344)

علامہ غلام رسول سعیدی لکھتے ہیں : ’جمہور علماء کا موقف یہ ہے کہ جن بچوں کی عمر بلوغت سے کم ہو اُن پر روزہ رکھنا واجب نہیں ہے، متقدمین کی ایک جماعت نے مستحب قرار دیا ہے۔

ابن سیرین اور زہری کا بھی یہی قول ہے اور یہی امام شافعی کا قول ہے، اُنہوں نے کہا کہ جب بچے روزے رکھ سکیں تو انہیں مشق کرانے کے لیے ان سے روزے رکھوانے چاہئیں۔

امام شافعی کے اصحاب کے نزدیک اس کی حد نماز کی طرح سات سال اور دس سال ہے اور اسحاق کے نزدیک اس کی حد بارہ سال ہے اور امام احمدؒ کے نزدیک ایک روایت میں اس کی حد دس سال ہے اور امام مالکؒ کا مشہور قول یہ ہے کہ بچوں کے حق میں روزہ مشروع نہیں ہے۔

علامہ ابن بطال نے کہا ہے کہ علماء کا اس پر اجماع ہے کہ عبادات اور فرائض صرف بلوغ کے وقت لازم ہوتے ہیں مگر اکثر علماء نے برکت کے لیے بچوں کو عبادات کی مشق کرانا مستحسن قرار دیا ہے تاکہ بچے عبادات کے عادی ہوجائیں اور جب ان پر عبادت لازم ہو تو ان کے لیے عبادت کرنا آسان ہو اور جو اُن کو عبادت کی مشق کرائے گا اسے اجر ملے گا۔

(عمدۃ القاری، جلد11،ص: 98بیروت۔نعمۃ الباری ،جلد4،ص:473)

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button