Column

وفاقی پبلک سروس کمیشن اور امیدواروں کے مسائل

سید عارف نوناری

ریاست اور انتظامی امور لازم و ملزوم ہیں اور حکومت اس کا ستون ہے عوام کی حکومت کے انتظامی امور سے نظام اور ادارے چلتے ہیں جس سے ریاست آگے جاتی ہے اور مربوط ریاستی ڈھانچہ سامنے آتا ہے پاکستان میں بے روزگاری غربت اور افلاس نے ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں طلبا یونیورسٹیوں سے ڈگریاں لیکر مارے مارے پھرتے ہیں اور پروفیشنل ڈگریوں کا بھی اب برا حال ہے ریاستی امور اور ادارے چلانے کے لیے ملازمین اور افسر شاہی ملک کو ترقی اور خوشحالی کے ساتھ حکومتی پالیسیوں اور منصوبوں پر عملدرآمد کراتے ہیں ان ملازمین کا انتخاب وفاقی پبلک سروس کمیشن اور صوبائی پبلک سروس کمیشن محکموں کی ریکوزیشن پر میرٹ اور قابلیت کی بنیاد پر کرتا ہے جس سے ملک کو با صلاحیت اور اعلیٰ ذہنی مالک کے افراد میسر آتے ہیں اور حکومتی امور موثر طریقہ سے چلتے ہیں لیکن دیکھنے میں آیا ہے کہ وفاقی پبلک سروس کمیشن سے امیدواروں کو بہت سی شکایات ہیں پولیس اور ایکسائز کی متعدد آسامیوں کو اعتراضات لگا کر واپس محکموں کو بھجوایا گیا ہے اور ان اسامیوں پر بھرتی کا عمل صوبائی پبلک سروس کمیشن پنجاب میں تعطل میں رکھا ہوا ہے جس سے ہزاروں بے روزگار نوجوانوں میں مایوسی پھیلی ہوئی ہے اور امیدوار پریشان ہے، وفاق میں بھی کچھ صورت حال اسی قسم کی ہے اور ریکروٹمنٹ کے پراسس میں تین سے چار سال لگا دئیے جاتے ہیں جس سے پاکستان کی کریم یوتھ بیرون ممالک کا رخ کرنے پر مجبور ہے حکومت کو صوبائی اور وفاقی ریکروٹمنٹ کے اداروں کی خامیوں کو دور کرنا چاہیے اور اصلاحات کے عمل کو بھی ان کمیشن کو فعال کرنے کے لئے تیز کرنا ہو گا تاکہ پاکستان کی باصلاحیت یوتھ کو بیرون ممالک ہجرت سے روکا جا سکے اور ہماری یوتھ کی صلاحیتوں کو دیگر دنیا کے ممالک کیوں استعمال کرے ترقی کریں خدا راہ ہماری یوتھ ملک کا قیمتی اثاثہ ہے بکہ جند ماہ قبل سندھ پبلک سروس کمشن میں بھی بے ضابطیگیوں کی رپورٹس بھی سامنے آئی ہیں پھر ان کمیشن میں ریٹائرڈ بیوروکریٹس پولیس اور افواج پاکستان کے لوگوں کو لیا جاتا ہے اور ان کو اچھی خاصی مراعات بھی دی جاتی ہیں انگریزوں نے یہ کمیشن بھرتیوں کے لیے بنائے تھے تاکہ ملک کی بھاگ دوڑ اعلیٰ ذہنوں کے مالک افراد کو دے کر ریاست آگے چلتی رہی لیکن پاکستان میں ان صوبائی اور وفاقی کمیشن کے طریقہ انتخاب میں اتنی پیچیدگیاں اور سست روی پیدا ہو گئی ہے کہ محکموں کی طرف سے ریکوزیشن پر بلا وجہ اعتراضات لگا کر محکموں کو واپس کر دی جاتی ہیں جس سے بھرتی کا عمل تعطل کا شکار ہو جاتا ہے اور بے روزگار امیدواروں کو کئی سال منتخب ہونے میں انتظار کرنا پڑتا ہے، وفاق کی خالی اسامیوں کو پر کرنے لئے دو سال بعد زرلٹ آئوٹ ہوتا ہے اور ایک سال میں انٹرویو کا پراسس مکمل ہوتا ہے اور یہ پراسس کے تین سال بھی امیدواروں کو بڑی کرب صورتحال سے بے روزگار رہنا پڑتا ہے۔ حضور پاکؐ کے زمانہ میں بھی ریاستی امور کی سر انجام دہی کے لئے افراد کا چنائو ہوتا تھا پھر خلفائے راشدین کے زمانے میں اس چنائو کے لیے قواعد و ضوابط بنا لئے گئے تاکہ ریاست اور حکومت بہتر طریقہ سے چل سکے جس کو ہم اب گڈ گورنس کہتے ہیں دنیا کے تقریبا تمام ممالک میں حکومت اور ادارے فعال کرنے کے لیے ایسے کمیشن موجود ہیں سوائے سات خلیجی ممالک کے وہاں تھوڑا سا طریقہ کار مختلف ہے اور بادشاہی نظاموں کے سبب تقرری کے لیے نامینیشن ہوتی ہے چین وہ واحد ملک ہے جہاں پر حکومتی امور و انتظام کے لئے افراد کی تقرری کا طریقہ کار وضع کیا گیا ہے اور حضرت عیسیٰ سے قبل وہاں اصول و قواعد بنائے گئے بھارت میں بھی ایسے کمیشن موجود ہیں جو نظاموں میں بہتری لانے کے لئے بہتر افراد کا چنائو کرتے ہیں چین میں انتظامات اور حکومتی امور کی سر انجام دہی کے طریقہ کار کی تاریخ دنیا میں سب سے پرانی ہے 221ق م میں چن شی ہوانگ نے متعدد خود مختار ریاستوں پر حملہ کر کے ان پر قبضہ کر لیا اور ایک بڑی حکومت بنائی۔ یہیں سے چن شاہی خاندان کی بنیاد پڑی اور امپیریال چائنا کا آغاز ہوا۔ چن شی ہوانگ نے اپنے لیے شہنشاہ چین کا لقب اختیار کیا۔ مگر تاریخ میں اس کو اچھے نام سے یاد نہیں کیا جاتا ہے۔ وہ ایک ظالم بادشاہ تھا اسی لیے اس کی موت کے بعد ہی اس کی سلطنت بھی تباہ ہو گئی اور ہان شاہی خاندان کا زمانہ آیا جنہوں نے چن خاندان کی جگہ لی۔ ان کا زمانہ 206ق م تا 220ء ہے۔ انہوں نے ایک طویل عرصہ تک حکومت کی۔ اس کے بعد آنے والی سلطنتوں نے چین میں دفتر شاہی نظام کی ابتدا کی جس کی وجہ سے بادشاہ کو براہ راست وسیع و عریض خطہ پر حکومت کرنا آسان ہو گیا۔۔ تاریخ چین میں چینی بادشاہت و حکومت کا یہ خاصہ رہا ہے کہ بادشاہتیں بدلنے کے باوجود انتظامیہ کا سلسلہ 21صدیوں تک مسلسل مربوط رہا اور 206ق م سے 1912ء یعنی 21صدیوں تک یہ نظام بخوبی چلا۔ اس کا سہرا چین کے خاص اسکالر اور افسران کو جاتا ہے جنہوں نے اس روایت کو زندہ رکھا یہی وجہ ہے تاریخ کے ساتھ ساتھ چین کا نظم و نسق بھی ہمیشہ منظم اور مربوط رہا۔ اس خاص روایت کی وجہ یہ تھی کہ حکومت میں نوجوان، خطاطوں، مورخین، ادبا اور ماہر فلسفیوں کا انتخاب بڑی بڑے اہتمام اور سخت حکومتی امتحانات کے بعد کیا جاتا تھا۔ چین کا سب سے آخری شاہی خاندان چنگ شاہی خاندان 1644ء تا 1912ء ہے۔ اس کے بعد چین میں جمہوریت آگئی اور 1912ء تا 1949ء رہی۔ پھر عوامی جمہوریہ چین کی بنیاد پڑی جو 1949ء سے اب تک قائم ہے۔ چینی تاریخ کا دلچسپ پہلو یہ بھی ہے کہ یہاں امن و سکون اور جنگ یکے بعد دیگرے آتے رہے۔ کبھی سیاسی اتحاد دیکھنے کو ملتا ہے کبھی ناکام ریاستوں کا دور شروع ہوتا ہے اور ایک طویل عرصہ چلتا رہا۔ یہاں تک کہ 1927ء تک سیاسی اتحاد اور امن و سکون کے بعد 1927ء چین خانہ جنگی کا دور شروع ہوا جو 1949ء تک چلا۔ فی الحال چین میں سیاسی استحکام آگیا ہے اور امن و سکون کا ماحول دیکھنے کو ملتا ہے۔ چین میں وقتا فوقتا خانہ بدوشوں کی حکومت رہی ہے۔ اور ان میں سے اکثر ہان چینی سے کسی نہ کسی طرح تعلق رکھتے ہیں۔ چین کے شاہی خاندانوں نے مختلف ادوار میں ملک کے ایک حصہ اور بعض دفعہ مکمل خطہ پر حکومت کی۔ ان میں سے کچھ حکومتیں سنکیانگ اور تبت تک پھیلی ہوئی تھیں۔ چین میں مہاجرین اور تاجروں کے ذریعے مغربی اور ایشیائی تہذیبیں بھی رونما ہوئیں۔ انتظامی امور کے ساتھ ساتھ ریاستی اداروں کے کردار کو بھی فراموش نہیں کیا جا سکتا ہے اگر انتظامی امور میں بہتری آئے گی تو آٹومیٹیکلی ریاستی ادارے بھی بہتری کی طرف اپنا رخ موڑتے نظر آئیں گے ضرورت اس آمر کی ہے کہ ریاستی اداروں کو اپنے اپنے دائرہ اختیار میں رہ کر ملک اور حکومت کے لئے کام کرنا ہے جس سے ملک میں خلفشار پیدا نہیں ہوتا ہے اور ملک کے ادارے اور سیاسی نظام مضبوط ہوتا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button