کاروبار

پٹرول کی قیمت میں پھر اضافہ

غریب عوام پر پھر پٹرول بم گرا کر اُن کی مشکلات میں ہوش رُبا حد تک اضافہ کر دیا گیا۔ نگراں حکومت نے جاتے جاتے پٹرول اور مٹی کے تیل کی قیمت بڑھادی جبکہ لائٹ ڈیزل سستا کر دیا گیا، ہائی سپیڈ ڈیزل کی قیمت برقرار رکھی گئی ہے۔ نگراں وزیراعظم نے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ردوبدل کی منظوری دی۔ نوٹیفکیشن کے مطابق پٹرول کی قیمت میں 4 روپے 13 پیسے فی لٹر اضافہ کیا گیا ہے جس کے بعد پٹرول کی نئی قیمت 279 روپے 75 پیسے فی لٹر مقرر ہوگئی ہے۔ مٹی کا تیل ایک روپے 44 پیسے فی لٹر مہنگا ہوا، جس کے بعد نئی قیمت 190روپے ایک پیسہ فی لٹر ہوگئی۔ نوٹیفکیشن کے مطابق لائٹ ڈیزل آئل ایک روپے 14پیسے فی لٹر سستا کیا گیا جس کے بعد ڈیزل آئل کی نئی قیمت 170 روپے 30 پیسے ہوگئی۔ قیمتوں میں اضافے کا اطلاق گزشتہ رات 12بجے سے ہوچکا ہے۔ یہ اضافہ کسی طور مناسب قرار نہیں دیا جاسکتا، اسے واپس لینے کی ضرورت ہے۔ قوم پہلے ہی مہنگائی کے عفریت سے بُری طرح پریشان ہے، غریب طبقے کی صورت حال قابلِ رحم ہے۔ اشیاء ضروریہ کے دام آسمانوں پر پہنچے ہوئے ہیں، وہیں بجلی اور گیس کی قیمتیں بھی تاریخ کی بلند ترین سطح کو چھو رہی ہیں۔ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بڑھانے سے مہنگائی میں مزید اضافہ ہوگا اور رمضان المبارک بھی نزدیک ہیں، جن میں گرانی کا بدترین سیلاب آتا ہے اور غریبوں کے لیے ماہ صیام میں مہنگائی ہولناک اذیت کی شکل اختیار کرلیتی ہے۔ پٹرول کی قیمت میں مسلسل تیسری بار اضافہ کیا گیا ہے۔ گو ڈالر کی قیمت میں بتدریج کمی واقع ہورہی ہے، پاکستانی روپیہ اس کے مقابلے میں زیادہ تیزی سے نہ سہی مگر استحکام ضرور حاصل کررہا ہے۔ مانا کہ پچھلے کچھ عرصے کے دوران عالمی منڈی میں تیل قیمتوں میں بڑھوتری دیکھنے میں آرہی ہے، لیکن اس کا یہ مطلب تو نہیں کہ تمام تر بوجھ غریب عوام کے کاندھوں پر منتقل کردیا جائے۔ ہمیشہ یہی کیا جاتا ہے۔ حکومت پر جب کوئی بار آتا ہے تو وہ بنا سوچے سمجھے وہ تمام تر بوجھ غریب عوام کے کاندھوں پر لاد دیتی ہے۔ آخر یہ سلسلہ کب تک چلے گا۔ کب عوام کے دلدر دُور ہوں گے۔ اُن کے لیے تو پچھلے 5، 6سال سنگین اور ڈرائونی خواب کی مانند رہے ہیں، جس میں اُن سے صرف چھینا ہی گیا ہے۔ اُنہیں حکومتی سطح پر لوٹانے کی نظیر بہ مشکل تمام ہی دِکھائی دے گی۔ 2018سے اب تک کے حالات کا جائزہ لیا جائے تو عوام پر ہوئے ظلم و ستم کی داستانوں کی طویل فہرست نظر آئے گی۔ 2018میں برسراقتدار آنے والوں سے قوم نے بہت سی توقعات وابستہ کرلی تھیں، کچھ ہی ماہ بعد عوام کے تمام ارمانوں پر اوس پڑ گئی۔ یہ حکومت پیش روئوں سے بالکل مختلف ثابت ہوئی، جس کے دور میں بیانیوں پر اکتفا کیا گیا اور عملی اقدامات کی سطح پر خاموشی کا دور دورہ رہا۔ بڑے بڑے بیانات سننے میں آتے تھے کہ اب حقیقی تبدیلی آئے گی، عوام کے دن بدل جائیں گے اور وہ ترقی اور خوش حالی کے ثمرات سے فیض یاب ہوں گے۔ یہ باتیں محض دعوے ہی ثابت ہوئیں۔ اُلٹا غریبوں کے منہ سے روٹی کا نوالہ تک چھین لیا گیا، ہر آنے والا دن اُن کے لیے کڑا امتحان ثابت ہوتا رہا۔ معیشت کو نامعلوم کس فارمولے کے تحت چلایا گیا کہ اُس کا پہیہ جام ہوکر رہ گیا۔ گو کرونا وائرس کے بھی کچھ اثرات ضرور ظاہر ہوئے، لیکن قدرت کے فضل و کرم سے وطن عزیز اس عالمی وبا کے اُن تباہ کُن اثرات سے محفوظ رہا، جو دوسرے ممالک میں دیکھنے میں آئے تھے۔ اس دوران بڑے پیمانے پر نہ سہی، یہاں کاروباری سرگرمیاں جاری رہیں۔ ناقص اقدامات کے باعث پاکستانی روپیہ تاریخی بے وقعتی اور بے توقیری سے دوچار ہوا، گویا اُسے پستیوں کی اتھاہ گہرائیوں میں دھکیل دیا گیا، ڈالر اُسے چاروں شانے چت کرتا رہا، یوں مہنگائی کے ہولناک نشتر قوم پر برستے رہے، غریب جس سے سب سے زیادہ متاثر ہوئے، متوسط طبقہ غربت کی نچلی سطح پر زندگی گزارنے پر مجبور ہوا۔ کاروبار دشمن پالیسیوں اور اقدامات کے باعث بے روزگاری کا بدترین طوفان آیا۔ بہت سے بڑے بڑے اداروں کو اپنے کاروبار محدود کرنے پڑے، جس کے باعث لاکھوں لوگوں کو بے روزگاری کا عذاب جھیلنا پڑا۔ لوگوں کے برسہا برس سے جمے چھوٹے کاروبار تباہ ہوکر رہ گئے۔ سی پیک ایسے گیم چینجر منصوبے پر کام کی رفتار سست کردی گئی یا اسے بالکل روک دیا گیا۔ اسی طرح ملک کی اوّلین 70سالہ تاریخ میں اتنے قرضے نہیں لیے گئے، جتنے چار سالہ دور میں بیرونی اداروں سے حاصل کیے گئے۔ حالات اس حد تک سنگین ہوچکے تھے کہ ملک ڈیفالٹ کے دہانے پر آپہنچا۔ پی ڈی ایم کی اتحادی حکومت قائم ہوئی، جس نے پہلے راست اقدامات یقینی بناتے ہوئے اس خطرے کو ٹالا۔ پھر نگراں حکومت نے احسن اقدامات یقینی بنائے، جس سے پاکستانی روپے کے استحکام کی راہ ہموار ہوئی۔ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں تاریخی کمی ممکن ہوسکی۔ اشیاء ضروریہ کے داموں میں زیادہ نہ سہی، کچھ کمی ضرور واقع ہوئی۔ یہ سب ڈالر، سونا، چینی، گندم، کھاد اور دیگر اشیاء کے اسمگلروں اور ذخیرہ اندوزوں کے خلاف کیے جانے والے مسلسل کریک ڈائون کے نتیجے میں ممکن ہوا جب کہ غیر قانونی مقیم غیر ملکیوں کو ان کے ملکوں کو واپس بھیجنے کے فیصلے کے بھی مثبت اثرات ظاہر ہورہے ہیں۔ لاکھوں غیر قانونی پناہ گزین اپنے ممالک کو واپس جاچکے ہیں۔ بہرحال پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں حالیہ اضافہ کسی طور مناسب قرار نہیں دیا جاسکتا۔ یہ مہنگائی میں اضافے کی وجہ بنے گا۔ اشیاء ضروریہ کے دام بڑھیں گے، جس سے غریبوں کی مشکلات میں اضافہ ہوگا۔ اگلے چند دنوں میں نومنتخب وفاقی حکومت کا قیام عمل میں آنے والا ہے۔ اُس کو سنگین چیلنجز درپیش ہیں۔ اُسے ملک و قوم کو درپیش مشکلات کے حل کے لیے راست اقدامات یقینی بنانے ہوں گے۔ شفافیت پر مبنی اقدامات کرنے ہوں گے۔ نیک نیتی کے ساتھ ملک و قوم کی ترقی اور خوش حالی کے لیے کوششیں کرنی ہوں گی۔ ضروری ہے کہ ڈالر کے نرخ پُرانی سطح پر واپس لائے جائیں۔ مہنگائی کی شرح میں بڑی کمی یقینی بنائی جائے۔ روزگار کے مواقع کشید کیے جائیں۔ غریبوں کی اشک شوئی کا لازمی بندوبست کیا جائے۔ گرانی کو دعوت دینے والے اقدامات سے گریز کیا جائے۔ قرضوں کے بجائے ملکی وسائل سے مسائل کو حل کیا جائے۔
کم عمر بچیوں کے نکاح نامے منسوخی کا عدالتی حکم
وطن عزیز میں کئی دہائیوں سے کم عمری کی شادیاں سنگین مسئلہ رہا ہے، اب بھی ملک کے بہت سے علاقوں میں کم عمری کی شادیوں کا رواج ہے، ابھی بچیاں تعلیمی مدارج طے بھی نہیں کرپاتیں کہ اُنہیں بیاہ دیا جاتا ہے، اُن کو علم سے دُور کردیا جاتا ہے، کھیلنے کودنے کی عمر میں اُن پر بھاری بھر کم ذمے داریوں کا بوجھ لاد دیا جاتا ہے، گڑیوں سے کھیلنے والیوں کی گودوں میں اُن کے اپنے بچے ہوتے ہیں، جن کی دیکھ بھال میں محو ہوکر وہ خود کو فراموش کردیتی ہیں، جو اپنا ٹھیک سے خود خیال نہیں رکھ پاتیں، اُن پر اتنی زیادہ ذمے داریاں ڈال دی جاتی ہیں۔ ایسی لڑکیوں کو ابتدا سے ہی مختلف بیماریاں آگھیرتی ہیں اور وہ جوانی کی عمر میں بڑھاپے کی دہلیز پر قدم رکھ چکی ہوتی ہیں۔ 40سال کے شخص کا نکاح 12سال کی بچی سے کردیا جاتا ہے، اُس کی مرضی کے خلاف، وہ بچی شادی کا مطلب بھی ٹھیک سے نہیں سمجھتی اور نہ اس حوالے سے ذمے داریوں سے آگاہ ہوتی ہے۔ یہ سلسلہ آخر کب تک چلے گا۔ اس کی روک تھام کے لیے کوششیں تو ضرور کی جاتی رہیں، لیکن کم عمری کی شادیوں کو روک نہ لگائی جاسکی اور پابندیوں کے باوجود آج بھی کم عمری کی شادیاں ہورہی ہیں۔ اس حوالے سے قانون کی موجودگی کے باوجود اُس پر عمل درآمد کا فقدان پایا جاتا ہے۔ کم عمری کی شادیوں کے حوالے سے عدالت عالیہ کا ایک بڑا فیصلہ سامنے آیا ہے۔میڈیا رپورٹس کے مطابق لاہور ہائیکورٹ نے کم عمر بچیوں کی شادیوں سے متعلق تحریری فیصلہ جاری کرتے ہوئے قانون پر سختی سے عمل درآمد اور چیئرمین یونین کونسل کو کم عمر بچیوں کے نکاح نامے منسوخ کرنے کا حکم دے دیا۔ لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس انوار الحق پنوں نے رمضانہ بی بی کی درخواست پر عبوری تحریری حکم جاری کردیا۔ عدالت نے کم عمر بچیوں کی شادیوں سے متعلق بڑا فیصلہ کرتے ہوئے کم عمر بچیوں کی شادیوں سے متعلق قانون پر عملدرآمد کا حکم دے دیا۔ عدالت نے پراسیکیوٹر جنرل پنجاب سید فرہاد علی شاہ کی سربراہی عملدرآمد کے حوالے سے اعلیٰ سطح کی کمیٹی بھی قائم کردی اور حکم دیا کہ کمیٹی کا پہلا اجلاس 4مارچ کو طلب کیا جائے۔ لاہور ہائیکورٹ نے تحریری حکم نامے میں لکھا کہ کمیٹی میں آئی جی پنجاب اور سیکریٹری لوکل گورنمنٹ شرکت کو بھی یقینی بنایا جائے۔ عدالت نے حکم دیا کہ چیئرمین یونین کونسل فوری طور پر کم عمر بچیوں کا نکاح منسوخ کرے۔ عدالت نے حکم نامے میں لکھا کہ اگر کوئی کم عمر شادی رجسٹرڈ ہوئی تو قانون کے مطابق کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔ تحریری حکم نامے میں کہا گیا کہ ڈائریکٹر جنرل محکمہ بلدیات نے اس حوالے سے اپنی تجاویز پیش کیں جس کے تحت اسسٹنٹ ڈائریکٹر لوکل گورنمنٹ تحصیل کی سطح پر ہر ماہ یونین کونسل کا ریکارڈ چیک و فراہم کریں گے۔ عدالت کا یہ حکم احسن قرار پاتا ہے۔ کم عمری کی شادیوں کی روک تھام ناگزیر ہے۔ اس کے لیے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات ضروری ہیں اور اس حوالے سے موجود قانون پر سختی سے عمل درآمد کرانے کی بھی ضرورت ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button