Columnمحمد مبشر انوار

مرگ بر سر مچار

محمد مبشر انوار(ریاض)
کرہ ارض پر جنگ کی چنگاریاں شعلوں میں بدلتی دکھائی دے رہی ہیں بالخصوص مشرق وسطی اور جنوبی ایشیا میں یہ چنگاریاں تیزی کے ساتھ بھڑکتی ہوئی دکھائی دے رہی ہیں، گو کہ جنگ کبھی بھی امن کی ضامن نہیں رہی البتہ جنگی ماحول میں کئی ایک ممالک کے مفادات وابستہ ہیں۔ گزشتہ برس غزہ میں بھڑکنے والی جنگی آگ،پھیلتی ہوئی نظر آ رہی ہے کہ ابتداء میں اس آگ کا محور فقط فلسطینی دکھائی دئیے لیکن بتدریج یہ آگ غزہ کے کناروں سے باہر نکل رہی ہے اور لبنان کے ساتھ ساتھ یہ آگ یمن سے ہوتی ہوئی جنوبی ایشیا کی طرف بڑھ رہی ہے۔ جس کی لاٹھی ،اس کی بھینس کا اصول آج بھی کرہ ارض پر دکھائی دیتا ہے کہ ایک طرف اسرائیل اپنی طاقت کے بل بوتے پر،گو کہ یہ طاقت کلیتا اسرائیل کی اپنی نہیں بلکہ ان عالمی طاقتوں کی جانبداری کے باعث اسے میسر ہے جو مسلم دشمنی میں اسرائیل کی بے جا حمایت پر تلے ہیں،فلسطینی مسلمانوں کو غزہ سے نکال باہر کرنا چاہتا ہے تو دوسری طرف اس ناانصافی کے خلاف کھڑے ہونے والے وہ مسلم ممالک ہیں جو ہر صورت ظالم کا ہاتھ روکنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ امریکی جنگی فلسفہ ہمیشہ سے مختلف رہا ہے اور اس کا یہ دعوی کہ امریکہ نے کبھی جنگ اپنے ملک کے اندر نہیں لڑی بلکہ ہمیشہ اپنی سرحدوں سے باہر لڑی ہے،لہذا وہ مبینہ طور پر ایک عالمی طاقت ہے،جبکہ یہی دعوی ایران بھی کرتا ہے تاہم یہ دعوی ماضی میں عراق کے ساتھ جنگ کے بعدکیا جاتا ہے۔ایران نے عراق کے ساتھ جنگ کرنے کے بعد اپنا لائحہ عمل تبدیل کیا اور جنگ کے شعلوں کو اپنی سرحدوں سے باہر رکھنے کی کوشش کی،اس ضمن میں ایران نے شام،لبنان اور یمن میں اپنی طاقت کو مجتمع کرتے ہوئے،جنگ کو اپنی سرحدوں سے باہر رکھا اور اپنے دشمنوں کو ان علاقوں میں محصور کرنے کی کوشش کی۔ایران کے مطابق ،خطے میں طاقت کا توازن اور ایران کی اہمیت دیگر ممالک سے کہیں زیادہ ہے ،جس کی وجہ ایران کی قدیم تاریخ،تہذیب و تمدن ہے،اس میں عرب وعجم یا دیگر مسلم ممالک کے ساتھ اس کی دشمنی /سرد مہری/سرد جنگ،سب شامل رہے ہیں۔ایران کی اس روش کے پس پردہ کیا حقائق ہیں، اکثریت اس سے واقف ہے کہ امریکی طرز عمل ہمیشہ سے یہی رہا ہے کہ وہ کسی بھی ملک میں ،خطے میں تمام سٹیک ہولڈرز کے ساتھ رابطے میں رہا ہے اور جیسے ہی کوئی حکمران ،اس کے خلاف جانے کی کوشش کرتا ہے،وہ حیلے بہانوں سے اسے یا رام کرتا ہے یا حکومت سے نکال باہر کرتا ہے تا کہ اس کے مفادات کا تحفظ ہوتا رہے۔عالمی بساط پر بچھائی ہوئی بیشتر چالیں امریکی ہی ہیں ،ان چالوں کو چلنے اور ان سے اپنے ریاستی مفادات کشید کرنے والا بھی امریکہ ہی ہے تاہم اس سب کے باوجود بیشتر محاذوں پر کہ جہاں امریکہ براہ راست جنگ میں کودا ہے،اسے بالعموم منہ کی کھانی پڑی ہے،وہ خواہ ویتنام ہو یا افغانستان،امریکہ کو جوتے چھوڑ کر اور بھاری جنگی نقصان اٹھا کر فرار ہوناپڑاہے۔ویتنام اور افغانستان میں امریکی فوج،حریت پسندوں /ملکی آزادی کی خاطر بے سرو سامانی اور نسبتا کم تر ہتھیاروںسے لڑنے والوں کے سامنے ہتھیار پھینک کر فرار ہوئی،جو اس امر کا غماض ہے کہ کوئی بھی بیرونی طاقت ،اپنی سرحدوں سے ہزاروں میل دور،جنگ میں کامیابی حاصل نہیں کر سکتی۔
ماضی کے جھرونکوں میں جھانکنے سے یہ بھی نظر آتا ہے کہ یہ امریکہ ہی ہے کہ جس نے مد مقابل طاقتوں کو زیر کرنے کے لئے ،جس قوت کو آزادی پسند کہہ کر تیار کیا،بعد ازاں اسے یکطرفہ طور پر ہی دہشت گرد قرار دے دیا اور اپنے ہی بنائے ہوئے حریت پسندوں پر چڑھائی کر دی۔اس پس منظر کو مد نظر رکھتے ہوئے انقلاب ایران کے بعد،امریکی و ایرانی تعلقات میں کبھی دوستی کا عنصر دیکھنے کو نہیں ملا اور دونوں ملک ایک دوسرے کے خلاف برسرپیکار دکھائی دئیے،امریکی حمایت کا جھکائو،خطے میں سعودی عرب کی جانب ہو گیا اور ان دو مسلم ممالک کے درمیان نفرتوں کی خلیج بنانے میں امریکی کردار سے کبھی بھی صرف نظر نہیں کیا جا سکتا۔تاہم اس دوران ایران نے کبھی بھی امریکی طاقت کے سامنے سرنہیں جھکایا اور اپنی محدود طاقت کے باوجود امریکہ کے سامنے کھڑا نظر آیا ہے بلکہ بسا اوقات امریکہ کو گھٹنوں کے بل بھی لایا اور اپنی خودمختاری و سالمیت پر کبھی سمجھوتہ نہیں کیا۔یکطرفہ پابندیوں کا مردانہ وار مقابلہ بھی کیا اور اپنی معیشت کو بالکل بھی زمین بوس نہیں ہونے دیا ،دفاعی صلاحیت کو ہمہ وقت مضبوط بنانے کے لئے ایران نے ان پابندیوں کو کبھی ملحوظ خاطر نہیں رکھااور اپنے دفاع کو مضبوط رکھنے میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی گو کہ اس دوران ایران کے کئی ایک تخلیق کاروں کو غیر طبعی موت کا سامنا کرنا پڑا۔بہ حیثیت مجموعی انقلاب ایران کے بعد ،ایران ذاتی حیثیت میں ایک آزاد اورخودمختار ملک کی حیثیت کا حامل رہا ہے اور انقلاب کے خلاف امریکی سازشوں سے ہنوز نبردآزما ہے جبکہ امت مسلمہ کے حوالے سے بالعموم اور فلسطین کے حوالے سے بالخصوص ایران کی پالیسی ہمیشہ جارحانہ رہی ہے اور اس نے دیگر اسلامی ممالک کی طرح کبھی بھی اسرائیلی ریاست کو تسلیم نہیں کیا اور نہ اس کے ظلم و ستم و بربریت کوزبانی جمع خرچ سے مذمت تک محدود رہا ہے۔البتہ ایران کی اس پالیسی کے تحت،ایران نے کبھی پڑوسیوں کو مذمتی پالیسی کو بھی تسلیم نہیں کیا اور اس ضمن میں ان کے ساتھ بھی مسلسل پنجہ آزمائی میں مشغول نظر آتا ہے،مثال مشرق وسطی کے مسلم ممالک کی ہے۔تاہم کشمیر ی مسلمانوں پر بھارتی ریاست کے مسلسل جبرو ستم کے باوجود ،ایران کا جھکائو بھارت کی طرف رہا ہے اور اس کے تعلقات بھارت کے ساتھ انتہائی دوستانہ رہے ہیں ،جو آج بھی قائم و دائم ہیں ،جس کی بنیادی وجہ یقینی طور پر ریاستی مفادات سمجھ لیں یا مذکورہ دو ممالک کی کامیاب خارجہ پالیسی سمجھیں۔
ریاستی داخلی خودمختاری و سالمیت کے حوالے سے آج کوئی بھی ریاست کسی بھی طرح گو مگو کا شکار دکھائی نہیں دیتی اور جیسے ہی اس کی ریاستی خودمختاری یا سالمیت پر آنچ آنے لگتی ہے تو ریاستی بزرجمہر،ہر سطح پر اور ہر طریقے سے اس کا جواب لازم دیتے ہیں،خواہ اس کی کوئی بھی قیمت ہو۔ایران ،پاکستان کو تسلیم کرنے والا دنیا کا پہلا ملک ہے اور اس نے پاکستان کے ابتدائی دور میں ،پاکستان کی ہر ممکن مدد بھی کی ہے ،جس کے جواب میں پاکستان نے بھی کبھی بخیلی سے کام نہیں لیا لیکن وقت گزرنے کے ساتھ دونوں ممالک کے تعلقات میں غیر محسوس فاصلے دیکھے جا سکتے ہیں۔ جنرل ضیاء کے دور میں ،ایرانی مداخلت اور پاکستانی معاشرے میں اپنے مسلک کے نفوذ میں بڑھتے اثرورسوخ ،اس کو متوازن کرنے کے لئے جنرل ضیاء کے پاکستانی معاشرے کو تحفظ دینے کے لئے ،اقدامات بروقت تصور کئے جاتے ہیں،تاہم اس پر ایرانی ردعمل قابل افسوس ہی قرار دیا جا سکتا ہے۔بعد ازاں،ایران کی قربتیں بھارت کے ساتھ اتنی بڑھی ہیں کہ ایران گوادر کے مقابلے،چاہ بہار جیسے منصوبہ پر بھارت کا شریک کار بن گیا اور بھارتی شر انگیزیوں کے لئے،ایران کی سرزمین کا استعمال ہوتا رہا،جس کی مثال کلبھوشن یادیو ہے،تاہم اس قدر حساس معاملے کے باوجود،پاکستان نے اپنے برادر مسلم پڑوسی ملک کی خود مختاری و سالمیت کا کماحقہ احساس کیا اور کسی بھی قسم کی ایسی کوئی حرکت نہیں کی،جو عالمی قوانین کے منافی ہو البتہ سفارتی سطح پر معاملات کو حل کرنے کی کوشش کی۔دوسری طرف ایران کی طرف سے ایسے معاملات پر رویہ بالعموم سرد ہی نظر آیا اور اس کے بھارت کے ساتھ تعلقات میں کسی بھی سطح پر کوئی کمی نظر نہیں آئی اور نہ ہی بھارت کے ساتھ تعاون میں کوئی کمی دیکھنے کو ملی، جبکہ پاکستان ،بلوچستان میں،بھارت کی اس شرپسندی کا شکار ہے اور مسلسل اس سے نبرد آزما ہے۔ گزشتہ دنوں ایران کی جانب سے پاکستانی فضائی حدود کی خلاف ورزی کرتے ہوئے پنجگور کے علاقے میں میزائل داغے گئے اور یہ دعویٰ کیا گیا کہ یہ میزائل جیش العدل کے ٹھکانوں پر مارے گئے ہیں۔ ان میزائلوں سے ،اب تک کی اطلاعات کے مطابق، نہتے شہری بھی شہید ہوئے ہیں جو یقینا کسی بھی خود مختار ریاست کے لئے لمحہ فکریہ ہے اورکوئی بھی ریاست ایسے کسی بھی غیر قانونی و بلاجواز اقدام پر انتہائی حد تک جانے سے گریز نہیں کرتی۔ پاکستان نے فوری طور پر نہ صرف اپنے سفیر کو ایران سے واپس بلا لیا بلکہ پاکستان میں ایرانی سفیر کو بھی فورا ملک چھوڑنے کا حکم دے دیا،یہ فوری اقدام درحقیقت ایران کو ایک موقع فراہم کرنا تھا کہ وہ اپنے اس غیر قانون اقدام پر معذرت طلب کرتے ہوئے،تعلقات کو معمول پر لانے میں مدد کرے اور حالات کو سمجھے لیکن بدقسمتی سے ایران کی طرف سے ایسا مثبت جواب موصول نہیں۔ نتیجتا پاکستان کی فضائی فورس نے جوابا ایران کے صوبے سیستان اور بلوچستان میں ،بی این اے اور بی ایل ایف کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا جبکہ کسی ایرانی شہری یا فوجی کو اس سے کوئی نقصان نہیں پہنچا۔پاکستانی فوج کا شمار دنیا کی بہترین افواج میں سے ہوتا ہے اور اس کی پیشہ ورانہ مہارت کی ساری دنیا معترف ہے لیکن اس کے باوجود سرزمین پاکستان پر چند ناعاقبت اندیش بلاوجہ دھاک بٹھانے کے چکر میں،سفارتی طریقہ کار کی بجائے جارحیت کے مرتکب ہوتے ہیں،جس کا جواب پاکستان انتہائی مہارت و ذمہ داری سے دیتا ہے تا کہ معاملات زیادہ نہ بگڑیں۔ایسی ہی صورتحال 2019ء میں پیش آئی تھی جب بھارتی سورمائوں کو نجانے کس بات کا زعم ہوا اور وہ پاکستان پر چڑھ دوڑے، جس کا جواب پاکستانی فضائیہ نے انتہائی بھرپور طریقے سے دیا تھا اور ان کے آرمی چیف کومطلع کر کے،مذکورہ علاقے سے نکل جانے کا موقع فراہم کیا تھا،یہ کیسے ممکن تھا کہ ایران ایسی کوئی قدم اٹھاتا اور اس کو جواب نہ دیا جاتا۔تاہم یہاں چند سوال انتہائی اہم ہیں کہ ایسے واقعات کی روک تھام بروقت کیوں نہیں ہوتی اور حفاظتی اداروں کی نظر سے بچ کر ایسے میزائل کیسے پاکستانی حدود میں داخل ہو کر تباہی مچاتے ہیں؟ کیا پاکستان کے پاس دفاعی نظام میں اس کا انتظام موجود نہیں؟ یا دفاعی اداروں کی دیگر مصروفیات کے باعث کہیں دفاع میں سقم ہے؟ ان سوالوں کے باوجود پاکستان کا جوابی آپریشن برگ سر مچار مطلوبہ نتائج حاصل کر چکا ہے، اس امید کے ساتھ کہ یہ معاملہ یہیں ختم ہو جائے گا اور مزید نہیں بڑھے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button