ColumnM Riaz Advocate

ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کرپشن سروے رپورٹ

محمد ریاض ایڈووکیٹ
اداروں میں پائی جانے والی بدعنوانی کے حوالے سے ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل پاکستان کی جانب سے جاری کردہ سروے رپورٹ کے نتائج کے مطابق سب سے زیادہ کرپٹ پولیس کا محکمہ ہے۔ محکمہ پولیس کے بعد دوسرے نمبر پر ٹھیکے دینے اور کنٹریکٹ کرنے کا شعبہ، تیسرے نمبر پر عدلیہ اور پھر تعلیم اور صحت بالترتیب چوتھے اور پانچویں نمبر پر کرپٹ ترین شعبے ہیں۔ مقامی حکومتیں، لینڈ ایڈمنسٹریشن اینڈ کسٹمز، ایکسائز اور انکم ٹیکس بالترتیب چھٹے، ساتویں اور آٹھویں نمبر پر کرپٹ ترین ادارے ہیں۔ یاد رہے ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل پاکستان کی جا نب سے تیرہ سوالات پر مشتمل یہ سروے اپنی پارٹنر آرگنائزیشنز کے تعاون سے 13اکتوبر 2023سے 31اکتوبر 2023تک چاروں صوبوں کے 16بڑے شہروں میں منعقد کرایا گیا۔ سروے رپورٹ کے مطابق رشوت پر اوسط خرچہ ریٹنگ میں پہلا نمبر بلوچستان پھر خیبر پختونخوا اور پنجاب اور سندھ کا بالترتیب تیسرا اور چوتھا نمبر ہے۔ سروے رپورٹ کے مطابق کرپشن کی اصل وجوہات کی بابت پوچھے گئے سوال کے جواب میں 40فیصد پاکستانیوں کے مطابق میرٹ کی دھجیاں اُڑائے جانا جبکہ 36 فیصد کے مطابق بیوروکریسی کا ریاستی اداروں کو اپنے ذاتی مفاد کے لیے استعمال کرنا، اسی طرح بالترتیب 12فیصد پاکستانیوں کے نزدیک کرپشن کی روک تھام کے لیے حکومت اور سیاسی جماعتوں کی رضامندی کا فقدان اور کمزور استغاثہ کی بدولت بدعنوانی کے مقدمات کے فیصلوں میں تاخیر پاکستان میں کرپشن کی بڑی وجوہات ہیں۔ سروے میں پوچھے گئے بہت ہی اہم سوال کہ آپ کی رائے میں کس ریاستی ادارے نے بدعنوانی کو روکنے میں موثر کردار ادا کیا ہے؟ اس کے جواب میں 36فیصد پاکستانیوں کے نزدیک پاکستان کا کوئی بھی انسداد بدعنوانی کا ادارہ کرپشن روکنے میں اپنا کردار ادا نہیں کر رہا۔ سروی کے مطابق 60فیصد پاکستانی محسوس کرتے ہیں کہ نیب، ایف آئی اے، انٹی کرپشن اور محتسب جیسے احتسابی ادارے ختم کر دینے چاہئیں کیونکہ یہ ادارے بدعنوانی کا خاتمہ کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ پاکستان کی ترقی میں رکاوٹ کی بنیادی وجہ کیا ہے؟ اس سوال کے جواب میں47فیصد پاکستانیوں کے نزدیک کرپشن سب سے بڑی وجہ ہے جبکہ 28فیصد کے مطابق مہنگائی
اور 25فیصد پاکستانیوں نے پاکستان کی ترقی میں رکاوٹ کی وجہ میرٹ کا فقدان قرار دیا ہے۔68فیصد پاکستانیوں کیمطابق قومی احتساب بیورو ، ایف آئی اے، اینٹی کرپشن ایسے اداروں کو سیاسی انتقام کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ سروے رپورٹ کے مطابق قومی سطح پر 75فیصد شہری سمجھتے ہیں کہ پرائیویٹ سیکٹر کے پاس موجود طاقت اور اثر ورسوخ کے باعث کرپشن کا بازار گرم رہتا ہے۔ کرپشن کو کچلنے کے اقدامات کے طور پر 55فیصد پاکستانیوں کا کہنا ہیکہ قومی سطح پر حکومت کو فوری طور پر سرکاری افسران کے اثاثوں کا اظہار اپنی ویب سائٹس پر یقینی بنانا چاہیے اور 45فیصد کا خیال ہے کہ متعلقہ عدالتوں کو کرپشن کے مقدمات 30دن کے اندر فیصلے جاری کرنے چاہیے۔ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کرپشن سروے رپورٹ کے اعدادوشمار درست ہیں یا غلط؟ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل سروے کا طریقہ کار درست ہے یا غلط؟ کرپشن رپورٹ کے انکشافات قابل یقین و قابل اعتبار ہیں یا نہیں؟ اس بابت بہت سے سوالات اُٹھائے جاسکتے ہیں۔ مگر یہ بات حقیقت پر مبنی ہے کہ پاکستانی معاشرہ کرپشن کے تالاب میں سرعام ننگا ہوکر خوب غسل کر رہا ہے ۔ ہم اداروں میں بیٹھے ہوئے افسران کی بات کرتے
ہیںکہ وہ کرپٹ ہیں۔ لیکن ہم بحیثیت پاکستانی و مسلمان اس حقیقت سے آنکھیں چُرا لیتے ہیں کہ دوسروں کو کرپٹ کرپٹ کہنے والے ہم خود کتنے ایماندار ہیں ؟ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں پانی و کیمیکل کی ملاوٹ سے پاک دودھ کیا با آسانی میسر ہے؟ ایسا ممکن ہے کہ پھل و سبزی فروش سے خریدی گئی سبزی و پھل کا شاپنگ بیگ گھر میں کھلے اور اس میں گلی سڑی سبزی یا پھل نہ نکلے اور وزن بھی پورا ملے؟ کیا مصنوعی مٹھاس جو کینسر جیسی بیماریوں کا باعث بن سکتی ہے کا استعمال ہماری مٹھائی و بیکریوں میں نہیں کیا جارہا؟ ملاوٹ سے پاک روزمرہ کی اشیاء خوردونوش ملنا خوش نصیبی ہی قرار دیا جاسکتا ہے۔ حد تو یہ ہے کہ زندگی بچانے والی ادویات بنانے میں کم کوالٹی کے میٹریل کا استعمال کرنے جیسی دو نمبری کرنا کوئی جرم یا گناہ نہیں سمجھا جاتا۔ جھوٹ بولنا اور فریب دینا ہمارے قومی مشاغل بن چکے ہیں۔ دو نمبری کے بعد منافع کو بڑھانے کو عقلمندی قرار دینا جانا ہمارے معاشرے کی پستی کو ظاہر کرتا ہے۔ درحقیقت اسلامی جمہوریہ پاکستان میں اداروں میں بیٹھے افراد ہوں یا پھر گلی محلہ اور بازار میں بیٹھے ہوئے دوکاندار من حیث القوم جھوٹ ، فریب، دھوکہ دہی جیسے افعال کو غیر قانونی تو درکنار گناہ بھی نہیں سمجھا جارہا۔ جبکہ قرآن مجید و فرقان حمید میں انبیاء کرام کے قصائص اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت و تعلیمات ہماری رہنمائی کے لئے مشعل راہ ہیں۔ افسوس اسلامی جمہوریہ پاکستان کے ہر شعبہ میں کرپشن ہمارے اندر کہاں تک سرایت کر چکی ہے اس بات کا اندازہ صرف اسی بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ جرم کرنے کے بعد ہم سب سے پہلے تھانہ کچہری میں ٹائوٹ ڈھونڈتے ہیں تاکہ ہم قانون کی گرفت میں نہ آسکیں۔ ہم سیاست دانوں، حکمرانوں ، بیوروکریسی، عدالتوں اور تمام ریاستی اداروں میں بیٹھے افراد پر کرپشن کے الزامات لگانے میں اک سیکنڈ نہیں لگاتے لیکن اپنے گریبان میں جھانکنا گوارہ نہیں کرتے۔ یاد رہے فرد سے افراد اور افراد سے معاشرہ ترتیب دیتا ہے۔ اللہ کریم ہم سب کو قرآن مجید و سیرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی روشنی میں ایماندار بننے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین ثم آمین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button