ColumnImtiaz Aasi

حج پالیسی میں تبدیلیاں

امتیاز عاصی
نئی حج پالیسی کو چند روز قبل کابینہ کے ہونے والے اجلاس میں پیش کیا گیا چند امور پر اتفاق رائے نہ ہونے کی وجہ سے یہ معاملہ موخر کر دیا گیا تھا۔ خبروں کے مطابق کابینہ نے چند تبدیلیوں کے بعد حج پالیسی کی منظوری دے دی ہے۔ تادم تحریر حج پالیسی کا باقاعدہ اعلان تو نہیں ہوا ہے، البتہ مصدقہ ذرائع کے مطابق نجی گروپس میں عازمین حج کو لے جانے والے حج گروپ آرگنائزروں کی تعداد نو سو چار کی بجائے چھیالیس کر دی گئی ہے۔ گو نجی گروپس لے جانے والوں کو غیر سرکاری طور پر اس بات کی خبر تھی۔ سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے مذہبی امور نے سفارش کی تھی یہ معاملہ سعودی حکومت سے اٹھایا جائے اور حج گروپ آرگنائزروں کی تعداد میں کمی کرنے کا فیصلہ ایک سال کے لئے موخر کر دیا جائے۔ ذمہ دار ذرائع نے ہمیں بتایا کہ حج گروپ آرگنائزروں کی بڑی تعداد کا اس بات پر اتفاق رائے ہے کہ ٹور آپریٹروں کی تعداد کم کرکے عازمین حج کو بڑے گروپس میں سعودی عرب بھیجا جائے۔ وزارت مذہبی امور نے حج گروپ آرگنائزروں کو ضم ( Mergre) کرنے کے انتظامات مکمل کر لئے ہیں۔ حج 2024کے لئے سعودی حکومت کو صرف 46حج گروپ آرگنائزروں کی فہرست بھیجی جائے گی جن میں پرائیویٹ کوٹہ کے نوے ہزار عازمین حج کو تقسیم کرنے کے لئے خاصی پیش رفت ہو چکی ہے۔ نئی حج پالیسی میں 25000عازمین حج کا کوٹہ ان لوگوں کے لئے مختص کیا گیا ہے جن کے حج واجبات بیرون ملکوں سے زرمبادلہ کی صورت میں آئیں گے جس سے حکومت پاکستان کو زرمبادلہ کی بچت کی توقع ہے۔ اگرچہ حکومت نے یہ تجربہ گزشتہ برس کیا تھا جس میں خاطر خواہ کامیابی نہیں ہو سکی تھی ۔
آئندہ حج میں دس سال سے کم عمر کے بچوں کے سعودی عرب جانے پر پابندی ہو گی جبکہ اسی سال سے زائد عمر کے عازمین حج اپنے ساتھ ایڈنٹ کے بغیر حج پر نہیں جا سکیں گے۔ حج کے دوراینے میں کمی لانے کی تجویز ہے جس میں عازمین حج زیادہ سے زیادہ 25روز تک قیام کر سکیں گے تاہم اس پیکیج کے اخراجات کا تخمینہ سعودی عرب میں رہائش کے کرایوں اور ایئر لائنز کے ٹکٹ کے اخراجات سے مشروط ہوگا۔ وہ افراد جو 2017،2018، 2019 اور 2023میں حج کی سعادت حاصل کر چکے ہیں وہ آئندہ سال حج کرنے کے اہل نہیں ہوں گے البتہ اگر وہ اسپانسر اسکیم میں حج کی درخواست دیں گے وہ حج کی سعادت کے اہل ہوں گے اس مقصد کے لئے انہیں بیرون ملک سے حج کے واجبات کا ڈرافٹ منگوانا ہوگا۔ جہاں تک سعودی عرب میں حج انتظامات کا تعلق ہے نہ تو سعودی وزارت حج نہ پاکستان کا حج مشن اس سلسلے میں کوئی کام کر رہا ہے۔ حج انتظامات اسی صورت میں شروع کئے جاتے ہیں جب حج پالیسی کا اعلان کر دیا جائے۔ حج درخواستوں کی وصولی اور زرمبادلہ آنے کے بعد عازمین حج کے لئے رہائش کے انتظامات کئے جاتے ہیں بعض اوقات وزارت مذہبی امور وزارت خزانہ سے اس مقصد کے لئے پیشگی رقم قرض لے لیتی ہے۔ عازمین حج کو نجی گروپس میں لے جانے کا آغاز 2004میں ہوا تھا جب سے وزارت مذہبی امور حج پالیسی کو حتمی شکل دینے سے قبل نجی گروپس کی تنظیم ہوپ کے نمائندوں کو اعتماد میں لیتی تھی البتہ اس مرتبہ مذہبی امور نے حج پالیسی میں تبدیلیاں کرنے سے قبل حج گروپس آرگنائزروں کے عہدے داروں کو اعتماد میں لئے بغیر حج پالیسی مرتب کی ۔ حقیقت تو یہ ہے حج کمپنیوں کی رجسٹریشن کے بعد نئی کمپنیوں کو رجسٹرڈ کرنے کا سلسلہ بند ہو جاتا ہے تو آج حج کمپنیوں کی اتنی زیادہ تعداد نہیں ہوتی۔ اس وقت نو سو چار نجی کمپنیاں وہ ہیں جو عازمین حج کو سعودی عرب لے جاتی ہیں۔ تیرہ سو مزید کمپنیوں کو وزارت مذہبی امور نے بھلا کس مقصد کے لئے رجسٹرڈ کر رکھا ہے جو وزارت مذہبی امور میں بدانتظامی کا نتیجہ ہے۔ حج پالیسی میں مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ میں عازمین حج کے کرایوں کی شرح نہیں بتائی گئی حالانکہ گزشتہ برسوں میں حج پالیسی کا اعلان کرتے وقت عازمین حج کو رہائش کے کرایہ کی شرح بتا دی جاتی تھی۔ قربانی کے واجبات کے بغیر سعودی عرب میں بیالیس روزہ قیام کے اخراجات 1075000جبکہ سائوتھ ریجن جس میں کراچی، کوئٹہ اور سکھر سے جانے والے عازمین حج کے واجبات 1065000ہوں گے۔ گو وزارت مذہبی امور نے سعودی حکومت کی ہدایات کی روشنی میں حج گروپ آرگنائزروں کی تعداد کم کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ سوال ہے نو سو چار حج گروپ آرگنائزروں کو ضم کرنے کے لئے کیا طریقہ اختیار کیا جائے گا جس سے ابھی تک پرائیویٹ حج گروپ آرگنائزر بے خبر ہیں۔ یہ علیحدہ بات ہے وزارت مذہبی امور نے سعودی وزارت حج کے ہدایات پر عمل درآمد کرنا ہے تاہم اس مقصد کے لئے ابھی تک کوئی طریقہ کار وضع نہیں کیا گیا ہے۔ یہ بات واضح ہے تین سو سے زیادہ عازمین حج کا کوٹہ رکھنی والے نجی گروپ آرگنائزروں کو یکجا کرنا ہوگا تاہم اس مقصد کے لئے حج گروپ آرگنائزروں میں اتفاق رائے کا ہونا بہت ضروری ہے۔ چلیں یہ تو ممکن ہے ایک بڑی کمپنی ادارے میں رجسٹرڈ ہو سکے گی حج گروپ آرگنائزر دو ہزار عازمین حج کے گروپ کے لئے عمارت کا حصول، مشاعر مقدسہ میں خیموں اور معلیمن کی فیسوں کی ادائیگی کے سلسلے میں کیا طریقہ کار اختیار کریں گئے۔ منی میں کیٹگری اے ، بی، سی اور ڈی کے عازمین حج کے لئے ایک بڑے گروپ کو آرگنائز کرنے والا یہ تمام انتظامات کیسے کر سکے گا؟ اہم بات یہ ہے سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں تین سو سے زیادہ عازمین حج کو کوٹہ کسی ٹور آپرٹیر کو نہیں دیا جا سکے گا۔ عازمین حج کا دو ہزار کا ایک گروپ بنانے سے سپریم کورٹ کے فیصلے کی نفی نہیں ہو گی؟ وزارت مذہبی امور کو حج گروپ آرگنائزروں کی تعداد کم کرنے سے قبل ان تمام امور پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں یاد ہے سعودی حکومت عشروں تک پاکستان کو عازمین حج کو پرائیویٹ گروپس میں بھیجنے کو کہتی رہے جس پر عمل درآمد 2004میں شروع کیا گیا ایسے میں حج کمپنیوں کی تعداد کم کرنے کا معاملہ چند سال موخر کرنے سے کون سی قیامت آجاتی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button