Ali HassanColumn

نجکاری میں جلد بازی کیوں ؟

علی حسن
پاکستان میں بعض عناصر کو ملکی اثاثوں کی نجکاری میں ضرورت سے زیادہ دلچسپی ہوتی ہے۔ آج کل پی آئی اے ان کے نشانے پر ہے۔ صبح شام خبریں گردش میں ہیں کہ جیسے پی آئی اے دیوالیہ ہو گئی ہے۔ معلوم تو کرو پی آئی اے کے ساتھ کیا ہوا ہے، کیوں مہم چلائی جارہی ہے کہ پاکستان کی قومی ہوائی کمپنی کو جیسے تیسے فروخت کیا جائے۔ کیا پی آئی اے کیس اس لحاظ سے کس کا درد سر ہے کہ بس فروخت کرو۔ یہ قومی کمپنی پاکستان عوام کی محنت کی کمائی سے کھڑی کی گئی تھی۔ پرانی زمانے کے لوگ یاد کریں کہ یہ کمپنی اورینٹ ایئر ویز کو ختم کر کے قائم کی گئی تھی۔ اورینٹ کراچی کے معروف صنعتکار ظفر الحسن لاری نے قیام پاکستان کے فوری بعد قائم کی تھی۔ اس میں ہندوستان سے ہجرت کرکے آنے والے صنعتکاروں نے سرمایہ کاری کی تھی۔ خدا تعلی ان تمام لوگوں کو نیست و نابود کرے جنہوں نے اس ملک کے اثاثوں کو اونے پونے فروخت کر دیا ہے اور کرنے کی خواہش رکھتے ہیں ۔ یہ ایک بڑی طویل داستان ہے کہ نجکاری کمیشن کیوں قائم کیا گیا۔ اس سے پاکستانی اور وہ غیر ملکی جنہیں پاکستانی حکمران اپنا دوست سمجھتے رہے تھے، کو نوازنا مقصود تھا۔ انہیں نوازا گیا۔ قومی ٹیلی فون کمپنی پی ٹی سی ایل کا ادارہ کیوں اور کسی کو دیا گیا۔ کیا اس غیر ملکی پارٹی نے ادارے کی فروخت کی قیمت ادا کر دی ہے۔ اس پارٹی نے آج تک پوری رقم ادا نہیں کی ہے۔ اگر آج تک پوری قیمت ادا نہیں ہوئی ہے تو اس کی ذمہ داری کس پر عائد ہوتی ہے اور کون سزا وار ہوگا۔ مسلم کمرشل بینک جسے اس کے پاکستانی مالک نے ایم سی بی بینک کر دیا، ، حبیب بینک، الائیڈ بینک، یونائٹڈ بینک ( یو بی ایل) اور درجنوں درجنوں دیگر ادارے اونے پونے داموں میں فروخت کر دئیے گئے۔ اب تک نجکاری کئے گئے تمام اداروں کو نقصان میں چلنے والے ادارے قرار دے کر کوڑیوں کے مول فروخت کر دیا گیا۔ منفی خبروں کی مہم چلا کر ان اثاثوں کی ضرورت اور اہمیت کو کم دکھایا جاتا ہے۔ بعض جعلی دانشوروں نے یہ بات بھی گھڑی ہے کہ حکومتوں کو کام کاروبار کرنا نہیں ہوتا لیکن کیا حکومتوں کو کام پہلے سے موجود قومی اثاثوں کو کوڑیوں کے مول فروخت کر کے مخصوص عناصر کو فائدہ پہنچانا مقصود ہو تا ہے یا ہوتا چاہئے۔ خبر اپنی جگہ درست ہوگی لیکن کیا ایسی خبروں کو پی آئی اے کے خلاف مہم کو حصہ ہونا چاہئے۔ سعودی عرب میں پروازوں کی آمد و روانگی میں تاخیر کے معاملے پر جنرل اتھارٹی آف سول ایوی ایشن ( گاکا) نے قومی ایئر لائن ( پی آئی اے) سمیت دیگر ایئر لائنر کو تنبیہ کر دی۔ سعودی ایوی ایشن کی جانب سے مجموعی طور پر 26ایئر لائنز کو وارننگ لیٹر جاری کیے گئے ہیں، جس میں کہا گیا ہے کہ ایئر لائنز نے پرفارمنس ٹھیک نہیں کی تو ان کے سلاٹس کم کر دئیے جائیں گے۔ گاکا کی جانب سے دی گئی وارننگ میں کہا گیا ہے کہ پی آئی اے اپنی پروازوں کی وقت پر آمد اور روانگی یقینی بنائے، پروازوں میں تاخیر پر پی آئی اے کو جرمانے کی بھی وارننگ دی گئی ہے۔ ذرائع کا کہنا ہی کہ پی آئی اے کا سعودی عرب کیلئے فلائٹ آپریشن بری طرح متاثر ہے، طیارے خراب ہونے کی وجہ سے پروازیں کئی کئی گھنٹے تاخیر کا شکار ہیں۔ اسی انداز کی کئی اور خبریں پھیلائی جارہی ہیں۔
عجیب حیران کن بات ہے کہ اکثر ادارے ان سیاست دانوں جو کسی نہ کسی دور میں وفاق میں اقتدار سے چپکے ہوئے افراد نے خرید لئے۔ ادارے یہ کہہ کر فروخت کئے گئے کہ نقصان میں چل رہے تھے۔ ان کے نقصانات کا جائزہ کسی غیر جانبدارانہ ملکی یا غیر ملکی ادارے سے نہیں کرایا گیا۔ یہ ادارے اپنے ساتھ بہت بھاری بھاری مالیت کے اثاثے بھی ساتھ لے گئے تھے ۔ مالکان کے ہاتھ تبدیل ہوتے ہی تمام ادارے منافع میں چل رہے ہیں اور آج بھی منافع میں ہیں۔ مافیا زندہ باد۔ حکومت، مقتدر اداروں، اعلیٰ عدالتوں نے کبھی غور کیا کہ آخر اس طرح کی مہم کیوں چلائی جاتی ہے اور اثاثے فروخت کرنے کی مہم شروع ہو جاتی ہے۔ ہوائی کمپنی ہو، یا بینک ہوں، یا دیگر ادارے، یہ آئی ایم ایف کے قرضوں سے قائم نہیں ہوگئے تھے۔ حکومت کبھی بھی تشہیر نہیں کرتی ہے کہ نجکاری کیا جانے والا ادارہ کتنی رقم کے عوض فروخت کیا جا رہا ہے۔ کون لوگ اس کی بولیاں لگا رہے ہیں۔ حکومت
پاکستانی لوگوں کو کیوں دعوت نہیں دیتی ہے کہ وہ سرمایہ کاری کرنے والے افراد کا گروپ بنائیں، قائم کریں اور یہ ادارے خود خریدیں۔ اول تو حکومت نجکاری کی مہم کو لعنت بھیجے۔ عجیب تمازہ ہے کہ پاکستانی نو دولتیوں کی پارلیمنٹ بھی کبھی نوٹس نہیں لیتی ہے اور اس طرح کی لوٹ مار کی مزاحمت نہیں کرتی ہے۔ بجلی بنا کر حکومت کو فروخت کرنے والے نجی اداروں آئی پی پی کے تفصیل میں جائیں تو ساری ہے پاکستان مالکان نکلیں گے۔ اپنے ہی عوام کو خون چوسنے کو یہ لوگ قومی ترقی کا نام دیتے ہیں۔ سپریم کورٹ کو از خود نوٹس لیتے ہوئے اعلیٰ اختیاراتی کمیشن قائم کرنا چاہئے تاکہ یہ فیصلہ ہو سکے کہ کیا نجکاری کئے گئے ادارے واقعی نقصان میں چل رہے تھے ، کیوں نقصان میں چل رہی تھے یا یہ سب کچھ پروپگنڈہ تھا اور ہے کہ قومی اثاثوں کی لوٹ سیل لگا دی جائے۔ قومی کمپنی کے حصے بخرے کر کے اسے فروخت کرنے کا منصوبوں پر بھی غور ہو رہا ہے۔ غرض یہ ہی خواہش ہے کہ قومی کمپنی کو کسی نہ کسی انداز میں فروخت کیا جائے۔
ایک خبر ہے کہ پی آئی اے کی فروخت کا عمل فروری تک مکمل ہوجائے گا، نجکاری کمیشن نے پی آئی اے کو کسی بھی نئے معاہدے سے روک دیا۔ ذرائع کے مطابق مارچ 2024تک پی آئی اے کوئی بھی طویل مدتی معاہدہ نہیں کرے گی۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ پی آئی اے کو لیز پر طیارے حاصل کرنے سے بھی روک دیا گیا ہے، مارچ 2024سے آگے کا حتمی فلائٹ شیڈول بھی نہیں بنایا جائے گا۔ ذرائع نجکاری کمیشن نے مزید کہا کہ پی آئی اے کی فروخت کے بعد ہی آئندہ کی منصوبہ بندی کی جائے گی۔ لیکن نگران وزیر برائے نجکاری فواد حسن فواد کا کہنا ہے کہ اداروں کی نجکاری سے متعلق پروپیگنڈا کیا جا رہا ہے، نگران وزیر خزانہ کی وجہ سے 48گھنٹوں میں قومی ایئر لائن ( پی آئی اے) کیلئے پیسوں کا انتظام کیا۔ اسلام آباد میں اپنی حالیہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے فواد حسن فواد نے کہا کہ نگران حکومت کے اقدامات سے پی آئی اے کا آپریشن رواں دواں ہے، ایسی باتیں سننے کو ملیں کہ 3مہینے میں پی آئی اے بند کر دیں گے، نجکاری کا کوئی ایجنڈا اس نگران حکومت کا ہے تو یہ بات غلط ہے۔ فواد حسن فواد نے کہا کہ نجکاری کا عمل 2001 ء سے شروع ہوا، نجکاری کرنا ہمارا مینڈیٹ نہیں، ہمارا کام جاری مینڈیٹس آگے لے کر چلنا ہے، نگران حکومت سے متعلق نجکاری کے معاملے پر غلط خبریں چلائی گئیں۔ نگران وزیر نے کہا کہ سابقہ حکومت نے نگراں حکومت کو اختیارات دئیے، نجکاری کے عمل کے ہر مرحلے کا مقررہ وقت ہے، پی آئی اے کو جون کے مہینے سے سنگین مسائل کا سامنا رہا، جون سے جو کام نہیں ہو سکا وہ ہم نے 48گھنٹوں میں کر لیا۔ فواد حسن فواد نے کہا کہ پی آئی اے کو فیول ملنا شروع ہو گیا، پروازیں معمول پر ہیں، ہم جو کر رہے ہیں اْس کا اختیار ہمیں منتخب حکومت دے کر گئی ہے۔ وزیر نجکاری کو یہ بات ذہن میں رکھنا چاہئے کہ اگر پی آئی اے حکومت سے نہیں چل پا رہی ہے تو آئندہ انتخابات تک ادارے کو بند کر دیا جائے، ملازمین کو بغیر تن خواہوں رخصت پر بھیج دیا جائے۔ آنے والی پارلیمنٹ کا انتظار کیا جائے جو دو تہائی اکثریت سے اب تک کی جانے والی نجکاری کے تمام معاملات پر غور کر ے گی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button