ColumnM Riaz Advocate

لہو لہو میرا بلوچستان

محمد ریاض ایڈووکیٹ
بارہ ربیع الاول کے بابرکت و مقدس دن جہاں ہر جانب درود و سلام کی صدائیں بلند ہورہی تھیں۔ عاشقان مصطفیٰ جوق در جوق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی یوم پیدائش پر دیوانہ وار جلوسوں میں شرکت کرتے ہوئے عقیدت کے پھول نچھاور کر رہے تھے۔ اچانک ایک بریکنگ نیوز منظر عام پر آتی ہے کہ بلوچستان کے ضلع مستونگ میں میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خوشی میں نکالے گئے جلوس میں خودکش حملہ کر دیا گیا۔ آخری اطلاعات موصول ہونے تک شہدا کی تعداد 60سے زائد ہوچکی ہے۔ افسوسناک خبروں کا سلسلہ یہی پر نہیں رکا بلکہ دوآبہ، ہنگو، خیبر پختونخوا میں بھی نماز جمعہ کے دوران ایک مسجد کے اندر خودکش دھماکہ ہوا۔ اس دھماکے میں پانچ افراد شہید اور متعدد افراد زخمی ہوئے۔ یاد رہے مستونگ ہی میں چند دن پہلے جمعیت علما اسلام کے رہنما حافظ حمد اللّٰہ پر قاتلانہ حملہ ہوا تھا اور وہ شدید زخمی ہوئے تھے۔ نگراں وزیرِ اعلیٰ بلوچستان نے سانحہ مستونگ پر صوبے بھر میں 3روزہ سوگ کا اعلان کیا، اس دوران سرکاری عمارتوں پر قومی پرچم سرنگوں رہا۔ ہر مکاتب فکر کی جانب سے مستونگ اور ہنگو میں ہونے والے خود کش حملوں کی بھرپور مذمت کی جارہی ہے۔ جمعیت علما اسلام کے رہنما حافظ حمد اللّٰہ نے بھی ہنگو اور مستونگ میں ہونے والے دھماکوں کی شدید الفاظ میں مذمت کی ہے۔ اپنے ایک بیان میں حافظ حمد اللّٰہ کا کہنا تھا کہ چند روز قبل مستونگ میں اُن پر قاتلانہ حملہ ہوا، جس سے اُن کا جسم زخمی ہے، آج ہنگو اور مستونگ کے سانحات نے اُن کا دل زخمی کر دیا۔ حافظ حمداللّٰہ نے کہا کہ بے گناہ مسلمانوں کا کشت و خون ریاست اور قوم کے لیے بڑا امتحان ہے، قوم کے ان امتحانات کا سلسلہ کب تک جاری رہے گا؟ انہوں نے مزید کہا کہ ان واقعات کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے، اب صرف مذمت کافی نہیں۔ نہ جانے ہمارے پیارے وطن پاکستان کو کس کی نظر لگ گئی ہے؟ خودکش بمبار حملوں کا سلسلہ کب ختم ہوگا؟ چند دن کی مذمت کے بعد وہی چہل پہل وہی رنگا رنگ پروگرام، وہی محفلیں پھر زندگی رواں دواں ہوجاتی ہے اور ہم پاکستانی کسی نئے سانحہ کی خبر بریک ہونے کا انتظار کرتے ہیں۔ کسی دور میں ریاست پاکستان کی مشرقی سرحد پر بھارت سے شدید خطرات لاحق ہوتے تھے۔ اور ریاست پاکستان کی تمام تر حفاظتی سرگرمیوں کا مرکز یہی سرحد سمجھی جاتی تھی۔ آج مشرقی سرحد کے ساتھ ساتھ مغربی سرحد پر شدید خطرات لاحق ہیں۔ نیا زمانہ اور نئی جنگی چالیں۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے دشمنوں نے بھی روایتی جنگی حربوں کو استعمال کرنے کی بجائے نت نئے طریقے اختیار کرلئے ہیں۔ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد پاکستان کے دشمنوں کا سب سے بڑا ٹارگٹ بلوچستان ہے۔ بلوچستان میں علیحدگی کی تحریکوں کے پیچھے بھارتی ایجنسیوں کا ہاتھ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں رہا۔ دنیا کے کسی بھی بڑے بین الاقوامی فورم پر بھارتی سفارتکار بلوچستان کے لئے آواز بلند کرتے نہیں تھکتے۔ یہاں تک کہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے چند سال پہلے بھارتی یوم آزادی کے موقع پر اپنے خطاب میں بلوچستان ، گلگت بلتستان اور آزاد جموں کشمیر کی آزادی کا ذکر چھیڑ کر خطے میں ہیجانی کیفیت پیدا کردی تھی۔ پاکستان کی جانب سے خصوصا صوبہ بلوچستان کی غیور عوام نے بھی بھارتی وزیراعظم مودی کے بیان پر شدید ردعمل دیا تھا۔ یہ بات تو یقینی ہے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کا وجود صیہونی طاقتوں کو ابھی تک ہضم نہ ہوپایا۔ وجود پاکستان سے لیکر آج تک ریاست پاکستان بھرپور طریقہ سے صیہونی طاقتوں کا سامنا کرتی آئی ہے اور آئندہ بھی کرتی رہے گی اور پاکستان کے دشمنوں کی سازشیں نہ پہلے کم ہوئی تھیں اور نہ ہی مستقبل میں ختم ہوتی دکھائی دے رہی ہیں۔ مگر اسلامی جمہوریہ پاکستان کو بھی اپنی ریاستی پالیسیوں کو ازسرنو جائزہ لینے کی اشد ضرورت ہے ۔ ہمیں یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ ریاست افغانستان جو اپنے دیگر ہمسایہ ریاستوں ایران، ترکمانستان، ازبکستان، تاجکستان کے لئے تو خطرناک نہیں مگر صرف پاکستان ہی کے لئے خطرناک کیوں ثابت ہورہی ہے؟ آخر کیا وجوہات ہیں کہ ریاست پاکستان کو مشرقی سرحدوں سے زیادہ افغانستان کیساتھ ملنے والی مغربی سرحد سے زیادہ خطرات لاحق ہیں۔ باوجود اس کے کہ لاکھوں افغانی آج بھی پاکستان میں آزادانہ پناہ گزینی کی زندگی گزار رہے ہیں مگر اسی افغانستان کے بیشتر افراد پاکستان اور پاکستانیوں کو اپنا دشمن تصور کرتے ہیں۔ ہمیں یہ بھی سوچنا ہوگا کہ ریاست پاکستان نے ماضی میں دو مرتبہ افغانستان میں امریکی لڑائیوں میں کود کر لاکھوں پاکستانیوں کی قربانی اور اربوں ڈالر کا نقصان کرا کر کیا حاصل کیا؟ ہمیں یہ بھی پرکھنا ہوگا کہ معدنیات سے بھرپور صوبہ بلوچستان کے عوام کی پسماندگی اور موجودہ حالت زار کی وجوہات کیا ہیں؟ بلوچستان سے نکلنے والی معدنیات کا صوبائی حصہ صحیح معنوں میں صوبہ کی عوام تک کیوں منتقل نہیں ہورہا؟ پاکستان و افغانستان کی سرحد دونوں جانب مسلمان بستے ہیں تو پھر یہ خودکش حملہ آور کون پیدا کر رہا ہے؟ یہ کون بدبخت ہیں جو مسلمانوں کے مقدس ایام میں بھی دہشتگردی کرنے سے باز نہیں آتے؟ خدارا ، پاکستان کے سب سے بڑے صوبہ بلوچستان کو بین الاقوامی دشمنوں سے بچایا جائے۔ ہم تمام پاکستانیوں کو متحد ہوکر بلوچی عوام کو ان کے جائز حقوق دلوانے کے لئے جنگی بنیادوں پر کام کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ تاکہ بلوچستان کو بیرونی دشمنوں کے ہاتھوں مزید تباہی سے بچایا جاسکے۔ میرا بلوچستان زندہ باد۔ میرا پاکستان زندہ باد

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button