ColumnRoshan Lal

مودی، خالصتان اور ٹروڈو

تحریر : روشن لعل
کیا ماضی میں کبھی کسی نے سوچا ہوگا کہ آنے والے وقتوں میں کینیڈا کے وزیر اعظم اور بھارتی وزیر اعظم کسی معاملے پر آمنے سامنے ہو جائیں گے۔ کینیڈا کے جسٹن ٹروڈو تیسری اور بھارت کے نریندر مودی دوسری مرتبہ اپنے ملکوں کے وزیر اعظم بن چکے ہیں ۔ دونوں کے ادوار حکمرانی میں ان کے تعلقات ایسے نہیں رہے کہ مثالی کہے جاسکیں۔ دونوں کے تعلقات غیر مثالی ہونے کے باوجود کبھی کشیدہ بھی نہیں رہے۔ ماضی میں بھارت کی طرف سے اگرچہ کینیڈا کے خلاف کبھی خالصتان تحریک کی سہولت کاری کا الزام نہیں لگایا گیا مگر دبے لفظوں میں یہ ضرور کہا جاتا رہا کہ وہاں خالصتان کے حامیوں کو سازگار فضا میسر آتی ہے۔ کینیڈا کی طرف سے ان باتوں کی تردید تو کی جاتی رہی مگر ایسا کرنے کے لیے کبھی بھی سخت الفاظ استعمال نہ کئے گئے۔ مودی اور ٹروڈو کی وزارت عظمیٰ کے عرصہ میں گو کہ بھارت اور کینیڈا کے تعلقات کشیدہ تو نہیں ہوئے مگر ان کے درمیان سرد مہری ضرور موجود رہی ۔ باہمی تعلقات کی اس سرد مہری کو جسٹن ٹروڈو کے فروری 2018کے دورہ بھارت کے دوران بھی چھپایا نہ جاسکا۔ گزشتہ کچھ ہفتوں کے دوران بھارت اور کینیڈا کے تعلقات کی نوعیت ایسی ہو گئی ہے کہ انہیں بلا جھجھک کشیدہ کہا جاسکتا ہے۔ جب دو ملک ایک دوسرے کے سفارتکاروں کو فوراً ملک چھوڑنے کا کہہ دیں تو پھر ان کے تعلقات کو کشیدہ نہ سمجھنے کی کوئی وجہ باقی نہیں رہتی ، کینیڈا اور بھارت کی حکومتیں چند دن پہلے یہ کام کر چکی ہیں۔ اس کام کا آغاز جسٹن ٹروڈو کی حکومت نے اس الزام کی بنیاد پر کیا کہ بھارتی انٹیلی جنس اداروں نے ایک کینیڈین سکھ شہری ہردیپ سنگھ نجر کوکینیڈا میں قتل کیا جس کے لیے وہاں تعینات بھارتی سفارتی سفارتکاروں نے بھی معاونت کی۔ اس کے جواب میں نریندر مودی کی حکومت نے کسی کینیڈین سفارتکار پر کوئی سنگین الزام تو نہیں لگایا مگر ایک سفارتکار کی سرگرمیوں کو ناپسندیدہ قرار دے اسے فوراً بھارت چھوڑنے کا حکم دے دیا۔
نریندر مودی کی حکومت تو کینیڈین سفارتکار پر کوئی سنگین الزام عائد نہ کر سکی مگر جسٹن ٹروڈو کی حکومت نے بھارتی انٹیلی جنس ایجنسیوں پر کینیڈا میں ایک کینیڈین شہری کو قتل کرنے کا جو الزام لگایا وہ سیدھا سیدھا ریاستی دہشت گردی کا الزام ہے۔ بھارت پر یہ الزام کینیڈین حکومت کے کسی ترجمان نے نہیں بلکہ وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو نے بذات خود لگایا۔ ٹروڈو نے نریندر مودی کی حکومت پر یہ الزام 18ستمبر کو عائد کیا مگر ایسا کرتے ہوئے انہوں نے یہ بھی کہا کہ بھارت میں 9اور 10ستمبر کو منعقدہ جی 20 کانفرنس میں شرکت کے موقع پر میں نے بھارتی وزیر اعظم کو یہ باور کرا دیا تھا کہ ان کی ایجنسیاں کینیڈا کی زمین پر ایک کینیڈین شہری کے قتل میں ملوث ہیں۔ ٹروڈو کی طرف سے یہ الزام عائد کیے جانے کے بعد بعض بھارتی اور غیر بھارتی حلقوں کی طرف سے یہ کہا گیا کہ کینیڈا میں الیکشن سر پر آچکے ہیں اور جسٹن ٹروڈو کیونکہ اب ماضی کی طرح اپنے عوام میں مقبول نہیں رہے لہذا انہوں نے سیاسی فائدہ حاصل کرنے کے لیے بھارت پر ہردیپ سنگھ نجر کے قتل کا الزام لگایا۔ بھارتی اور غیر بھارتی حلقوں کا یہ موقف اس وقت پراپیگنڈہ ثابت ہو ا جب یہ حقائق سامنے آئے کہ ہردیپ سنگھ نجر کے قتل میں بھارتی ایجنسیوں کے ملوث ہونے کا سراغ کینیڈین ایجنسیوں نے ذاتی طور پر نہیں لگایا بلکہ یہ کام فائیو آئیز نام کی اس انٹیلی جنس تنظیم نے کیا ہے جو پانچ انگریزی زبان بولنے والے ملکوں امریکہ، کینیڈا، برطانیہ ، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ نے مشترکہ مفادات کے تحت بنائی تھی۔ ان پانچ ملکوں میں سے تین ملک امریکہ ، کینیڈا اور برطانیہ نہ صرف جی سیون بلکہ ناٹو کا بھی حصہ ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ دنیا میں تیزی سے ترقی کرنے والی معیشت کے طور پر بھارت نے امریکہ اور یورپی یونین میں شامل ملکوں کی نظر میں اتنا اہم مقام حاصل کر لیا ہے کہ وہ اسے اپنے مستقل کے معاشی پارٹنر کے طور پر دیکھنا شروع ہو گئے ہیں ۔ بھارت کی اس اہمیت کے باوجود بھی اگر ان ملکوں نے کینیڈین سکھ شہری کے قتل پر تحفظات کا اظہار کیا ہے تو صاف ظاہر ہے کہ بھارت پر ہردیپ سنگھ نجر کے قتل کے الزام کو بے بنیاد نہیں سمجھا جاسکتا۔ امریکہ ، برطانیہ اور آسٹریلیا نے کینیڈا کی طرح بھارت کے لیے سخت الفاظ میں اپنے تحفظات کا اظہار تو نہیں کیا مگر ان کے ترجمانوں نے یہ کہنے میں بھی دریغ نہیں کیا کہ انہیں کینیڈین شہری کے قتل پر سخت تشویش ہے اور وہ اس معاملہ کو گہری نظر سے دیکھ رہے ہیں۔
بھارتی ایجنسیوں پر کینیڈا میں ہردیپ سنگھ نجر کو قتل کرنے کا الزام، ریاستی دہشت گردی کا الزام ہونے کی وجہ سے زیادہ سنگین سمجھا جارہا ہے۔ مہذب دنیا میں ریاستی دہشت گردی کو کسی طرح بھی غیر ریاستی دہشت گردی سے کم نفرت انگیز اور کم قابل مذمت نہیں سمجھا جاتا۔ یہ بات انتہائی عجیب ہے کہ بھارت اگر کسی عالمی فورم میں شریک ہو تو اس کے اعلامیے میں دہشت گردی کی مذمت کے نکات شامل کروانے میں پیش پیش ہوتا ہے ۔ گزشتہ دنوں بھارت میں جو جی ٹونٹی کانفرنس منعقد ہوئی اس کے اعلامیے میں بھارت نے خاص طور پر یہ نکتہ شامل کیا کہ دہشت گردی عالمی امن اور سلامتی کے لیے سنگین ترین سمجھے جانے والے خطرات میں سے ایک ہے لہذا دہشت گردی کی کارروائیوں کا محرک چاہے جو بھی ہو اور یہ کارروائیاں جب بھی جہاں بھی اور جس کسی نے بھی کی ہوں، انہیں بلاجواز مجرمانہ عمل کے علاوہ کچھ اور نہیں سمجھا جا سکتا۔ جو بھارت عالمی و علاقائی اعلامیوں میں دہشت گردی کے خلاف نکات شامل کرانے میں پیش پیش ہوتا ہے اسے عالمی سطح پر ہردیپ سنگھ نجر کے قاتل کے طور پر ریاستی دہشت گردی کے الزامات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
کینیڈا کی طرف سے بھارت پر ہردیپ سنگھ نجر کے قتل کا واضح الزام عائد کیے جانے کے بعد 6مئی کو پاکستان میں قتل ہونے والے خالصتان تحریک سے وابستہ سکھ لیڈر پرمجیت سنگھ پنجوار اور برطانیہ میں 16جون کو قتل کئے گئے اوتار سنگھ کھانڈا کی غیر طبعی اموات کے لیے بھی بھارت پر انگلیاں اٹھنا شروع ہو گئی ہیں۔
بھارت میں اگست 2020سے دسمبر2021تک جاری رہنے والی کسان تحریک کے بعد خالصتان کے قیام کی تحریک نے پھر سے سر اٹھانا شروع کر دیا تھا۔ بھارتی ایجنسیوں نے اپریل 2023میں امرت پال سنگھ نام کے ایک سکھ نوجوان کو خالصتان تحریک سے تعلق کے الزام میں پنجاب سے گرفتار کر کے آسام کی جیل میں بند کیا ۔ کہا جارہا ہے کہ پھر سے سر اٹھانے والی خالصتان تحریک کو دبانے کے لیے بھارتی ایجنسیوں کے ایجنڈے میں امرت پال جیسے کئی مقامی سکھوں کی گرفتاریوں کے ساتھ ہردیپ نجر جیسے بیرون ملک مقیم خالصتان کے حامیوں کو قتل کرنا بھی شامل تھا۔ ہردیپ نجر کے قتل کے بعد بھارت کو جس قسم کے عالمی رد عمل کا سامنا کرنا پڑا ہے اس کے بعد بھارتی ایجنسیوں کے لیے بیرون ملک اپنے ایجنڈے پر کام کرنا ممکن نہیں ہو سکے گا۔ اب یہ آنے والا وقت بتائے گا کہ ان تمام باتوں کا بھارت میں جاری تیز رفتار معاشی ترقی پر کیا اثر پڑتا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button