ColumnRoshan Lal

سرد مہر سیاست بجانب گرمجوش سیاست

تحریر : روشن لعل
نو مئی کا واقعہ رونما ہونے سے قبل ملکی سیاست کا درجہ حرارت انتہائوں پر تھا۔ وہ بھی کیا زمانہ تھا جب ایک طرف سے پی ٹی آئی کا کوئی کف آور جلالی انسانیت کا جنازہ نکالتے ہوئے حملہ آور ہوتا تو دوسری طرف سے اتحادی حکومت کا جوشیلا، تہذیب کی تمام حدیں پا ر کر کے اسے ترکی بہ ترکی جواب دینے کی کوشش کرتا ۔ نو مئی کے روز اپنی تمام تر اگلی پچھلی توانائیاں خرچ کر نے کے بعد پی ٹی آئی کے جلالی ایسے غائب ہوئے کہ ان کے جہان سے اٹھنے کا گمان ہونے لگا۔ اس کے بعد اتحادی حکومت کے جوشیلے ترجمانوں نے میدان کھلا دیکھ کر کھل کھیلنے کی بہت کوشش کی مگر بجلی، گیس ، پٹرول اور ادویات جیسی اشیا کی قیمتوں میں آئے روز ہونے والے ناقابل برداشت اضافے نے ان کی باتوں کی کوئی وقعت نہ رہنے دی۔۔ ایسے حالات میں عدالتوں کے اندر اور باہر پی ٹی آئی کی وکالت کرتے ہوئے اعتزاز احسن اور لطیف کھوسہ نے ماحول گرمانے کی اپنی سی کوشش کی مگر ان سے فواد چودھری، شہباز گل، مراد سعید، عثمان ڈار، شہر یار آفریدی، علی زیدی اور فیصل جاوید جیسے لوگوں کی طرح رنگ نہ جمایا جاسکا۔ پی ٹی آئی کے مذکورہ بڑبولے لوگوں کی آوازیں پاتال میں گم ہو جانے کے باوجود بھی اتحادی حکومت کی مدت پوری ہونے تک سیاست میں کسی نہ کسی حد تک گرما گرمی دیکھنے کو ملتی رہی مگر نگران حکومت قائم ہونے کے بعد تو ایسے لگا جیسے ہماری سیاست کو سرد خانوں کی نظر کرنے کی تیاریاں کی جارہی ہیں۔ صاف نظر آرہا تھا کہ معاملات نوے روز میں عام انتخابات کرانے کی آئینی پابندی کے برعکس کچھ کرنے کی طرف لے جائے جارہے ہیں مگر اس پر ایسی خاموشی دیکھنے میں آرہی تھی جیسے انتخابی عمل کے ساتھ یہاں جو کچھ بھی کیا گیا اسے سب آسانی سے قبول کر لیں گے ۔ حکومت کی آئینی مدت پوری ہونے سے چند روز قبل جب مشترکہ مفادات کونسل نے نئی مردم شماری کی منظوری دی تو اسی وقت یہ تبصرے شروع ہو گئے کہ اب الیکشن 90روز کے اندر ممکن نہیں ہو سکیں گے کیونکہ آئینی تقاضوں کے مطابق نئی مردم شماری کی منظوری کے بعد نئی حلقہ بندیاں کرنے کے بعد عام انتخابات کرائے جانے ضروری ہیں۔ اس طرح کے تبصروں پر پیپلز پارٹی پہلے تو خاموش رہی مگر 25اگست کو ہونیوالی اس کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کی میٹنگ میں 90روز کے اندر الیکشن کے انعقاد کا مطالبہ سامنے آگیا ۔
نگران وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ نے 15اگست کو اپنے عہدے کا حلف لیا اور اس سے پہلے 5اگست کو مشترکہ مفادات کونسل نے نئی مردم شماری کی منظوری دی، یہ کام ہونے پر 9اگست کو سابق وزیر اعظم شہباز شریف نے آئینی طورپر قومی اسمبلی اور اپنی حکومت ختم کر دی۔ 5اگست کو ہونیوالی مشترکہ مفادات کونسل کی میٹنگ سے، 25اگست کو پیپلز پارٹی کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کی میٹنگ کے انعقاد تک یہاں یہی محسوس ہوتا رہا کہ و نوے روز میں عام انتخابات کے منعقد ہونے یا نہ ہونے سے کسی کو کوئی سروکار نہیں ہے مگر اس کے بعد صورتحال تبدیل ہونا شروع ہوگئی۔ پیپلز پارٹی کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کی میٹنگ میں نوے روز کے اندر انتخابات کے انعقاد کا مطالبہ کئے جانے سے قبل اگر یہاں سیاست سرد مہری کا شکار ہو چکی تھی تو بعد ازاں اس میں گرمجوشی آنا شروع ہوگئی۔ پیپلز پارٹی کی طرف سے نوے روز میں انتخابات کے مطالبے پر مسلم لیگ ن کی دوسرے درجے کی قیادت نے دبے لفظوں اور محتاط انداز میں جو رد عمل دیا اس سے یہ ظاہر ہوا کہ انہیں پی پی پی کا اس طرح مطالبہ کرنا ناگوار گزرا ہے۔ اس حوالے سے یہ باتیں سامنے آئیں کہ پی پی پی اور ن لیگ کی ایک دوسرے کے لیے ناگواری نگران وزیر اعظم کے نام پر عدم اتفاق کی وجہ سے شروع ہوئی۔ کہا جاتا ہے کہ پیپلز پارٹی کی قیادت نے اس دوران یہ محسوس کیا کہ عمران حکومت کے خلاف تحریک کے دوران جس طرح ان کی جماعت کو پی ڈی ایم سے نکال کر تنہا کر دیا گیا تھا اسی طرح اتحادی حکومت ختم ہونے کے بعد ایک مرتبہ پھر اسے تنہا کرنے کی کوششیں شروع ہو چکی ہیں۔ پیپلز پارٹی کے لوگوں کا یہ احساس اس وقت مزید پختہ ہوا جب ان کے کچھ سابق وزیروں کے خلاف سوشل میڈیا پر اچانک یہ پراپیگنڈا شروع ہوگیا کہ ان کے گھروں سے کرپشن کے اربوں روپے برآمد کر لیے گئے ہیں۔ اس پراپیگنڈے کو پھیلانے میں جس طرح سوشل میڈیا پر مصروف کچھ خاص لوگوں نے خاص کردار ادا کیا اس سے یہ ظاہر ہوا کہ پیپلز پارٹی کی طرف سے نوے دنوں میں الیکشن کا مطالبہ صرف ن لیگ ہی نہیں بلکہ سیاسی انجینئرنگ کی طرف مائل کچھ اور لوگوں کو بھی ناگوار گزرا ہے۔
اتحادی حکومت کے آخری دنوں سے اب تک جو کچھ ہوا اس سے یہ تو ظاہر ہو گیا کہ ن لیگ اور سیاسی انجینئرنگ کرنے پر قدرت رکھنے والے پیپلز پارٹی سے خوش نہیں ہیں مگر اسی دوران مولانا فضل الرحمان نے میڈیا پرسنز سے بات کرتے ہوئے جو بیان دیا اس سے یہ پتہ چلا کہ انہوں نے اپنا وزن کس پلڑے میں ڈالا ہے۔ اس وقت الیکشن کے انعقاد کے ضمن میں جو باتیں ہو رہی ہیں ان میں اپنا حصہ ڈالتے ہوئے مولانا فضل الرحمان نے کہا انتخابات فروری کے آخر تک منعقد ہو جائیں گے ۔ اس کے بعد انہوں نے یہ عجیب و غریب بات کی کہ اختر مینگل اور ایم کیو ایم سمیت سب نے اتفاق رائے سے فوری الیکشن کا فیصلہ کیا تھا مگر پیپلز پارٹی آخری وقت میں فیصلے سے پھر گئی اور تحریک عدم اعتماد لانے پر زور دیا ، اگر پیپلز پارٹی ایسا نہ کرتی تو اب تک الیکشن ہو چکے ہوتے۔ مولانا فضل الرحمان نے جو باتیں کیں ا ن میں تسلسل نہ ہونے کے ساتھ ابہام بھی صاف نظر آرہا ہے ۔ ان مبہم باتوں کے بعد بلاول بھٹو زرداری کا بھی ایک بیان سامنے آیا جسے ان کا پالیسی بیان کہا گیا۔ بلاول نے اپنے پالیسی بیان میں یہ کہا کہ کٹھ پتلیاں مسلط کرنا بند کر کے عوام کو 90دن میں فیصلہ کرنے دیا جانا چاہیے لہذا الیکشن کمیشن فورا الیکشن شیڈیول کا اعلان کر ے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ جو لوگ نیب کے جھوٹے چھاپوں کی خبریں اڑا رہے ہیں وہ اصل میں الیکشن سے بھاگنا چاہتے ہیں۔ جیلوں کے اندر موجود سیاسی لوگوں کے متعلق پوچھے گئے سوال کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا اس ملک میں سیاسی قیدی کے طور پر آصف علی زرداری نے سب سے زیادہ عرصہ جیل میں گزارا ، اب جو سیاسی لوگ جیلوں میں ہیں وہ اسے اپنی سیاسی ٹریننگ سمجھیں ۔ عدم اعتماد والی بات پر انہوں نے کہا وہ فی الحال مولانا فضل کی باتوں کا جواب نہیں دینا چاہتے۔ گو کہ بلاول نے مولانا فضل الرحمان کی بات کا جواب نہیں دیا مگر جس سیاق و سباق میں انہوں نے اپنی باتیں کیں اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ سرد مہری کا شکار ہورہی سیاست اب پھر سے گرمجوشی کی طرف گامزن ہو چکی ہے۔ اس سیاسی گرمجوشی کے دوران صرف مختلف سیاسی جماعتیں ہی نہیں بلکہ زرداری اور بلاول کی پیپلز پارٹیاں بھی آمنے سامنے نظر آنا شروع ہو گئی ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button