ColumnRoshan Lal

پرانے بحران نئے روپ میں

روشن لعل
یہ یاد نہیں کہ وطن عزیز کو کب کسی نے پہلی مرتبہ، بحرانوں کی سرزمین کہا ، ہاں مگر یہ بات بھلائی نہیں جاسکتی کہ عرصہ دراز سے لکھاریوں کو پاکستان کا نام بحرانوں کے ساتھ جوڑنے کے مواقع اکثر دستیاب ہوتے رہتے ہیں۔ عجیب بات ہے کہ مختلف وقفوں کے بعد جو بحران نمودار ہوتے ہیں ان میں سے کوئی بھی نیا نہیں ہوتا، ہر مرتبہ ایسا ہوتا ہے کہ کوئی پرانا بحران پھر کسی نئے روپ میں سامنے آجاتا ہے ۔ ایسے بحرانوں میں سے چینی کا بحران سرفہرست ہے۔ گزشتہ کئی دہائیوں سے چینی کے ہر بحران کے دوران یہ ہوتا ہے کہ شروع میں چینی دکانوں سے غائب ہوتی ہے ، اس کے بعد یہ خبریں سامنے آتی ہیں کہ افغانستان سمگل کیے جانے کی وجہ سے چینی ملک میں کمیاب ہو گئی ۔ اس طرح کی خبریں سامنے آنے کے بعد چینی کی قیمتوں میں تیز رفتار اضافہ شروع ہو جاتا ہے ۔ میڈیا اس موضوع پر تند و تیز لب و لہجہ میں خبریں نشر کرنا شروع کر دیتا ہے۔ اس کے بعد جو بھی اپوزیشن ہو اس کی طرف سے یہ بیانات سامنے آتے ہیں کہ چینی بنانے والے کارخانوں کے مالکان نے حکومت کی ملی بھگت سے اس سٹاک میں سے چینی برآمد کر کے زرمبادلہ کی شکل میں کمائی کی جو ملکی ضرورت سے زیادہ نہیں تھا۔ ایسی صورتحال میں سٹہ باز طلب کی نسبت رسد میں مصنوعی کمی کا انتظام کرتے ہوئے قیمتوں میں من چاہا اضافہ کر کے ناجائز منافع کماتے ہیں۔ آج بھی ملک میں چینی کے بحران کے حوالے سے کچھ ایسی ہی صورتحال ہے ۔ چند ماہ پہلے تک جو چینی سو روپے سے کم قیمت پر دستیاب تھی اب اس کی قیمت بعض علاقوں میں دوسو روپے سے بھی زیادہ وصول کی جارہی ہے اور کچھ علاقوں میں تو چینی کسی قیمت پر بھی دستیاب نہیں ہے۔ چینی کے اس بحران کا ذمہ دار کچھ لوگ تو سابقہ اتحادی حکومت کے اس فیصلے کو سمجھتے ہیں جس کے تحت ملک میں موجود چینی کے سٹاک کو ضرورت سے زیادہ قرار دے کر برآمد کرنے کی اجازت دی گئی۔ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ بحران چینی کی سمگلنگ کی وجہ سے پیدا ہوا جبکہ بعض لوگ سٹے بازی کو اس بحران کی وجہ مانتے ہیں۔ چینی کی طلب اور رسد میں شدید عدم توازن کی وجہ سے اس وقت جو بحران نظر آرہا ہے اس کے لیے اگر یہ کہا جائے کہ اس کے لیے زیادہ غور و فکر کیے بغیر کی گئی برآمد ، سمگلنگ اور سٹے بازی نے مل جل کر کردار ادا کیا تو غلط نہ ہوگا۔
واضح رہے کہ شوگر مل مالکان نے رواں برس کے ابتدائی مہینوں میں یہ دعویٰ کیا تھا کہ 2022کے کرشنگ سیزن میں شوگر ملوں نے مجموعی طور پر چینی کی 8ملین میٹرک ٹن ریکارڈ پیداوار کی جس کی وجہ سے ان کے سٹاک میں ملکی ضرورت سے دو ماہ زائد تک کی چینی موجود ہے۔ یہ دعویٰ کرتے ہوئے انہوں نے حکومت کو دیئے گئے اعداد و شمار کی بنیاد پر یہ مطالبہ کیا کہ انہیں ملکی ضرورت سے زائد چینی برآمد کرنے کی اجازت دی جائے تاکہ ملک کو قیمتی زرمبادلہ حاصل ہو سکے۔ اس معاملہ پر غور کرنے کے لیے سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی زیر صدارت اقتصادی رابطہ کمیٹی کا اجلاس ہوا جس میں وزیر تجارت نوید قمر نے بھی شرکت کی ۔ اس کمیٹی نے شوگر مل مالکان کے دعویٰ کو سچ مانتے ہوئے انہیں چینی برآمد کرنے کی اجازت دی جس کے بعد دو لاکھ پچاس ہزار میٹرک ٹن چینی بر آمد کر دی گئی۔
اگر یہ مان لیا جائے کہ موجودہ بحران کی وجہ برآمد کی گئی 250000میٹرک ٹن چینی ہے تو پھر اس سوال کا جواب کون دے گا کہ جب برآمد کی گئی چینی کی مقدار ملین میں 0.25میٹرک ٹن ہے تو پھر نگران حکومت نے ایک ملین میٹر ک ٹن چینی جس کی مقدار برآمد کی گئی چینی سے 0.75ملین میٹرک ٹن زیادہ ہے درآمد کرنے کا کیوں کہا ۔ اس سوال کا جواب شاید موجودہ نگران حکومت کے ترجمان یا پھر وہ لوگ نہ دے سکیں جو موجودہ بحران کا ذمہ دار صرف سابقہ اتحادی حکومت کے چینی برآمد کرنے کے فیصلے کو قرار دیتے ہیں۔ اس سوال کا بالواسطہ جواب 29اگست 2023کو نشر ہونے والی اس خبر میں تلاش کیا جاسکتا ہے جس میں کہا گیا تھا کہ بلوچستان کے ضلع شیرانی کے ایس پی منظور احمد بلیدی نے چھاپہ مار کر 15ایسے ٹرک پکڑے جن کے ذریعے 8000چینی کی بوریاں افغانستان سمگل کی جارہی تھیں۔ اسی طرح کی ایک خبر 2ستمبر 2023کو بھی شائع ہوئی جس میں کہا گیا کہ کسٹم حکام نے 20ٹرکوں کے ذریعے 700ملین روپے مالیت کی چینی افغانستان سمگل کرنے کی کوشش ناکام بنا دی۔ یہ بات حیران کن ہے کہ جن خبروں میں چینی کی سمگلنگ ناکام بنانے کی اطلاع دی گئی ان میں کسی سمگلر کی گرفتاری کا کہیں ذکر نہیں ہے۔ مزید حیران کن بات یہ بھی ہے کہ قبل ازیں یہ خبریں تو پڑھنے اور سننے کو ملتی رہیں کہ سابقہ وزیر اعظم شہباز شریف نے چینی کے سمگلروں کے خلاف کریک ڈائون کا حکم دیا ہے مگر ایسے سمگلروں کی پکڑ دھکڑ کی خبر کبھی سامنے نہ آئی۔
پاکستان میں آج تک چینی کے جتنے بھی بحران سامنے آئے ان کے متعلق یہ بات طے ہے کہ چینی چاہے برآمد نہ بھی کی گئی ہو مگر سمگلنگ اور سٹہ بازی کا ان بحرانوں میں ضرور کردار ہوتا ہے۔ چینی کی تجارت میں سٹہ دو طرح سے کھیلا جاتا ہے۔ ایک تو سٹے باز شوگر مل والوں کے ساتھ یہ طے کرتے ہیں کہ وہ مل کو ایک بیعانہ ادا کر نے کے بعد آنے والے دنوں یا مہینوں میں اپنا مال اٹھا لیں گے۔ دوسرے طریقے میں چینی کے تاجر آپس میں چینی کا سودا کر لیتے ہیں جس میں نہ بیعانہ شامل ہوتا ہے اور نہ ہی چینی کو اٹھایا جاتاہے۔ مارکیٹ میں چینی کا جو بھی نرخ چل رہا ہو سٹے باز اس سے زیادہ قیمت پر مستقبل کے سودے کرنا شروع کر دیتے ہیں ، اس طرح کی سودے نہ صرف مل مالکان کے ساتھ بلکہ سٹہ باز آپس میں بھی کرتے ہیں۔ ان سودوں کے انجام کار میں مصنوعی قلت پیدا کر نے کے بعد قیمتوں میں من مانا اضافہ کر کے کسی قسم کی سرمایہ کاری کیے بغیر ناجائز منافع حاصل کیا جاتا ہے۔
اس وقت پاکستان میں چینی کا جو بحران چل رہا ہے اس کے لیے لوگ بیک وقت، چینی کی غیر ضروری برآمد ، سمگلنگ اور سٹہ بازی سمیت سب کو یا ان میں سے کسی ایک کو مودر الزام تو ٹھہرا رہے ہیں مگر نہ جانے کیوں اس وجہ کا ذکر کرنے سے ہچکچا رہے ہیں جو مذکورہ تینوں کاموں کی راہ ہموار کرتی ہے ۔ یہ وجہ ہے پاکستان میں معیشت کا غیر دستاویزی ہونا ہے۔ غیر دستاویزی معیشت ہونے کی وجہ سے یہاں لوگوں کو کوئی ڈر نہیں کہ سمگلنگ ، سٹہ بازی یا وافر سٹاک کے جھوٹے دعوے سے چینی برآمد کر کے انہیں جو کالا دھن حاصل ہوگا اس کی ان سے کوئی باز پرس کر سکے گا۔ لہذا غیر دستاویزی معیشت ہونے کی وجہ سے یہاں آئندہ بھی پرانے بحران نئے روپ میں سامنے آتے رہیں گے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button