ColumnRoshan Lal

مہنگائی، احتجاج اور احتجاج کرنے والے

تحریر : روشن لعل
ہمارے عوام پر منطبق فرضی قصوں میں سے ایک قصہ یہ بھی ہے کہ کسی ریاست کے ظالم بادشاہ نے رعایا پر ظلم کی انتہا کرنے کے بعد جب کہیں سے بھی اپنے خلاف احتجاج کی آواز بلند ہوتے نہ دیکھی تو اپنے وزیر خاص کو بلا کر کہا کہ وہ آخر مزید ایسا کیا کرے کہ اس کی رعایا رحم کی بھیک مانگنے کے لیے بلبلاتے ہوئے اس کے پاس چلی آئے۔ وزیر موصوف نے کہا کہ رعایا پر ٹیکسوں کی بھر مار تو ہو چکی اب صرف یہ ہونا باقی ہے کہ ان کے کام پر جانے والے راستے پر ٹیکس وصولی کے ساتھ انہیں دس جوتے مارنے کا حکم نامہ بھی جاری کیا جائے۔ بادشاہ نے حکم نامہ جاری کیا جس پر عمل درآمد شروع ہونے کے کچھ دنوں بعد اس کی رعایا کا ایک نمائندہ وفد بادشاہ سے ملنے کا خواستگار ہوا۔ جب ان کی بادشاہ سے ملاقات ہوئی تو بادشاہ کی توقع کے خلاف انہوں نے خود کو جوتے مارنے پر احتجاج نہیں کیا بلکہ صرف یہ کہا کہ شاہ مکرم ہم آپ کی خدمت میں صرف یہ کہنے کے لیے حاضر ہوئے ہیں کہ برائے مہربانی جوتے مارنے والوں کی تعداد میں اضافہ کر دیا جائے تاکہ جوتے مارنے پر مامور لوگوں کی تعداد کم ہونے کی وجہ سے انہیں جوتے کھانے کے لیے لمبی لائن بنا کر اپنی باری کا انتظار نہ کرنا پڑے اور ان کے کام پر جانے کا قیمتی وقت ضائع نہ ہو ۔ ایک عرصہ سے مذکورہ قصہ سنائے جانے کے بعد یہ کہا جارہا تھا کہ پاکستانی عوام کا شعور بھی ظالم بادشاہ کی رعایا جیسا ہے جو ظلم سہتے رہنے کے باوجود یا تو احتجاج سے گریز کرتے رہتے ہیں اور اگر کبھی احتجاج کی طرف مائل ہو بھی جائیں تو ان کا مطالبہ صرف جوتے مارنے والوں کی تعداد میں اضافہ کئے جانے تک محدود رہتا ہے۔
کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ وہ دن گزر گئے جب پاکستان کے عوام یاتو ظالمانہ ٹیکسوں کی بھرمار پر خاموش رہتے تھے یا پھر جوتے مارنے والے بندوں کی تعداد میں اضافہ کرنے جیسی فرمائشیں کیا کرتے تھے۔ جو لوگ یہ کہتے ہیں وہ اپنے موقف کے حق میں گزشتہ کچھ روز سے بجلی، گیس اور پانی کے بلوں میں ناقابل جواز اضافے اور مجموعی طور پر جان لیوا مہنگائی کے خلاف شروع ہونے والے احتجاجی مظاہروں کو مثال بنا کر پیش کرتے ہیں۔ یہ بات درست ہے کہ خاص طور پر بجلی کے بلوں میں بے تحاشا اور ناقابل جواز اضافے پر پاکستانی عوام اس حد تک سیخ پا ہیں کہ انہوں نے نہ صرف اس اضافے کے خلاف تقریباً ہر شہر میں مظاہرے کئے بلکہ ان مظاہروں کے دوران بڑی تعداد میں بجلی کے بل بھی جلائے۔ عوام کے اس طرح کے احتجاجی رویے حکومتوں کو یہ باور کرانے کے لیے ہوتے ہیں کہ اگر ان کی مشکلات اور پریشانیوں کا احساس کرتے ہوئے ان کے دکھوں کا مداوا نہ کیا گیا تو احتجاجی مظاہرے ، پرتشدد ہنگاموں میں بھی تبدیل ہو سکتے ہیں۔ حکمرانوں کو عوام کی تکلیفوں کا احساس ہونا چاہیے مگر جاری احتجاج کے دوران ابھی تک ایسا دیکھنے میں نہیں آیا۔ بجلی کی قیمتوں میں بے تحاشا اضافہ کی وجہ سے عوام پر جو بیت رہی ہے ، اگر حکومت کو اس کا ذرا سا بھی احساس ہوتا تو وہ جاری احتجاجی مظاہروں کے دوران پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ریکارڈ اضافے کا اعلان ہر گز نہ کرتی۔
اب یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر احتجاج کا حکومت پر کوئی اثر نہیں ہورہا تو پھر ایسے غیر موثر احتجاج پر کوئی کیوں انحصار کرے۔ اس سوال کے ساتھ ساتھ یہ بات بھی غور طلب ہے کہ بجلی کی قیمتوں میں جس ظالمانہ اضافہ کو جواز بنا کر احتجاج کیا جارہا ہے کیا وہ اضافہ غیر متوقع ہے ۔ یہ اضافہ ہر گز غیر متوقع نہیں ہے کیونکہ عمران خان کے دور حکومت میں آئی ایم ایف سے قرض لینے کے لیے اس ادارے کے ساتھ جو معاملات طے کئے گئے تھے ان سے یہ حقیقت اسی وقت عیاں ہو گئی تھی کہ اگر حسب سابق اشرافیہ کو رعایتیں دی جاتی رہیں تو قرض اتارنے کا تمام تر بوجھ غریب عوام اور درمیانہ طبقہ کے کندھوں پر ڈالا جائے گا۔ اس بات کو طرفہ تماشا کے علاوہ اور کیا سمجھا جائے کہ یہ باتیں تو بہت پہلے سامنے آگئی تھیں کہ آئی ایم ایف نے اپنے قرض کی واپسی کے لیے عمران حکومت کو اپنا جو ترجیحی پلان دیا اس میں کہا گیا تھا کہ فوری طور پر معیشت کو دستاویزی بنایا جائے، ٹیکس نیٹ کو بڑھانے کے لیے خود تشخیصی نظام کی بجائے اصل آمدن پر انکم ٹیکس کی وصولی شروع کی جائے اور اسی طرح پاکستان میں سرمایہ کاری کے لیے پسندیدہ سمجھے جانے والے رئیل اسٹیٹ جیسے شعبوں کو بھی ٹیکس نیٹ کا حصہ بنایا جائے ۔ اپنے قرض کی واپسی کے لیے آئی ایم ایف کے دیئے گئے ترجیحی پلان کو نہ تو عمران خان کی حکومت اور نہ اس کے بعد بننے والی اتحادی حکومت نے در خور اعتنا سمجھا اور بجلی ، گیس اور پانی وغیرہ کے بلوں کے ذریعے عام لوگوں سے زیادہ سے زیادہ بالواسطہ ٹیکس وصول کرنے کی دہائیوں سے چلی آرہی پالیسی پر عمل درآمد جاری رکھا۔ اس پالیسی پر عمل درآمد کا نتیجہ اس کے علاوہ اور کیا ہوسکتا تھا جو آج کل بجلی کی قیمتوں میں ظالمانہ اضافہ کی شکل میں ظاہر ہو رہاہے۔
بجلی کی قیمتوں میں ظالمانہ اضافہ ہونے پر جو لوگ آج باہر نکلے ہیں اور خود کو ملک کے مسائل کے واحد حل کے طور پر پیش کرتے ہوئے عام لوگوں کو احتجاج کرنے پر اکسا رہے ہیں آخر یہ احتجاج ان لوگوں نے اس وقت کیوں شروع نہ کیا جب یہ بات صاف نظر آرہی تھی کہ حکومتیں ، ملک کے دیوالیہ ہونے کی قریب پہنچنے کے باوجود ہمیشہ کی طرح اشرافیہ کو استثنا دیتے ہوئے تیزی سے انحطاط پذیر معیشت کو سنبھالنے کا تمام تر بوجھ عام آدمی پر ہی ڈالیں گے۔
بجلی کے بلوں کو چھری کی طرح استعمال کرتے ہوئے عوام کو جس طرح قربانی کا بکرا بنایا جارہا ہے اس قربانی کی تیاریاں بہت پہلے مکمل کر لی گئی تھیں۔ جن لوگوں کے سروں پر آج احتجاج کا بھوت سوار ہے ان سے یہ سوال پوچھنا واجب ہے کہ اب جو کچھ ہوا ہے جب اس کا ہونا بہت پہلے سی طے تھا تو یہ لوگ آخر کس کے دبائو کی تحت مناسب وقت پر احتجاج کرنے سے گریز کرتے رہے۔ آج یہ لوگ عوام کو احتجاج کے لیے اکسا تو رہے ہیں مگر کہیں نظر نہیں آرہا ہے کہ ان کے احتجاج کا نتیجہ عام آدمی کی داد رسی کی شکل میں برآمد ہو سکتا ہے۔ ان کے احتجاج سے جو تشدد برآمد ہو سکتا ہے اس کا شکار بننے کا امکان بھی کسی بڑی مچھلی کا نہیں بلکہ لائن مین، میٹر ریڈر اور بل کلرک جیسے لوگوں کاہے۔ جس احتجاج کے نتیجے میں عام لوگوں کے مسائل حل ہونے کی بجائے ان کے ہاتھوں اپنے ہی طبقے کے لوگوں کے نشانہ بننے کا امکان ہے، اس احتجاج کے لیے اکسانے والے لوگوں کو دیکھ کر نہ جانے کیوں سطور بالا میں بیان کی گئی کہانی کے وہ کردار یاد آجاتے ہیں جو عوامی نمائندے بن کر بادشاہ سے صرف یہ رعایت مانگنے گئے کہ اگر آپ چھتر مارنے والے لوگوں کی تعداد میں اضافہ کر دیں تو آپ کی بڑی مہربانی ہوگی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button