Columnمحمد مبشر انوار

آہنی اعصاب یا۔۔۔

محمد مبشر انوار(ریاص)
انسانی زندگی حالات واقعات کے مدوجزر پر ڈولتی، ڈوبتی، ہچکولے کھاتی یا پھر پرسکون رہتے ہوئے اختتام کو پہنچتی ہے، ان حالات و واقعات سے لڑتے، بھڑتے، سامنا کرتے انسان بارہا ٹوٹتا ہے، سنبھلتا ہے، ہمتیں جمع کرتا ہے اور اپنے مقاصد کے حصول میں کوشاں رہتا ہے۔ انفرادی طور پر ہر شخص کے مقاصد مختلف، حالات و واقعات مختلف، تکالیف و آزمائشیں مختلف، وسائل مختلف لیکن اس کے باوجود بالعموم ہمتیں برقرار رہتی ہیں اور انسان کسی نہ کسی طور اپنے مقاصد کے حصول کی تگ و دو میں رہتا ہے۔ الگ بات کہ انسان نتائج سے بے خبر، صرف کوشش کرنے کا مکلف ہے اور جو لوگ زمانے کے چیرہ دستیوں کے سامنے اپنے پورے اخلاص، تندہی اور ’’ اللہ پر یقین کامل ‘‘ کے ساتھ ڈٹے رہتے ہیں، اللہ کریم کی رحمت خاص سے انہیں کامیابی بھی عطا ہوتی ہے۔ البتہ یہ حقیقت اپنی جگہ مسلمہ ہے کہ کیا انسان اس کامیابی پر مطمئن ہو جاتا ہے یا ’’ ھل من مزید ‘‘ کا متمنی ہوتا ہے یا اللہ کے حضور کلمہ شکر ادا کرتا ہے یا جو مل جائے اس پر توکل کرتا ہے۔ یہاں یہ امر بہرکیف اہم ہے کہ آیا جستجو، ذاتی نوعیت کی ہے، گروہی صورت ہے یا ملک و قوم کی بقا و ترقی کی خاطر ہے کہ ہر صورت میں حاصل ہونے والے نتیجہ پر انسانی کیفیت ؍ ردعمل کی نوعیت مختلف ہو گی۔ یہ نہیں ہوسکتا ذاتی نوعیت کی جستجو پر بھی انسانی کیفیت کا مظاہرہ وہی ہو جو ملک و قوم کی خاطر جستجو کرنے والے کا ہو سکتا ہے کہ ذاتی نوعیت میں کردار کے مطابق، تمام تر کوشش کے بعد، ہر طرح کے حالات کے باوجود، حسب توقع نتیجہ نہ ملنے پر توکل اللہ بھی کیا جا سکتا ہے یا کلمہ شکر ادا کیا جا سکتا ہے جبکہ ملک و قوم کی خاطر جدوجہد کرنے والوں کی خواہش ملک و قوم کی ترقی کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہوتی اور نہ وہ اس سے کم پر مطمئن ہوتے ہیں الا یہ کہ اللہ کے فیصلے مختلف ہوں۔ اللہ کریم کے فیصلوں کو کسی بھی صورت غلط نہیں کہا جا سکتا کہ عالم الغیب، خبیر و بصیر ذات فقط اللہ رب العزت کی ہے، او ر اگر تمام تر جدوجہد کے باوجود ملک و قوم کی بہتری نظر نہ آئے تو یقینی طور پر سمجھ لینا چاہئے کہ کہیں نہ کہیں خرابی قوم کے اندر بھی موجود ہے، جو اس کی بہتری نہیں ہور ہی۔ اس کی انتہائی چشم کشا مثال یوں سمجھی جا سکتی ہے کہ بطور پاکستانی قوم ہم پر جو حکمران مسلط ہوئے، جو نا انصافیاں ہم پر روا ہیں، جو ظلم و ستم ہمارے ساتھ ہو رہے ہیں، کیا اس میں ہم قصوروار نہیں ہیں یا اس میں ہمارا قصور کس حد تک ہے؟ کبھی ہم نے اپنے گریبانوں میں جھانک کر دیکھا ہے، ہمارا اپنا کردار کیا ہے اور کیا اس قدر مشکل حالات کے باوجود ہم نے خود کو درست کرنے کی کوشش بھی کی ہے؟ ملک و قوم کی بہتری کے لئے کی جانے والی بابائے قوم کی کاوشوں کے باوجود، ہندو بنئی اور انگریز کی ناانصافی کی بدولت، جو پاکستان ہمیں ملا، کیا ہم اس کے حقدار تھے یا تقسیم کے فارمولے پر انصاف کیا گیا تھا یا ڈنڈی ماری گئی تھی؟ اس کے باوجود جو آزادی ہمیں نصیب ہوئی، ہم اپنے کردار کے باعث اس کی حفاظت کر پائے؟ یا قائد اعظمؒ کے بعد کسی اور رہنما میں یہ اہلیت تھی کہ وہ برصغیر کے مسلمانوں کو آزادی دلوا سکتا؟ یہ ضرور ہے کہ متحدہ پاکستان میں، فاصلوں اور نفرتوں کی خلیج کے باعث، مشرقی پاکستان ہم سے الگ ہو گیا لیکن ہم نے اس سے آج بھی کوئی سبق نہیں سیکھا۔ بدقسمتی یہ ہے کہ نہ صرف ساری خطائیں بلکہ ساری سزائیں سول حکمرانوں کا مقدر لکھی گئی ہیں، یہ امر بھی قابل قبول ہوتا اگر واقعتا سول حکمرانوں کی حکمرانی ہوتی اور ان کی پرورش کسی ’’ خاص نرسری کے مخصوص گملوں ‘‘ میں نہ ہوئی ہوتی۔ سیاسی عمل میں رکاوٹیں نہ کھڑی کی جاتی ، حقیقی سیاسی نرسری کی صحیح خطوط پر آبیاری کی جاتی، وہاں انتہا پسندی اور قبضہ کی روایت کو پروان چڑھانے کی بجائے سپورٹس مین سپرٹ کو فروغ دیا جاتا، دھونس دھاندلی کی بجائے آزادانہ رائے دہی کو قبول کیا جاتا، گفت و شنید سے معاملات کو حل کرنے پر زور دیا جاتا اور طاقت کے اظہار کی حوصلہ شکنی کی جاتی لیکن افسوس اس نرسری کو بند کرنا مناسب سمجھا گیا۔ ملکی سیاست میں بھی عدم برداشت اور ذاتی مفادات کے کلچر کو فروغ دیا گیا، دوسری سیاسی سوچ کا وجود ہی ناقابل برداشت سمجھا گیا، جمہوریت کی روح کے منافی مخالفین کو کچلنا اور اقتدار پر قابض رہنے کو ہی سیاست گردانا گیا۔ میسر معروف اور اس سیاسی سوچ کے سیاستدان آج بھی نوے کی دہائی میں رہ رہے ہیں اور مخالفین کو کچلنے کے لئے ریاستی طاقت و مشینری کا استعمال بے دریغ کرتے دکھائی دے رہے ہیں، کہ اپنے نووارد سیاسی مخالف کے خلاف مقدمات کی بھرمار اس کا واضح ثبوت ہے کہ اس کی سیاسی فعالیت کو کچہریوں کی نذر کر دیا جائے کہ نہ وہ آزاد ہو اور نہ سیاسی میدان میں ان کے خلاف نکل سکے۔ عدالتی نظام کی توقیر کا فقط ایک حوالہ کہ اس کی عالمی درجہ بندی اس کی کارکردگی کا مبینہ ثبوت ہے کہ انگریز کے زمانے کے قوانین آج بھی نافذ العمل ہیں کہ جن کا مقصد ہی فقط مخالف کو پابند سلاسل رکھنا ہے جبکہ عمران خان کے خلاف مقدمات میں جو بے ضابطگیاں دیکھنے کو مل رہی ہیں، اس امر کا واضح ثبوت ہیں کہ ایک طرف عمران خان کے سیاسی مخالف اسے میدان سیاست سے باہر رکھنا چاہتے ہیں تو دوسری طرف عدالتی کارروائی انصاف کے بجائے، ایک سیاسی خاندان و شخص خاص کی ذاتی خواہشات کی تکمیل کرتی دکھائی دیتی ہیں۔ لیول پلئینگ فیلڈ کے حصول میں ایسی ایسی عدالتی کارروائی ہو رہی ہے کہ ماہرین قانون حیران و پریشان ہے، کہ ججز اپنے دائرہ اختیار سے تجاوز کرتے دکھائی دیتے ہیں لیکن انہیں اس کی چنداں کوئی پروا ہی نہیں، ایسے ایسے فیصلے دئیے جا رہے ہیں کہ جن کی ایک آزاد و غیر جانبدار عدلیہ سے توقع ہی نہیں کی جاسکتی۔ عمران خان پر جتنے مقدمات قائم کئے جا چکے ہیں، اس کے بعد یہ توقع کرنا کہ وہ سہولت کے ساتھ اپنی سیاسی جدوجہد جاری رکھ سکے، ممکن نہیں لگتا، گو کہ خواہش کی تکمیل میں اسے پابند سلاسل کیا جا چکا ہے، سزا معطلی کے بعد اس کی ممکنہ رہائی سے قبل ہی اسے دوسرے مقدمہ میں گرفتار کر لیا گیا جو بقول ماہرین قانون ممکن نہیں۔ البتہ پاکستان میں یہ آج کے دور میں بھی ممکن ہے اور ہم نے ماضی سے سبق نہ سیکھنے کی جو قسم اٹھا رکھی ہے، اس سے روگردانی کرنے کے لئے قطعی تیار نہیں کہ ماضی میں بھی جب ایک سرپھرے سیاستدان نے آمر کے سامنے گھٹنے ٹیکنے سے انکار کیا تھا، تو اسے بھی یونہی تختہ دار پر لٹکا دیا گیا۔ موقع پرست سیاستدانوں اور ان کے حواریوں کے نزدیک، یہ حماقت تھی لیکن آہنی اعصاب کے مالک بھٹو کی یہ حماقت اسے تاریخ میں ہمیشہ ہمیشہ کے لئے امر کر چکی ہے اور اس کے مخالف آج اس حقیقت کو ببانگ دہل تسلیم تو کرتے ہیں لیکن اپنے اقتدار میں کسی دوسرے کا حصہ تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں اور وہی کردار دوبارہ ادا کرتے نظر آ رہے ہیں۔ تاریخ ان کو کن الفاظ سے یاد کرے گی، ان کا نام کس حیثیت میں لکھا جائے گا یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں کہ ایک طرف تاریخ کے صفحات پر قائداعظمؒ جیسی عظیم ترین شخصیت، ان کے ساتھ، بھٹو جیسے نابغہ روزگار اور نیلسن منڈیلا جیسے مضبوط اعصاب کی شخصیت کا نام ہو گا لیکن بیرون ملک بیٹھے سیاسی کرداروں کا نام یقینا مفرورں، بھگوڑوں اور مافیا ڈان کے نام کے ساتھ رقم ہوگا جو ہر مشکل وقت میں ’’ سمجھوتہ‘‘ کر کے جیل کی سلاخوں اور قانون کو توڑتے ہوئے بیرون ملک جانے کو ترجیح دیتے رہے۔ حیرت تو اس وقت ہوتی ہے جب جیل میں بیٹھے قیدی نمبر آٹھ سو چار کو بزدلی کا طعنہ دیا جاتا ہے حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ لیول پلئنگ فیلڈ کے حصول کی خاطر اسے بھی سمجھوتہ کرنے کے لئے توڑنے کی کوششیں جاری ہیں لیکن اٹک جیل کے قیدی نمبر آٹھ سو چار کا ماضی اس امر کا گواہ ہے کہ وہ آہنی اعصاب کا مالک ہے، جو ٹھان لے اسے پورا کرنے کی کوشش کرتا ہے، نتیجہ تو اللہ کے ہاتھ ہے۔ قائد اعظمؒ کی سخت محنت اور جدوجہد نے جو آزادی ہمیں دلوائی، آج عمران خان اس کی تکمیل کا حقیقی آزادی کا دعویٰ کرتے ہوئے، عوامی حمایت کے ساتھ نکلا ہے کہ کے پی، گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر میں جو عوامی رائے اس وقت مقتدر حلقوں سے متعلق ہے، وہ آنکھیں کھولنے کے لئے کافی ہونی چاہئے تھی لیکن ’’ سٹیٹس کو‘‘ کے حامی اس کو نظر انداز کر رہے ہیں۔ اٹک جیل کا قیدی نمبر آٹھ سو چار تقریبا ایک ماہ سے پابند سلاسل ہے اور اطلاعات یہ ہیں کہ وہ ٹوٹنے کی بجائے مزید مضبوط دکھائی دیتا ہے، واللہ اعلم بالصواب، دیکھنا یہ ہے کہ وہ اپنے آہنی اعصاب قائم رکھ پاتا ہے یا سختیوں، مظالم یا ترغیب و تحریص کے سامنے گھٹنے ٹیک کر اپنے مخالفین کی طرح بیرون ملک جاتا ہے ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button