ColumnFayyaz Malik

عوام کا میٹر شارٹ ہوگیا

فیاص ملک
بجلی کے بلوں میں ہوشربا اضافے اور بھاری ٹیکسوں کیخلاف ملک کے مختلف شہروں میں تاجر برادری سمیت عام شہری احتجاج کر رہے ہیں کہ حکومت بجلی کے بلوں سے ظالمانہ ٹیکس کٹوتیاں ختم کرے اور اگر فوری ریلیف نہ دیا گیا تو ملک گیر احتجاج کا سلسلہ وسیع کر دیا جائے گا، یقین جانئے موجودہ نظام نے جہاں اس ملک کے غریب اور سفید پوش طبقے کو بری طرح متاثر کیا وہی متمول گھرانے بھی اس کی زد میں آئے ، ملک ہر طرف بڑھتی ہوئی مہنگائی کی وجہ سے اب صرف چیخیں ہی سنائی دے رہی ہیں، اس نظام نے عوام کی زندگیاں مشکلات میں اور حکمرانوں کی زندگیاں آسانیوں میں بدل دی ہیں، اب جبکہ باڑ ہی فصل کھانے پر تلی ہو تو ایسے میں کھیت کی رکھوالی کون کرے، جب تک مراعات کا نظام یکسر نہیں بدلتا، کوئی بہتری نہیں آ سکتی، اس وقت واپڈا کے زیر سایہ الیکٹرک سپلائی کمپنیاں حقیقی معنوں میں عوام کا تیل نکال رہی ہیں، بجلی کے بھاری بلوں نے شہریوں کے ہوش اڑا دئیے ، نئے سلیب نظام، اضافی ٹیکسز اور پیک ٹائم کے گورکھ دھندوں نے صارفین کو چکرا کے رکھ دیا، نئے سلیب سسٹم اور اضافی ٹیکسوں کی وجہ سے بل ادا کرنا عام آدمی کی پہنچ سے دور ہوگیا، توقعات سے کہیں بڑھ کر بلوں کا نیا سلیب نظام کیسے ترتیب دیا گیا ہے، بجلی کے بلوں کے نئے نظام میں اعداد و شمار کی ہیرا پھیری سے صارفین آئوٹ آف بجٹ ہوگئے، اس وقت نئے سلیب سسٹم سے محض دو یونٹ کے اضافی استعمال سے آپ کا بل دوگنا ہو جاتاہے، جیسے کہ اگر آپ کا 100یونٹس بجلی کا بل 2472 روپے ہے، 102یونٹ کا بل 3511روپے ہے گویا صرف دو یونٹ آپ کے بل میں 1039روپے کا اضافہ کر رہے ہیں ۔ اسی طرح200 یونٹ والے صارف کے دو یونٹ بڑھنے سے بل میں 1300روپے اضافہ جبکہ 300والے صارف کا دو یونٹ بڑھنے سے بل میں 2300روپے کا اضافہ ہوگا۔ بعض اوقات تو محض یہ دو یونٹ کے بل پانچ ہزار سے بھی تجاوز کر جاتے ہیں، جیسے کے700یونٹ استعمال کرنے پر39690روپے بل ادا کرنا ہوگا لیکن اگر 702یونٹ استعمال کر لیے تو آپ کو ان دو یونٹس کی اضافی قیمت حقیقت میں بجلی کا 420وولٹ کا جھٹکا محسوس ہو گی کیونکہ آپ کا بل 5ہزار 294 روپے بڑھ کر 44984روپے ہو چکا ہوگا، یہی وجہ ہے کہ بجلی کے اضافی نرخوں ، نئے سلیب سسٹم اور ٹیکسوں کی بھرمار سے پریشان شہریوں کے مطابق بلوں نے انکی زندگی اجیرن کر دی ہے صارفین کا کہنا ہے کہ سلیب سسٹم اور ٹیکسوں کی وجہ سے ان کا معاشی قتل کیا جا رہا ہے، حکومت عوام کو ریلیف دینے کی بجائے آئی ایم ایف کے حکم کی بجا آواری کر رہی ہے اور غریب کا گلا دبایا جا رہا ہے، یہ وہ بلز ہیں جو اگست میں عوام کو موصول ہو چکے ہیں اور ستمبر میں موصول ہونیوالے بلز اس سے بھی زیادہ خوفناک ہو گے کیونکہ اطلاعات ہیں کہ سینٹرل پاور پرچیزنگ ایجنسی ( سی پی پی اے) نے ماہانہ فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ کی مد میں 2روپے 7پیسے اضافے کی درخواست کردی، جس سے صارفین پر 35 ارب روپے کا اضافی بوجھ پڑے گا۔ دوسری جانب بجلی کا بل ادا نہ کرنے پر لائن مین اس کھوج میں ہوتا ہے کہ آپ کسی وجہ سے بجلی کا بل ادا نہ کریں اور وہ فوری طور پر میٹر کو اتار کر آپ کو بجلی کی سہولت سے بھی محروم کر دے۔ غریبوں کو مارنے اور ان کی زندگیوں کو دکھوں سے لبریز کرنے کا حکمرانوں نے تہیہ کر رکھا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ ہمارے ملک میں قیام پاکستان سے لیکر آج تک پرانے محکمے جو اپنی تمام تر شاہ خرچیوں کے اخراجات عوام سے وصول کرنے کے باوجود باوجود ہر وقت خسارے کا رونا روتے دکھائی دیتے ہیں، ان محکموں کی فہرست کو اگر ترتیب دیا جائے تو یقینا واپڈا سر فہرست ہی ہوگا کیونکہ یہ واحد محکمہ ہے جوکہ اپنے دو لاکھ سے زائد ملازمین کو سرکاری خزانے سے تنخواہوں کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ مفت بجلی فراہم کر رہا ہے ، گزشتہ دنوں سوشل میڈیا پر یہ واپڈا کے ایک ملازم کے بل کی فوٹو شیئر کی گئی جس میں دیکھا گیا کہ اس ملازم صاحب نے 1200 یونٹ بجلی استعمال کی جس کا بل اس کو صرف 716روپے آیا ، اب سوچنے والی بات یہ ہے کہ ان واپڈا اور ڈسکو والوں کے بلوں کا بوجھ بھی مہنگائی کے مارے عوام اٹھا رہے ہیں ان کو دی جانیوالی سبسڈی کب بند ہو گی؟۔ ایک غیر مصدقہ اطلاع کے مطابق لائن مین کو ہر ماہ 150یونٹ، ایس ڈی او کی سطح پر 300یونٹ ماہانہ اور ایکسئین کی سطح کے افسر کو 1800 یونٹ ماہانہ بجلی مفت فراہم کی جا رہی ہے۔ فرض کریں کہ ان دو لاکھ میں سے پچاس ہزار افسران کو ہر ماہ 1800 یونٹ فی کس مہیا کیے جائیں توکل 9کروڑ یونٹ، اور بقیہ ڈیڑھ لاکھ ملازمین کو 150فی یونٹ مفت مہیا کیے جائیں تو کل 2.25کروڑ یونٹ یہ بھی بنتے ہیں، ان تمام اعداد و شمار سے صاف ظاہر ہے کہ کم از کم 10کروڑ ماہانہ یونٹ کا بوجھ عام صارف اٹھاتا ہے۔ لائن لاسز کے ساتھ ساتھ چوری شدہ بجلی اور واپڈا ملازمین کو مفت دی جانیوالی بجلی کی قیمت بھی غریب عوام کو برداشت کرنا پڑ رہی ہے، دیکھا جائے تو اس وقت بھی بجلی کے بل میں 13قسم کے 48 فیصد ٹیکس ہیں جو عوام کو نامنظور ہیں مگر ادا کر رہے ہیں، میں بطور پاکستانی شہری یہ اپنا حق سمجھتا ہوں کہ الیکٹرک سپلائی کمپنیوں کی جانب سے مجھ سمیت تمام صارفین کو ان 13نکاتی ٹیکسز کے سلسلہ کی وضاحت کی جائے۔1( بجلی کی قیمت ادا کر دی تو اس پر کون سا ٹیکس؟۔2) کون سے فیول پر کونسی ایڈجسٹمنٹ کا ٹیکس؟۔ 3) کس پرائس پہ الیکٹریسٹی پہ کون سی ڈیوٹی؟۔4 ) کون سے فیول کی کس پرائس پر ایڈجسٹمنٹ؟۔ 5) بجلی کے یونٹس کی قیمت ( جو ہم ادا کر چکے) پر کونسی ڈیوٹی اور کیوں؟۔6) ٹی وی کی کونسی فیس، جبکہ ہم کیبل استعمال کرتے ہیں الگ سے پیسے دیکر ۔7) جب بل ماہانہ ادا کیا جاتا ہے تو یہ بل کی کوارٹرلی ایڈجسٹمنٹ کیا ہے؟ جس کی وجہ سے تقریبا ہر ماہ بجلی کے بل آسمان سے باتیں کرنے لگتے ہیں ۔8) کون سی فنانس کی کاسٹ چارجنگ؟۔9) جب استعمال شدہ یونٹس کا بل ادا کر رہے ہیں تو کس چیز کے ایکسٹرا چارجز؟۔10) کس چیز کے اور کون سے further( اگلے) چارجز۔11) ود ہولڈنگ چارجز کس شے کے؟۔12) میٹر تو ہم نے خود خریدا تھا اس کا کرایہ کیوں؟۔13) بجلی کا کون سا انکم ٹیکس؟۔ اب ان سوالات کے جواب اب عوام کو ملیں گے یا نہیں، اس کا فیصلہ تو آنیوالا وقت کریں گا لیکن یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ اگر لامحدود سہولتیں دینے کی بجائے ان افسران اور اہلکاروں کو الأنس دے دیا جائے تویہ سب اللے تللے کم ہو جائیں گے، ہر صاحب اختیار کو ریلیف دینے کیلئے ان کی تنخواہیں مناسب حد تک بڑھا دی جائیں مگر سرکاری رہائش گاہوں کے تمام اخراجات ان کے مکینوں کے ذمہ ہوں، پٹرول اور بجلی کی مد میں اگر25سے لیکر 50ہزار روپے ماہانہ بھی دے دیئے جائیں تو یہ گھاٹے کا سودا نہیں ہوگا، جب ہر آفیسر اپنا بل اپنی جیب سے دے گا تو اس کو اپنی فضول خرچیوں کا بھی بخوبی احساس ہوگا ، جس سے اس کا رہن سہن بدل جائے گا اور اسی احساس کی ہی بدولت پٹرول اور بجلی کی کھپت آدھی رہ جائے گی ، یقین جانئے اگر یہ رسم چل نکلی تو کلچر بدل جائے گا، سرکاری اخراجات کم ہو نے کیساتھ ساتھ وسائل کا ضیاع بھی واضح طور پر رک جائے گا، جب حکومتی اور سرکاری عہدیدار مہنگائی کی آگ میں جھلستے ہوئے بجلی کے بل اور تیل کے بھائو کے صدمے سے دو چار ہوں گے تو انہیں بھی عوام کی مشکلات کا احساس ہو گا، یکجہتی اور مساوات کی فضا فروغ پائے گی جس سے روشن مستقبل کے امکانات ابھریں گے۔ یوں اس ثقافتی انقلاب کی راہیں ہموار ہو ں گی جس کا انتظار کب سے ہے اور جس کے آثار کہیں نظر نہیں آتے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button