Column

وقت کرتا ہے پرورش برسوں

روہیل اکبر
آج کے ملکی حالات دیکھتا ہوں تو قابل اجمیری کا شعر یاد آجاتا ہے:
وقت کرتا ہے پرورش برسوں
حادثہ ایک دم نہیں ہوتا
فیصل آباد کی تحصیل جڑانوالہ میں عیسائی بستی کے ساتھ جو ہوا وہ ہماری آنکھیں کھولنے کے لیے کافی تھا ویسے تو اس سے پہلے بھی بے شمار ایسے واقعات ہوئے جنہیں بنیاد بنا کر لوٹ مار کی گئی اور اب تو بڑھتی ہوئی مہنگائی نے جہاں لوگوں کی آنکھیں کھول دی ہیں۔ وہی پر سوئی ہوئی قوم نے ہوش پکڑنا بھی شروع کر دیا ہے لیکن ابھی بھی کچھ لوگ اپنے حق کی خاطر نکلنے سے ڈرتے ہیں۔ کپڑے بیچ کر عوام کو خوشیاں دینے والوں نے ملک کو اس نہج پر پہنچا دیا کہ وہ خود تو لندن چلے گئے اور عوام نے خودکشیاں شروع کر دیں اور رہی سہی کسر بجلی کے بھاری بلوں نے پوری کردی۔ پی ڈی ایم کی حکومت ڈیڑھ سال سے زائد حکمرانی کے مزے لوٹتی رہی، وہ بھی بلا شرکت غیرے۔ اپوزیشن گھر کی لونڈی تھی اور بولنے والا بھی کوئی نہیں۔ اس لیے انہوں نے کھل کر عوام کو کچلنے کا کھیل کھیلا۔ پٹرول اور ڈالر کی قیمت بڑھنے سے کاروباری طبقہ پس کر رہ گیا اور ڈیڑھ سال کے دوران بجلی کی قیمتوں میں 50سے 80فیصد تک اضافے نے عوام کی زندگیوں سے کھیلنا شروع کر دیا۔ کمرشل بلز پر 78فیصد ٹیکسز جبکہ گھریلو صارفین پر ٹیکسز کی شرح پچاس فیصد سے زائد ہوگئی۔ گزشتہ ڈیڑھ برس میں مختلف سلیبز کا ٹیرف پچاس سے اسی فیصد تک بڑھ چکا ہے۔ نان پروٹیکٹڈ گھریلو صارفین کیلئے بجلی کی قیمت اسی فیصد تک بڑھی۔ دس روپے اکیانوے پیسی اضافے کیساتھ فی یونٹ تیرہ روپے اڑتالیس پیسے سے بڑھ کر چوبیس روپے انتالیس پیسے ہوگیا۔ دو سو یونٹ تک کے بلز میں ساٹھ فیصد اضافہ ہوا ۔ جو یونٹ اٹھارہ روپے پچانوے پیسے کا تھا وہ گیارہ روپے اکیانوے پیسے اضافے کیساتھ تیس روپے چھیاسی پیسے ہوگیا۔ تین سو یونٹ والی صارفین کا ٹیرف بارہ روپے اکیانوے پیسے بڑھا، قیمت بائیس روپے چودہ پیسے سے بڑھ کر پینتیس روپے چار پیسے یونٹ ہوگئی۔ چار سو یونٹ والوں کیلئے چودہ روپے اکتالیس پیسے اضافے کیساتھ فی یونٹ بجلی انتالیس روپے چورانوے پیسے کی ہو چکی۔ پانچ سو یونٹ اور اس سے اوپر بجلی استعمال کرنے والوں کیلئے ڈیڑھ سال میں فی یونٹ پندرہ روپے اکتالیس پیسے مہنگا ہوا ہے۔ سات سو یونٹ سے اوپر والوں کا کو بجلی پچاس روپے تریسٹھ پیسے یونٹ مل رہی ہے۔ ان حالات میں اگر نگران حکومت نے عوام کو فوری ریلیف فراہم نہ کیا تو ان کے لئے حکومت کرنا مشکل ہو جائے گی کیونکہ اس وقت احتجاج، لانگ مارچ، دھرنے اور پہیہ جام ہڑتال کی آوازیں آنا شروع ہوچکی ہیں، آنے والے دنوں میں سڑکوں پر احتجاج ہی احتجاج نظر آرہاہے اور خدشہ ہے کہ بجلی کے بلوں پر احتجاج فسادات میں تبدیل نہ ہو جائیں اور حالات بھی بتا رہے ہیں کہ ملک تیزی سے افراتفری کی جانب جارہا ہے۔ 2ہزار کے بجلی بل میں 48فیصد ٹیکس ہے حالانکہ دنیا میں بجلی استعمال کرنے پر ٹیکس نہیں ہوتا اور ہمارے ہاں بجلی کے بل پر 13قسم کے ٹیکس ہیں اور اسی کو بہانہ بنا کر سیاستدان احتجاج کی کالیں دینا شروع ہوگئے ہیں۔ اس وقت تو میدان ویسے بھی صاف ہے کیونکہ چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کو تو جیل میں بند کر رکھا ہے، وہ بھی ایک ایسے کیس میں جس میں سبھی سیاستدان ملوث ہیں۔ اگر عمران خان اس وقت باہر ہوتا تو مہنگائی کے خلاف بہت پہلے لوگ نکل چکے ہوتے، مگر اسے قید بھی شائد اسی لیے کر دیا گیا تھا کہ مہنگائی کا جو طوفان وہ برپا کرنا چاہتے تھے وہ کر لیں تاکہ عوام سڑکوں پر احتجاج نہ کر سکیں بلکہ اپنے اپنے گھروں میں ہی خودکشیاں کر لیں۔ اب مختلف سیاسی جماعتیں میدان میں آچکی ہیں اور آپ پاکستانیوں کو بھی جانتے ہیں کہ وہ ایسے مواقع پر بے لگام ہوجاتے ہیں۔ احتجاج کی آڑ میں لوٹ مار کا جو سلسلہ شروع ہوجاتا ہے وہ نقصان دہ تو ہوتا ہی ہے، ساتھ میں انٹرنیشنل سطح پر بھی ہماری بدنامی ہوتی ہے۔ ان حالات کو دیکھ کر بعض اوقات تو ایسا محسوس ہونے لگتا ہے کہ ہماری اشرافیہ جان بوجھ کر ملک کی سیاسی و معاشی تباہی کے بعد اسے انارکی میں دھکیل رہی ہے۔ مہنگائی مسلسل بڑھ رہی ہے اور خاص کر بجلی کے بل موت کے پروانے بن چکے ہیں جن کی وجہ سے عوام خودکشیاں اور خود سوزیاں کر رہے ہیں۔ عوام کے گھریلو بجٹ تباہ و برباد ہو چکے ہیں ان پر زندگی تنگ ہو چکی ہے اور ہر گھر میں لڑائی جھگڑے ہو رہے ہیں۔ لوگ قرض لے کر زیور اور ضروری اشیا اونے پونے بیچ کر کے بل ادا کرنے پر مجبور ہیں۔ پشاور میں ایک بجلی کے بل نے پورے خاندان کو مروا دیا، بجلی کے بلوں کی وجہ سے لوگ علاج معالجہ تو کیا کھانا کھانے کے قابل بھی نہیں رہے ہیں۔ مساجد سے اعلانات ہو رہے ہیں کہ عوام بجلی کی بل ادا نہ کریں اور تاجر واپڈا اہلکاروں کو مارکیٹوں میں آنے نہیں دے رہے ہیں۔ سٹرکیں بلاک کی جا رہی ہیں اور متعدد مقامات واپڈا اہلکاروں پر حملے معمول بن گئے ہیں۔ بجلی کے دفاتر اور گرڈ سٹیشنوں کی سیکیورٹی کو سخت خطرات لاحق ہیں اور اگر حالات پر قابو نہ پایا گیا تو ملک بھر میں خانہ جنگی بھی شروع ہو سکتی ہے، کیونکہ بجلی کی قیمت جہاں عوام کو زندہ درگور کر رہی ہے، وہیں اس سے کاروبار بھی تباہ ہو رہے ہیں۔ سرمایہ کاری جو پہلے ہی نہ ہونے کے برابر تھی، ختم ہو گئی ہے، پیداواری صلاحیت کم ہو رہی ہے، جبکہ برآمدات کا حال برا ہے۔ ان حالات میں لوگ سوچنے پر مجبور ہیں کہ ملکی اشرافیہ اور واپڈا افسران وائٹ کالر کریمنل بن چکے ہیں۔ جنہیں صرف اپنے مفادات کی پروا ہے اور عوام کے مسائل سے کوئی دلچسپی نہیں، وہ اب بھی مفت بجلی اور اربوں روپے کی فوائد لوٹ رہے ہیں اور انکی لوٹ مار نے ایک خوشحال ملک کو عوام کے لئے جہنم بنا دیا ہے۔ اگر عوام کو ریلیف دینے کے لئے فوری اقدامات نہ کئے گئے تو ملک میں لاقانونیت جرائم اور انارکی کا ایسا سیلاب آئے گا جو سب کچھ بہا کر لے جائے گا اور یہ یک دم نہیں ہوگا، ان حالات کی برسوں ہم نے ہی پرورش کی ہے۔ بہر حال ایک بات پنجاب کے حوالے سے بتاتا چلوں کہ باقی صوبوں کی نسبت یہاں نگران حکومت جو عوام کے لیے کر سکتی ہے وہ کر رہی ہے۔ بلوں اور معاشی پریشانیوں کے بعد جہاں انسان جاتا ہے وہ ہسپتال ہے اور محسن نقوی نے ہسپتالوں کا نظام پنجاب کی حد تک تو بہت بہتر کر دیا ہے۔ اب ڈاکٹر بھی بات سننا شروع ہوگئے ہیں لیکن جب تک مرکزی حکومت مہنگائی کم نہیں کرتی تب تک پریشانیاں ہی پریشانیاں ہیں۔

جواب دیں

Back to top button