ColumnRoshan Lal

سیاسی بحران اور سیاسی انجینئرنگ

تحریر : روشن لعل
وطن عزیز میں عرصہ سے جاری انحطاط پذیری کا حجم اور کیفیت کسی سے بھی پوشیدہ نہیں ہے۔ یہ حقیقت بھی سب پر عیاں ہے کہ اس طرح کی انحطاط پذیری کسی نہ کسی بحران کا نتیجہ ہوتی ہے۔ ملک میں اس وقت جو انحطاط پذیری نظر آرہی ہے اس کی وجہ کوئی ایک نہیں بلکہ کئی قسم کے بحران ہیں۔ یہ ان گنت بحران نہ قدرتی ہیں اور نہ ہی ان کے پیدا ہونے میں عام لوگوں کا کوئی خاص کردار ہے ۔ ان بحرانوں کے پیدا ہونے میں تقریباً تمام تر کردار اس ملک کی اشرافیہ کا ادا کیا ہوا ہے۔ اشرافیہ کے اس خاص کردار کی وجہ سے یہاں زندگی کا کوئی شعبہ ایسا نہیں جو کسی بحران کا شکار نظر نہ آتا ہو۔ یہاں معیشت، کلچر، آئین، قانون، اخلاقیات ، مذہب اور سیاست جیسے شعبوں میں سے کچھ بھی ایسا نہیں ہے جسے بحرانی کیفیت سے مبرا قرار دیا جاسکے۔ دیگر تمام بحران تو ایک عرصے سے اس ملک کو دیمک کی طرح اندر سے نقصان پہنچا رہے تھے لیکن معیشت اور سیاست کے بحران ایسے ہیں جن کی شدت سے ظاہر ہونے والی انحطاط پذیری چھپائی نہیں چھپ رہی۔ عرصہ سے جاری معاشی بحران اپنی شدت کی ہر نئی لہر کے ساتھ عوام پر مہنگائی کے ناقابل برداشت وار کرتا چلا آرہا ہے ۔ اس معاشی بحران کے ساتھ اب سیاسی بحران کی بڑھتی ہوئی شدت نے ملک میں پہلے سے موجود غیر یقینی حالات کو مزید گھمبیر بنا دیا ہے۔
سادہ تعریف کے مطابق بحران ایسی غیر یقینی کیفیت کو کہتے ہیں جس میں کسی ملک یا سماج کے لوگوں پر انفرادی یا اجتماعی طور پر مسلسل انتہائی منفی اثرات مرتب ہوتے رہتے ہیں۔ یہ کیفیت وقتی یا پھر تادیر بھی برقرار رہ سکتی ہے۔ جہاں تک سیاسی بحران کا تعلق ہے تو اس میں یاتو کسی آئینی ابہام کی وجہ سے سیاسی عمل میں روانی برقرار نہیں رہتی اور حکومتیں آئے روز اپنی پالیسیاں تبدیل
کرتی ہیں یا پھر ایسے لوگ حکمرانی کا حق استعمال کرنا شروع کر دیتے ہیں جس کی آئین ، قانون اور ڈسپلن انہیں قطعاً اجازت نہیں دیتا۔ یہ سب باتیں مل کر عوام اور سیاستدانوں کی نفسیات پر ایسے اثرانداز ہوتی ہیں کہ کوئی بھی کسی دوسرے پر یقین کرنے کے لیے تیار نظر نہیں آتا ۔ اس بے یقینی کی کیفیت میں نہ انتخابی عمل، نہ منتخب سیاستدان، نہ منتخب حکومت ، نہ کوئی ادارہ اور حتیٰ کہ ریاست بھی قابل اعتماد نہیں رہتی ۔ پاکستان میں آج کل کچھ اسی قسم کا سیاسی بحران نظر آرہا ہے۔
پاکستان میں اس وقت جو سیاسی بحران عروج پر نظر آرہا ہے وہ عمران خان کے دور حکومت میں بھی کچھ کم شدید نہیں تھا۔ یہ باتیں کسی سے پوشیدہ نہیں ہیں کہ اس دور میں فیض حمید کیا کر رہے تھے ، چیئرمین نیب جاوید اقبال سے کیا کچھ کروایا جارہا تھا اور کس طرح عدالتیں انسانی حقوق کی پامالی پر آنکھیں بند کیے بیٹھی تھیں ۔ان لوگوں کی کارستانیوں کی وجہ سے اس وقت بھی ملک میں سیاسی بحران موجود تھا مگر اس پر جبر اور سختی سے پردہ ڈالے رکھا گیا ۔ جو کچھ جبر سے پردے میں چھپایا جارہا تھا وہ اس وقت منظر عام پر آنا شروع ہوا جب مقتدر لوگوں کا مقدس سمجھا جانے والا اتحاد اپنے اپنے مفادات کی وجہ سے پارہ پارہ ہونا شروع ہوگیا۔اس تبدیلی کو محسوس کرتے ہوئے ان لوگوں نے عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کے لیے سوچ بچار شروع کیا جنہیں اس کی حکومت صفحہ ہستی سے مٹانے کے درپے تھی۔ واضح رہے کہ عدم اعتماد کی تحریک پیش ہونے سے پہلے یہاں وہ حلقے ایک دوسرے کی سرکوبی کے لیے اپنی توانائیاں صرف کرنا شروع ہو گئے تھے جو مل جل کر عمران خان کے لیے آسانیاں پیدا کرنے اور سہولت کاری کا کام کیا کرتے تھے۔ مقتدر لوگوں کا نفاق سامنے آنے کے بعد عمران خان نے اپنے مفادات کو مد نظر رکھ کر فیصلہ کیا کہ کس گروہ کا ساتھ دینا ان کے لیے سود مند ثابت ہو سکتا ہے۔ کچھ اسی طرح کا کام عمران خان کے ان سیاسی مخالفوں نے بھی کیا جو کبھی اچانک منتشر اور کبھی اکٹھے نظر آنا شروع ہو جاتے تھے۔ پہلے تو سب کچھ پس پردہ ہوتا رہا مگر جب پردہ اٹھنا شروع ہوا تو یہ آوازیں سنائی دیں کہ وہ نیوٹرل ہو گئے ہیں۔ اس کے جواب میں تو دوسری طرف سے یہ کہا گیا کہ نیوٹرل تو جانور ہوتے ہیں۔ ان وقت مختلف گروہوں میں منقسم نیوٹرل کس حد تک نیوٹرل ہوئے تھے اور کس حد تک انہوں نے حسب سابق سیاسی انجینئرنگ کا کام جاری رکھا اس کے متعلق ابھی تک حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جاسکتا مگر یہ بات ضرور کی جاسکتی ہے کہ جن کے لیے ’’جانور‘‘ جیسے لفظ استعمال کیے جارہے تھے انہوں نے اس وقت خود بھی نیوٹرل ہونے کے دعوے شروع کر دیئے تھے۔ ان دعووں اور اس وقت کی عمومی صورتحال کو مد نظر رکھ کر بعض لوگوں نے یہ سوچنا شروع کر دیا تھا کہ یہاں دہائیوں سے جاری سیاسی انجینئرنگ کے نتیجے میں اداروں کے اندر واضح طور پر جو دھڑے بندی نظر آنا شروع ہو گئی ہے اسے ختم کرنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ وہ صرف دعووں کی حد تک نہیں بلکہ حقیقت میں نیوٹرل ہو جائیں۔ اس وقت اسی سوچ کے تحت یہ اندازے لگائے جانے لگے تھے کہ جو لوگ نیوٹرل ہونے کے دعوے کر رہے ہیں وہ شاید حقیقت میں ان دعووں کے مطابق عمل کرنے کے لیے تیار ہوچکے ہیں۔
9مئی کے واقعہ اور اس سے پہلے اور بعد میں جاری جوڈیشل ایکٹوازم کی وجہ سے یہاں کئی لوگوں کی سوچ کے رخ تبدیل ہو نے اور بہت کچھ الٹا پلٹا ہونے سے جو نتیجے برآمد ہوئے وہ ان اندازوں کے بالکل برعکس تھے جو قبل ازیں لگائے جارہے تھے۔ یہ بات درست ہے کہ 9مئی کے واقعہ کے ساتھ جس مبینہ خطرناک سازش کی طرف اشارے کیے گئے اس سازش کے جواب میں مطلق فیئر پلے کی توقع ہر گز نہیں رکھی جاسکتی مگر اس کا یہ مطلب بھی نہیں ہے کہ کسی کے فائول پلے کا جواب دیتے ہوئے وہ سبق سرے سے ہی فراموش کر دیئے جائیں جو انتہائی تلخ تجربوں کے بعد مبینہ طور پر حاصل کیے گئے تھے۔
پاکستان میں طویل عرصے سے جاری سیاسی بحران نے اس وقت جو انتہائی خطرناک شکل اختیار کی ہوئی ہے اس کی سب سے بڑی وجہ ان اداروں کی سیاست میں بے جا مداخلت ہے جن کی وجود کی پہلی شرط ہی غیر سیاسی ہونا ہے۔ جنہیں غیر سیاسی ہونا چاہیے ان کی سیاسی انجینئرنگ کرنے کی تاریخ اتنی ہی پرانی ہے جتنا پرانا ہمارا سیاسی بحران ہے۔ ویسے تو یہاں 1970کی دہائی میں بنایا گیا قومی اتحاد بھی سیاسی انجینئرنگ کا ہی نتیجہ تھا مگر موجودہ سیاسی بحران کی جڑیں جس سیاسی انجینئرنگ میں پیوست ہیں وہ 1980کی دہائی میں اسلامی جمہوری اتحاد بنانے کے لیے کی گئی تھی۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ سیاسی انجینئرنگ کا کام متروک کر کے سیاست دانوں اور سیاسی جماعتوں کو یہ احساس دلایا جاتا کہ وہ اگر اپنے فیصلے اپنے طور پر کریں تو کسی کو ان سے کوئی غرض نہیں ہوگی۔ مگر جب یہاں استحکام پاکستان پارٹی اور تحریک انصاف پارلیمنٹیرین جیسی پارٹی بن رہی ہوں تو کوئی کیسے سمجھ سکتا ہے کہ یہاں سیاسی انجینئرنگ کا کام ختم ہو چکا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button