Column

بھارتی آبی دہشتگردی، پنجاب پھر زیرآب

خنیس الرحمٰن

1947ء کے بعد خطہ برصغیر کا جغرافیہ بالکل بدل چکا تھا۔ دیگر بہت سارے معاملات کے ساتھ ساتھ دونوں ممالک میں وسائل کی تقسیم ایک بہت بڑا مسئلہ تھا جن میں پانی کی تقسیم کا معاملہ سرفہرست تھا۔ سیرل ریڈ کلف کو ہندوستان تقسیم کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی تھی۔ اس نے پانی کی تقسیم کے حوالے سے دونوں ملکوں پر دریائوں اور دیگر آبی وسائل کا نظام واضح کرتے ہوئے تجویز پیش کی کہ دونوں ملکوں کی بہتری اسی میں ہے کہ آبی وسائل کا نظام اسی طرح ایک اکائی کے طور پر چلنے دیں اور اس ضمن میں دونوں ملک آپس میں ایک معاہدہ کر لیں لیکن اس پر فریقین راضی نہ ہوئے۔ پاکستان کا موقف بالکل واضح تھا کہ اس طرح وہ مکمل طور پر بھارت کے رحم و کرم پر رہے گا۔ بھارت نے کشمیر پر زبردستی قبضہ کر لیا اور اس نے ہر اس دریا پر جو پاکستان کی جانب بہتا تھا مکمل قبضہ کرکے مختلف آبی منصوبے شروع کر دئیے۔ مارچ 1948ء میں ایک معاہدے پر دستخط ہوئے جس میں پانی کے تنازعات کے حل کے لیے ایک کمیٹی کی تجویز بھی شامل تھی۔ عین اس دن جب یہ مدت ختم ہوئی بھارت نے بغیر کسی اطلاع کے راوی اور ستلج کا پانی روک دیا جس سے پاکستان میں لاکھوں ایکڑ پر مشتمل فصلیں مکمل طور پر تباہ ہوگئیں، بعد میں بھارت نے یہ موقف اختیار کیا کہ یہ سب کچھ غلط فہمی کی بنا پر ہوا لیکن درحقیقت ایسی بات نہیں تھی۔ اس نے باقاعدہ سازش کے تحت ایسا کیا اور پھر آنے والے وقتو ں نے یہ ثابت کر دیا کہ بھارت کس طرح آبی دہشت گردی کے ذریعے پاکستان کے دریائوں کو بنجر کرنے کے لیے اپنے مذموم مقاصد کے لیے کوشاں ہے۔ اس میں بھارت کا سب سے بڑا ٹارگٹ تو یہی تھا کہ پاکستان پانی کی کمی کے ہاتھوں مجبور ہوکر دوبارہ بھارت کے ساتھ انضمام پر مجبور ہوجائے یا پھر پانی کا سارا نظام بھارت کے حوالے کرکے خود اس کا محتاج ہو کر رہ جائے۔ یہ تنازع یونہی چلتا رہا۔1951ء میں ورلڈ بینک نے کوشش کی کہ دونوں ممالک آپس میں تعاون کر لیں اور کسی معاہدے پر پہنچنے کے لیے کوشش کریں تاہم یہ جلد واضح ہو گیا کہ بھارت کسی ایسے معاہدے کا خواہش مند نہیں تھا جس کے تحت اس کا دریاں پر سے کنٹرول ختم ہوجائے جب کہ پاکستان کو کسی صورت بھارت کی بالادستی منظور نہیں تھی۔ آخر کار ورلڈ بینک کی مزید کوششوں سے دونوں ملک ایک معاہدہ پر رضامند ہو گئے۔ یہ معاہدہ19ستمبر1960کو طے پایا جس کے تحت دریائے سندھ اور دیگر دریائوں کا پانی منصفانہ طور پر تقسیم کر دیا گیا۔ یہ تاریخی معاہدہ ’’ سندھ طاس معاہدہ‘‘(Indus Water Treaty ) کہلاتا ہے۔ معاہدے کے تحت چھ میں سے تین دریا بھارت اور تین پاکستان کے حصے میں آئے جنہیں مشرقی اور مغربی دریا کہا جاتا ہے۔ دریائے سندھ، جہلم اور چناب مغربی دریا ہیں جن کے پانی پر پاکستان کا حق ہے جبکہ راوی، بیاس اور ستلج مشرقی دریا ہیں جن پر بھارت کا حق تسلیم کیا گیا۔
دوسری طرف اس معاہدے کی پاسداری کے حوالے سے آج تک بھارت خلاف ورزی کرتا چلا آرہا ہے۔ یہاں تک آج تک جتنے بھی دونوں ممالک کے درمیان معاہدے ہوئے اس میں پانی کا مسئلہ سب سے زیادہ زیرِ بحث رہا۔ بھارت نے پاکستان کو بے خبر رکھتے ہوئے دو سو سے زائد ڈیم بنائے میں تفصیل میں نہیں جانا چاہوں گا، اب اس نے جتنے ڈیم بنائے آج تک پاکستان اس سے باخبر رہا اور عالمی سطح پر اپنے حق کے لیے آواز اٹھاتا رہا۔ بھارت نے پاکستان کی سلامتی کو نقصان پہنچانے اور اس کی زرخیز زمینوں کو بنجر بنانے کی نیت سے ہی پاکستان کی جانب آنے والے دریائوں پر چھوٹے بڑے دو سو سے زائد ڈیم بنا لیے اور وہ جب چاہتا ہے پاکستان کا پانی روک کر اسے ایک ایک بوند سے محروم کر دیتا ہے جبکہ مون سون میں اطلاع دیئے بغیر فالتو پانی پاکستان کی جانب چھوڑ کر اسے سیلاب میں ڈبو دیتا ہے۔
اسی طرح کئی سال سے خشک دریائے ستلج میں 21اگست کے بعد بھارت کی طرف سے پانی چھوڑا گیا جس کے باعث قصور، بہاول نگر، وہاڑی، اوکاڑہ اور پاکپتن کے بیشتر علاقے سیلاب سے متاثر ہیں۔ قصور میں ہیڈ گنڈا سنگھ والا کے مقام پر، درجنوں دیہات زیر آب آگئے، ہزاروں ایکڑ پر کھڑی فصلیں تباہ ہوگئیں۔ اوکاڑہ کے قریب گاں ہیڈ دونی والا میں سیلابی پانی نے تباہی مچائی، ہزاروں ایکڑ پر کھڑی فصلیں زیر آب آگئیں۔ اس وقت جو قصور کی صورتحال کے پانچ ہزار سے زائد افراد نقل مکانی کر چکے ہیں۔ مقامی ذرائع کے مطابق لوگ اپنے گھروں کو چھوڑنے کے لیے تیار نہیں ہیں ۔ انسانوں سے زیادہ جانوروں کا بڑا مسئلہ ہے، ان کا چارہ سب سے بڑی اہم ضرورت ہے ۔
اگر دیکھا جائے سیلاب کے حوالے سے امدادی آپریشن کی جو صورتحال ہے حکومت کی طرف سے ریسکیو کا ادارہ کام کر رہا ہے۔ نگران وزیراعلیٰ محسن نقوی نے بھی سیلاب سے متاثرہ علاقوں کا دورہ کیا اور مقامی کمشنرز و ڈپٹی کمشنرز کو ہدایات کیں ہیں کہ وہ سیلاب سے متاثرہ لوگوں کے مکمل تعاون کریں۔ اس کے علاوہ مختلف تنظیمیں اپنی مدد آپ کے تحت کام کر رہی ہیں۔ پاکستان مرکزی مسلم لیگ کے مقامی ذمہ داران ان کے پاس اپنی کشتیاں بھی ہیں جن کی وجہ سے یہ متاثرہ افراد تک کھانا، ادویات، جانوروں کا چارہ اور دیگر حفاظتی اشیاء پہنچا رہے ہیں۔ مرکزی مسلم لیگ کے صدر خالد مسعود سندھو نے قصور کے سیلاب زدہ علاقوں کا دورہ بھی کیا اور کارکنان کو ریسکیو آپریشن کو مزید تیز تر کرنے کی ہدایات دیں۔ الخدمت فائونڈیشن، المدرار، قرآن و سنہ موومنٹ سمیت دیگر فلاحی تنظیموں کی طرف سے بھی کیمپ لگائے گئے ہیں ۔
جس طرح کہ آپ سب کے علم میں ہے دو روز قبل بٹگرام میں چیئر لفٹ کا سانحہ پیش آیا۔ سارا میڈیا اور حکومتی اداروں کی توجہ اس پر رہی پل پل کی صورتحال سامنے آتی رہی لیکن گزشتہ کئی ہفتے سے سیلاب میں پھنسے لوگوں کو جس طرح سے حکومت کو توجہ دینی چاہئے تھی اس طرح سے نہیں دی جارہی۔
آخری بات یہ کہ پاکستان کو عالمی سطح پر بھارتی بدنیتی کیخلاف کیس مزید مضبوط کرنا چاہئے۔ تاکہ پاکستان ہر سال ہونے والی بھارتی آبی دہشتگردی سے محفوظ رہ سکے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button