ColumnImtiaz Aasi

پیرول اور قیدی .. امتیاز عاصی

امتیاز عاصی

قیدیوں کو پیرول پر رہائی دینے کا اختیار صوبائی سیکرٹری داخلہ کی بجائے صوبائی کابینہ کو منتقل ہونے کے بعد قیدیوں کی رہائی کی حتمی منظوری صوبائی وزیر قانون کی سربراہی میں کمیٹی آف فار لاء اینڈ آرڈر دیتی ہے۔ پنجاب میں پی ٹی آئی حکومت کے خاتمے کے ساتھ یہ کمیٹی بھی تحلیل ہو گئی، اب قریبا ایک سال سے پیرول پر قیدیوں کی رہائی کا معاملہ کمیٹی کی تشکیل نہ ہونے سے رکا ہوا ہے۔ ایڈیشنل چیف سیکرٹری داخلہ نے جن اسی قیدیوں کی پیرول پر رہائی کی سفارشات دی ہیں وہ کمیٹی کا اجلاس نہ ہونے کی وجہ سے جوں کی توں پڑی ہیں ۔ صدر مملکت عارف علوی کی طرف سے قیدیوں کو بلاامتیاز پانچ سالہ معافی دینے سے پنجاب کی جیلوں سے پندرہ ہزار قیدیوں کو رہائی ملنے کے بعد اب پنجاب کی مختلف جیلوں سے پیرول پر رہائی کے لئے قریبا دو سو قیدیوں کی انتظاری فہرست ہے۔ قتل کے مقدمات میں عمر قید پانے والے وہ قیدی جو اپنی قید کا ایک تہائی حصہ گزار چکے ہوں اور اندرون جیل ان کا کنڈکٹ تسلی بخش ہو وہ پیرول پر رہائی کے اہل ہوتے ہیں۔ صدارتی معافی آنے سے ایسے قیدی جو پیرول کے لئے اپنی قید کا دورانیہ پورا کر چکے تھے انہیں رہائی ملنے سے چالیس قیدی ایسے ہیں جو پیرول پر رہائی کے بعد مختلف اضلاع میں مشقت کر رہے ہیں ۔پیرول پر قیدیوں کی زیادہ سے زیادہ رہائی کا سلسلہ سابق چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کے احکامات پر شروع ہو ا ورنہ خال خال قیدیوں کو پیرول پر رہائی ملا کرتی تھی۔ سابق چیف جسٹس کے خیال میں جب پیرول کا قانون موجود ہے اس پر عمل درآمد ضروری ہے۔ قیدیوں کی پیرول پر رہائی سے جہاں قومی خزانہ پر مالی بوجھ کم ہونے میں مدد ملتی ہے وہاں جیلوں میں نئے آنے والے قیدیوں کے رہنے کی گنجائش پید ا ہو تی ہے۔ پنجاب کی جیلوں میں اس وقت گنجائش سے بہت زیادہ قیدی ہیں۔ سینٹرل جیلوں کے علاوہ ضلعی جیلوں میں گنجائش سے زیادہ قیدیوں کی موجودگی سے بہت سے مسائل جنم لے رہے ہیں۔ عثمان بزدار کے دور میں کینیڈا کی طرز پر قیدیوں کو پیرول پر رہائی دے کر انہیں اپنے آبائی اضلاع کے علاوہ دیگر ضلعوں میں کام کرنے کی آزادی دینے کی نوید دی گئی بدقسمتی سے اس پر عمل درآمد نہیں ہو سکا حالانکہ اس مقصد
کے لئے کثیر رقم سے قیدیوں کی نقل و حرکت کو مانٹیر کرنے کی غرض سے سافٹ ویئر بنایا گیا مگر اس منصوبے کو عملی جامہ نہیں پہنا یا جا سکا۔ منصوبے پر عمل درآمد ہوجاتا تو پیرول پر رہا ہونے کے بعد قیدی محنت مزدوری کرکے اپنے اور اپنے اہل خانہ کے لئے معاش کا ذریعہ بن سکتے تھے۔ تحریک انصاف کی حکومت نے اس مقصد کے لئے محکمہ پیرول کی تنظیم نو کی جس میں ڈائریکٹرز اور ڈپٹی ڈائریکٹرز کی اسامیاں تخلیق کی گئیں۔ پیرول آفس کے دفاتر کو مال روڈ پر کرایہ کی ایک بڑی عمارت میں منتقل کیا گیا کروڑوں روپے کے اضافی اخراجات کے باوجود پیرول پر رہائی پانے والے قیدیوں کی اصلاح کے مقا صد پورے نہیں ہو سکے۔ مروجہ قانون کے تحت قیدی کسی کے گھر پر مشقت کرتے ہیں تو انہیں ایک ہزار اور کسی کارخانے میں مشقت کے لئے بھیجے جاتے ہیں انہیں پندرہ سو روپے ماہانہ دیا جاتا ہے۔ حیرت ہے قیدیوں کو ملنے والا یہ مشاہرہ انہیں پیرول کا عرصہ مکمل ہونے کے بعد دیا جاتا ہے۔ ہمیں یاد ہے شہباز شریف کے دور میں پنجاب میں قیدیوں کو وقفے وقفے سے پیرول پر رہائی ملا کرتی تھی۔ تحریک انصاف کے دور میں پیرول پر رہائی کی رفتار میں بہت حد تک کمی واقع ہو گئی۔ یہ تو صدر مملکت علوی کا بھلا ہو جنہوں نے صدر محمد رفیق تارڑ کی طرح بیک وقت پانچ سالہ عام معافی دے دی، جس کا فائدہ قیدیوں کی بہت بڑی تعداد کو پہنچا ہے۔ جنرل پرویز مشرف کے دور سے پہلے قتل کے ملزمان کو دیگر قیدیوں کے ساتھ عام معافی مل جاتی تھی جس کے بعد چھ سات سال بعد عمر قید کے قیدیوں کو رہائی مل جاتی تھی۔ مارچ2001 میں جنرل مشرف نے ایک صدارتی حکم کے تحت قتل کے مقدمات کے مجرمان کو عام معافی دینے کا سلسلہ بند کر دیا جس کے بعد عمر قید پانے والے قیدیوں کو کم از کم بیس سال تک جیلوں میں رہنا پڑتا ہے۔ وہ قیدی جو دوران قید اپنی تعلیمی استعداد بڑھاتے ہیں انہیں قانون کے مطابق قید میں رعایت مل جاتی ہے۔ سابق آئی جی جیل خانہ جات مبشر ملک نے چارج سنبھالنے کے بعد قیدیوں کو تعلیمی معافیاں دینے کا اختیار جیلوں کے ڈی آئی جیز کو دے دیا تھا تا کہ قیدیوں کی رہائی میں تاخیر سے بچا جائے ورنہ اس سے پہلے معافی دینے کا اختیار آئی جی آفس کو تھا تو قیدیوں کی معافی کے کیسز سالوں آئی جی آفس میں پڑے رہتے تھے۔ قتل جیسے سنگین جرائم اپنی جگہ کوئی شخص حالات سے مجبور ہو کر قتل کا مرتکب ہوتا ہے جس کے بعد اسے جرم کی پاداش میں مشکل ترین حالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ عام طورپر قتل کرنے والوں کو موت کی سزا ہو جاتی ہے۔ کئی برس سزائے موت کے سیلوں میں رہنے والے قیدیوں کی بڑی تعداد حواس باختہ اور مختلف بیماریوں کا شکار ہوجاتی ہے۔ سینٹرل جیل راولپنڈی کے دورہ کے دوران سابق چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے قیدیوں کی حالت زار دیکھتے ہوئے سرکاری ہسپتالوں کے ڈاکٹروں کو جیلوں کا ہر پندرہ روزہ دورہ کرنے کا حکم دیا گیا تھا، جس کے بعد اب سرکاری ہسپتالوں کا طبی عملہ باقاعدگی سے جیلوں کا دورہ کرتا ہے۔ قارئین کی معلومات کے لئے عرض ہے پیرول پر انہی قیدیوں کو رہائی دی جاتی ہے جو صرف قتل کے مقدمات میں سزایافتہ ہوتے ہیں۔ قانونی طور پر قتل کا شمار اخلاقی جرائم میں نہیں ہوتا اسی وجہ سے قتل کے ملزمان کو بی کلاس کی سہولت مل جاتی ہے۔ حال ہی میں قیدیوں کو کھانے کی ترسیل کے لئے جیلوں میں لوڈ کیرئیر گاڑیوں کی فراہمی کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے جس سے قیدیوں کو سالن سے بھری بالٹیاں اٹھانے کی مشقت سے ہمیشہ کے لئے نجات مل جائے گی ورنہ لنگر خانوں سے بیرکس تک قیدیوں کو سالن بھری بالٹیاں اٹھا کر لے جانا پڑتا تھا۔ جیل ملازمین کو ترقی کا مسئلہ بھی درپیش ہے سابق آئی جی مبشر ملک نے اگلے گریڈ میں ترقی کے لئے پانچ سال کی شرط ختم کرنے کی سمری سیکرٹری داخلہ کو بھیجی تھی جو ابھی تک بغیر کسی کارروائی کے پڑی ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button