ColumnZia Ul Haq Sarhadi

معیشت کی بحالی .. ضیاء الحق سرحدی

ضیاء الحق سرحدی

ملک میں جاری سیاسی اور معاشی بحران وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ کم ہونے کی بجائے مزید شدت اختیار کرتا جارہا ہے۔ گزشتہ چار پانچ برسوں میں معیشت کا جو حال کر دیا گیا ہے کہ وہ اب کسی سے بھی سدھر نہیں پا رہی۔ 2017میں ایسے حالات ہر گز نہیں تھے۔ قوم پر واجب الادا غیر ملکی قرض بھی اتنے نہیں تھے جتنے آج ہیں۔ انہی قرضوں کی وجہ سے ہم آج ڈیفالٹ کی طرف تیزی سے بڑھ رہے ہیں۔ ہماری مشکل یہ ہے کہ ہم قرضوں اور امداد کے حصول کے علاوہ اپنی معیشت کو سدھارنے کے لیے کوئی اور سوچ رکھتے ہی نہیں ہیں۔ ہماری پوری کوشش یہی ہوتی ہے کہ کہیں سے ہمیں کچھ امداد مل جائے ۔ کچھ نہیں تو سیلاب کے نام پر ہی ایک امداد مل جائے جس سے ہمارے ذرائع مبادلہ میں کچھ اضافہ ہو جائے۔ دو سروں کی امداد پر گزارا کرنے والی اسی سوچ کا نتیجہ ہے کہ ہم آج تک اپنے پائوں پر کھڑے نہیں ہو پائے ۔ ہم نے اپنے قومی وسائل کا صحیح استعمال ابھی تک شروع ہی نہیں کیا۔ کہا جاتا ہے کہ بلوچستان کی زمین میں قدرت نے ہمیں بہت سے خزانوں سے نوازا ہوا ہے لیکن کیا وجہ ہے کہ ہم انھیں اپنے لیے ابھی تک نکال ہی نہیں پائے ہیں۔ سینڈک، ریکوڈیک کے علاوہ بدین میں تیل اور گیس کے ذخائر ہمارے کب کام آئیں گے۔ تھر کے کوئلے کے بارے میں بہت سی خوشخبریاں دی جاتی رہیں کہ یہ سو سال تک ہماری توانائی کے استعمال کے لیے کافی ہیں۔ پھر پتا نہیں کہ ہم بیرونی دنیا سے کوئلہ کیوں امپورٹ کر رہے ہیں۔ ہمارے وہ منصوبہ ساز کہاں چلے گئے جن کی قابلیت اور ذہانت کا ڈنکا ساری دنیا میں کبھی بجا کرتا تھا اور جن کے منصوبوں کو لے کر کوریا اور دیگر ممالک نے ترقی کی مگر ہم پیچھے کے پیچھے رہ گئے۔ سپریم کورٹ کی طرف سے پنجاب اور خیبر پختونخوا میں الیکشن کروانے کے واضح احکامات کے باوجود وفاقی حکومت تا حال اس پر آمادہ نظر نہیں آرہی جس کی وجہ سے سیاسی عدم استحکام میں بتدریج اضافہ ہو رہا ہے۔ دوسری طرف آئی ایم ایف پروگرام کی بحالی کا معاملہ بھی ایک بار پھر کھٹائی میں پڑتا نظر آ رہا ہے جس کی وجہ سے معاشی و کاروباری سرگرمیاں جمود کا شکار ہیں جب کہ مہنگائی اور بیروزگاری کی شرح مسلسل بڑھ رہی ہے۔ آئی ایم ایف پروگرام کی بحالی کیلئے حکومت نے برآمدی شعبے کو دیا جانے والا مسابقتی انرجی ٹیرف پہلے ہی ختم کر دیا ہے، جب کہ
شرح سود اور جی ایس ٹی میں بھی اضافہ کر دیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ سگریٹ، میٹھے مشروبات، جائیداد، بیرون ملک فضائی سفر پر ڈیوٹیز اور ٹیکسز بھی مزید بڑھا دیئے گئے ہیں۔ علاوہ ازیں بینکوں کی آمدنی پر بھی لیوی لگنے کا امکان ہے۔ اس کے باوجود آئی ایم ایف کی طرف سے لگائے گئے اندازوں کے مطابق فیڈرل بورڈ آف ریونیو کو 7470ارب روپے کا سالانہ ہدف حاصل کرنے میں 130ارب روپے کی کمی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ان حالات میں یہ سمجھنا کہ آئی ایم ایف پروگرام کی بحالی یا کسی دوست ملک کی فوری امداد سے ہماری مشکلات ختم ہو جائیں گی حقیقت پسندانہ سوچ نہیں۔ ہم اگر اس بحران کو اصلاحات کے ایک موقع کے طور پر دیکھیں تو مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ سیاسی قیادت کو ذاتی مفادات سے بالاتر ہو کر معیشت کی بحالی کیلئے کم از کم دس سالہ متفقہ معاشی پالیسی کا ڈرافٹ تیار کرنا چاہئے۔ اس سلسلے میں ایسا طریقہ کار بنایا جا سکتا ہے جس کے تحت حکومتوں کی تبدیلی کے باوجود معاشی پالیسی پر عملدرآمد کا سلسلہ جاری رہے۔ اس حوالے سے ماہرین پر مشتمل اعلی سطحی با اختیار کمیٹی بھی ماہرین پر تشکیل دی جاسکتی ہے۔ طویل المدتی بنیادوں پر معیشت کی بحالی کیلئے برآمدات میں اضافہ، درآمدات میں کمی ، خسارے
میں چلنے والے سرکاری اداروں کی نجکاری، زرعی پیداوار میں اضافہ ٹیکنیکل ایجوکیشن کا فروغ اور آبادی میں اضافے کی شرح کو کم کرنا بہت ضروری ہے۔ آبادی میں اضافے کی شرح کم کرنا اس لئے بھی ضروری ہے کہ پاکستان میں آبادی میں اضافے کی شرح بھارت اور بنگلا دیش سے دگنی جبکہ سری لنکا سے تین گنا زیادہ ہے۔ اس لئے جب تک ہم آبادی کی بڑھتی ہوئی شرح میں کمی نہیں کریں گے غربت کے خاتمے اور قومی خوشحالی کا خواب کبھی شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکے گا۔ دوسری طرف عالمی سطح پر پاکستان کو غیر ملکی خریداروں یا سرمایہ کاروں کیلئے زیادہ محفوظ ملک نہیں سمجھا جاتا جس کی وجہ سے ہمارے ایکسپورٹرز کو برآمدی آرڈرز کے حصول میں مشکلات کا سامنا ہے۔ ایکسپورٹ انڈسٹری پر عائد سیلز ٹیکس بھی برآمدات میں اضافے کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ بن چکا ہے۔ گزشتہ حکومت نے اس سلسلے میں 72گھنٹوں کے اندر سیلز ٹیکس ریفنڈز کی ادائیگی کیلئے فاسٹر کا نظام متعارف کرایا تھا لیکن اب وہ بھی کام نہیں کر رہا اور ایکسپورٹرز کو ریفنڈز کی ادائیگی میں کئی کئی ماہ کی تاخیر معمول بن چکی ہے۔ برآمدات یا صنعتی پیداوار میںاضافے کے حوالے سے ہمارا دیرینہ دوست چین ایک بہترین مثال ہے جس نے معیشت کو فروغ دینے کیلئے حکومت یا بیورو کریسی کی مداخلت کم کر کے بہترین نتائج حاصل کئے ہیں۔ چین کی معاشی ترقی کے معمار ڈینگ عیاو چنگ نے ابتدائی طور پر بیجنگ اور چار دیگر علاقوں میں خصوصی اقتصادی زون قائم کئے تھے، اگلے پانچ سال میں چین کے اقتصادی زونز کی تعداد بڑھ کر 35 ہو گئی تھی جنہوں نے چین کی برآمدات بڑھانے اور ترقی میں اہم کردار ادا کیا۔ اس کے برعکس پاکستان میں سی یک کے تحت بننے والے اسپیشل اکنامک زونز تا حال مکمل طور پر فعال نہیں ہو سکے۔ علاوہ ازیں ہمارے صوبوں کی سطح پر اقتصادی ترقی کے حوالے سے کوئی منصوبہ بندی یا مسابقت کی فضا موجود نہیں ہے۔ اس حوالے سے اگر صحت مند مقابلہ سازی کی فضا پیدا کی جائے تو نا صرف ہم اپنی صنعتی پیدوار اور اس کے حجم میں اضافہ کر سکتے ہیں بلکہ اس سے علاقائی سطح پر موجود عدم مساوات کو کم کرنے میں بھی مدد ملے گی۔ ہمیں اپنی زرعی پیداوار بھی مزید بڑھانے کی ضرورت ہے کیونکہ کہنے کی حد تک پاکستان ایک زرعی ملک ہے لیکن اس کے باوجود ہم ہر سال تقریباً چھ سے آٹھ ارب ڈالر کی گندم، کپاس، کھانا پکانے کا تیل، دالیں اور دیگر زرعی اجناس بیرون ملک سے درآمد کرتے ہیں۔ اس لئے جب تک ہم اپنی زرعی پیداوار میں اضافہ نہیں کریں گے تب تک ہمارے ملک میں خوراک کی قلت رہے گی۔ اس کے علاوہ بھی درجنوں ایسی تجاویز ہیں جن پر عمل کر کے ہم ملک کی ڈوبتی کشتی کو منجدھار سے نکال سکتے ہیں لیکن اس کیلئے ضروری ہے کہ سیاسی قیادت معاشی ترقی کے ایجنڈے پر متفق ہو اور سیاسی اختلاف کو سیاسی دشمنی میں تبدیل کرنے کی روایت ختم کی جائے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button