قائدؒ کا درخت کس کس نے کاٹا؟ .. کاشف بشیر خان

کاشف بشیر خان
کل ہی ایک دیرینہ دوست نے امریکی ریاست فلوریڈا سے مجھے فون کیا اور عالمی اور پاکستانی حالات پر دیر تک بات ہوتی رہی۔ بیرون ملک رہنے والے پاکستانی پاکستان کی بگڑتی ہوئی سیاسی اور معاشی صورتحال سے بہت پریشان ہوتے ہیں اور یہی پریشانی میرے دوست طارق نہال خان کی باتوں سے بھی چھلک رہی تھی۔باتوں باتوں میں طارق خان نے مجھے 80 کی دہائی میں ایک معتبر امریکن جریدے کے کورپیج پرچھپنے والے ایک کارٹون کی یاد دلائی اور ساتھ ہی مجھے کہا کہ میں وہ کارٹون وٹس ایپ پر بھیج رہا ہوں آپ اسے دیکھو پھر بات کرتے ہیں۔جب میں نے وہ کارٹون دیکھا تو اس پر 1987 کے آخری مہینے کی تاریخ تھی۔ اس کارٹون میں ایک ایسا درخت دکھایا گیا تھا جس کی جڑیں بہت پھیلی ہوئی اور وہ بہت ہرا بھرا تھا لیکن اس کارٹون میں اس بہت بڑے ہرے بھرے درخت کے نیچے بہت سارے مختلف قسم کے لوگ کلہاڑیوں، تلواروں اور دوسرے اوزاروں سے وار کر کے درخت کو کاٹنے یا نقصان کرنے کیلئے وار کرتے دکھائی دے رہے تھے،درخت کی جڑوں اور تنوں پر وار کرنے والوں نے پنجابی پگڑیاں، سندھی و بلوچی ٹوپیاں اور پٹھانوں والے لباس بھی پہنے ہوئے تھے۔
اسی درخت کے ایک طرف پولیس اور دوسرے اداروں کے یونیفارم میں ملبوس لوگ بھی تھے جو اس درخت کو نقصان پہنچانے کیلئے اپنی بندوقیں اور دیگر اسلحہ لے کر کھڑے تھے۔اسی طرح مختلف قسم کے حلیے والے لوگ جو سیاستدان لگ رہے تھے وہ بھی اس درخت کو لالچ زدہ نظروں سے دیکھتے ہوئے کاٹنے کو کوششوں میں مصروف تھے۔ یہ منظر بہت حیران کن تھا کہ ایک بہت بڑے اور ہرے بھرے درخت کو سب ہی طبقات کاٹنے میں کوشاں تھے لیکن وہ پھر بھی مضبوطی سے کھڑا تھا۔ درخت کی خوبصورتی دلکش اور کارٹون بنانے والے کی مہارت تھی کہ اتنا زبردست کارٹون بنانے کے بعد اس نے تجسس برقرار رکھنے کیلئے کارٹون کے انتہائی بائیں جانب، نیچے چھوٹا سا پاکستان لکھا ہوا تھا اور ایک ایرو سے اس کا رخ درخت کی جانب کیا ہوا تھا۔
یقین جانیے اس کارٹون کو دیکھ کر کسی بھی تحریر کی ضرورت باقی نہیں رہی تھی اور پاکستان کو ماضی میں اور حال میں نقصان پہنچانے والے تمام ہی طبقات سے وابستہ چہرے نظروں کے سامنے گھومتے ہوئے نظر آنے لگے،ان چہروں میں ریاست کے اقتدار پر قبضہ کرنے والے آمر اور جمہوریت کو ڈھال بنا کر اقتدار حاصل کرنے والے بھی شامل تھے،ان چہروں میں نامی گرامی کاروباری شخصیات اور سیاسی ڈگڈگیاں بجانے والے بھی شامل تھے۔ان چہروں میں انصاف کو بیچنے اور قتل کرنے والے اور بیرونی ایجنڈوں پر کام کرنے والے بھی بہت سے چہرے شامل تھے، جو پاکستان کے عوام کی تلخ ایام کو یاد رکھنے والوں کے سامنے کبھی بھی دھندلا نہیں سکتے۔ان میں فرعونیت دکھانے والے بیوروکریٹ بھی شامل تھے جو دراصل عوام اور ریاست کے نوکر ہوتے ہیں لیکن گزشتہ 75 سال میں وہ اتنے مضبوط ہو گئے کہ وہ ریاست میں فرعونیت دکھانے والی اشیا بن چکے۔پاکستان کو دو لخت کرنے والی اور عوام کو اپنی رعایا بنانے والی شکلیں گو کہ ان گنت
ہیں‘‘لیکن کرو گے یاد تو ہر بات یاد آئے گی‘‘کے مصداق یہ چہرے بھولنے والے نہیں اور نہ ہی آنے والی نسلیں جو ان سے نا آشنا ہیں کو ان شکلوں کا اصلیت بتانے کا فرض ہم اہل قلم پر اس مٹی کا قرض ہے۔پاکستان جو آج معاشی ڈیفالٹ کا شکار نظر آ رہا ہے وہ ان تمام چہروں یا پھر ان کی اگلی نسلوں کاکھیل کا میدان بن چکا۔ قائد اعظم محمد علی جناح نے پاکستان کی شکل میں جو ہرا بھرا اور سرسبز درخت برصغیر کے مسلمان کو ایک علیحدہ ریاست کی شکل میں بنا کر دیا تھا، اس درخت کو 75 سال میں ہم سب نے ہر جگہ سے کاٹا، گو کہ1971 میں ہم نے خود ہی اس کا ایک بہت بڑا تنا کاٹ کر اسے بنگلا دیش بنادیا لیکن یہ درخت گو کہ اب سرسبز نہیں رہا لیکن اس درخت کو کاٹنے والے اب بھی مختلف سیاسی نعروں اور وعدوں کے ذریعے عوام کو گمراہ کر کے اسے کاٹنے کی کوششوں میں شدومد سے مصروف ہیں۔
قوموں کی زندگیوں میں ہر گزرتا دن آگے بڑھنے کا ہوتا ہے اور جس درخت (پاکستان) کی بات ہو رہی وہ تو بہت ہی سرسبز اور گھنا تھا۔آج افسوس تو یہ ہے کہ جب ریاست پاکستان کے معاشی، سیاسی،سماجی اور اخلاقی حالات دیکھتے ہیں تو اس سرسبز درخت (پاکستان)کو ہم بہت کمزور اور سوکھا ہوا پاتے ہیں۔اس درخت کو میں بنجر تو نہیں کہہ سکتا کہ یہ درخت قائد اعظم اور ہمارے اسلاف نے جانوں اور مالی نقصانات کے بعد لگایا تھا اور ہاں یہ بہت سرسبز بھی تھا۔ اندازہ کریں کہ1987 میں امریکی جریدے میں شائع ہونے والے کارٹون کے بعد آج 35 سال بعد بھی پاکستان قائم و دائم ہے اورانشاللہ قیامت تک قائم رہے گا لیکن کلہاڑیوں، تلواروں، خنجروں، بندوقوں اور مختلف اوزاروں و نعروں سے ریاست پاکستان کے درخت کو کاٹنے کی کوششیں آج بھی جاری و ساری ہیں۔فرق ہے تو اتنا کہ ریاست پاکستان کے درخت کو کاٹنے والے اب اتنے طاقتور ہوچکے ہیں کہ اول تو ان کا ریاست پاکستان کا درخت کاٹنے کا عمل خفیہ ہو چکادوسرا انہوں نے اس مکروہ عمل میں عوام کی بہت بڑی تعداد کو مختلف نعروں کے ذریعے اپنا ہمنوا بنا لیا ہوا ہے۔ جہاں اس سرسبز و شاداب درخت(پاکستان) کا کاٹنے والوں کا احتساب کرنا عوام کی زمہ داری ہے وہاں اس درخت کی آبیاری بھی عوام کو سیاسی مقاصد سے بالاتر ہو کر یقینی بنانا ہوگی ورنہ قائد اعظمؒ کا دیا ہوا درخت( جو کبھی سرسبز ہوا کرتا تھا) کمزورتر ہوکر کہیں اپنا کوئی اور ٹہنا نہ گرا بیٹھے ۔