Columnfarrukh basir

گرینڈ قومی ڈائیلاگ .. فرخ بصیر

فرخ بصیر

 

پاکستان گزشتہ چند روز سے جس طرح کے سیاسی،معاشی بحرانوں اور علاقائی چیلنجز کاسامنا کر رہا ہے اس میں اگر ہماری قومی سیاسی قیادت نے ضد اور انا چھوڑ کر میانہ روی اور مذاکرات کا راستہ نہ اپنایا تو اس کے اثرات نہ صرف طویل المدتی ہونگے بلکہ اس کے نتیجے میں ہمیں علاقائی اور بین الاقوامی سطح پر بہت کچھ جھیلنا پڑ جا ہے گا۔چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کی طرف سے پنجاب اورخیبر پختونخوا اسمبلیاں توڑنے کے اعلان پر جمعہ کے روز عمل درآمد کی ڈیڈ لائن دی گئی ہے جبکہ گورنر پنجاب کی طرف سے وزیر اعلیٰ پنجاب کو اعتماد کا ووٹ لینے کیلئے بلائے گئے پنجاب اسمبلی کے اجلاس کو سپیکر نے غیر آئینی قرار دیتے ہوئے مسترد اور صدر کو گورنر پنجاب کی معطلی کی درخواست بھجوا دی ہے۔قانونی ماہرین پنجاب اسمبلی کی تحلیل اور گورنر پنجاب کی طرف سے وزیر اعلیٰ پنجاب کو اعتماد کا
ووٹ لینے کی ہدایت پر طرح طرح کی دلیلیں پیش کر رہے ہیں مگر کوئی بھی فریق اس حوالے سے آئین وقانون کی روح کے مطابق عمل درآمد کرنے کو تیار دکھائی نہیں دیتا اور یہ منطق دیتا دکھائی دیتا ہے کہ ہم ٹھیک ہیں،فریق ثانی غلط ہے۔دوسری طرف ملک کے شمالی علاقوں بالخصوص صوبہ خیبر پختونخوا میں امن و امان کی بگڑتی صورتحال اور حال ہی میں بنوں کے سی ٹی ڈی دفتر کو دہشت گردوں کی طرف سے یرغمال بنانے اور فوجی آپریشن کے بعد واگزار کرانے کے واقعات نے امن وامان کی صورتحال پر واضح سوالیہ نشان کھڑا کر دیا ہے۔جس کی تازہ ترین مثال وفاقی دارالحکومت میں سیکورٹی ہائی الرٹ کرنے ،پارلیمنٹ ہاؤس اور فیڈرل لاجز کی سکیورٹی ایف سی کے حوالے کرنے کے حکومتی اقدامات سے ظاہر ہوتی ہے۔ ویسے تو حکومت کے کان سوات میں کچھ عرصہ قبل سکول وین پر فائرنگ اورتحریک طالبان پاکستان کیساتھ امن معاہدہ ختم ہونے کیساتھ ہی کھڑے ہونے چاہئیں تھے مگر ریاستی اداروں کے در میان نیشنل ایکشن پروگرام پر سنجیدگی سے عمل کرنے اور نیکٹا کو سرگرم کرنے کا کوئی متفقہ فیصلہ سامنے نہ آنے کے نتیجے میں ملک
اسوقت شدید سیاسی اور معاشی عدم استحکام سے دوچار ہو چکا ہے۔سٹیٹ بنک کی تازہ ترین رپورٹ کے اعشارئیے اور آئی ایم ا یف کے ڈو مور کے مطالبے اور بڑھتی ہوئی مہنگائی عام آدمی کیلئے سوہان روح بن چکی ہے۔اشیائے ضروریہ کی بڑھتی ہوئی قیمتوں پر کنٹرول کی ذمہ دار انتظامیہ اور پولیس آئے روز ہونیوالے تبادلوں کے باعث اپنی بنیادی ذمہ داری (گورننس) سے بالکل ہاتھ اٹھا چکے ہیں اور انہوں نے ان اشیائے ضروریہ کی قیمتوں پر کنٹرول کا نیا نسخہ دریافت کر رکھا ہے اور وہ یہ ہے کہ انتظامیہ ذخیرہ اندوزوں اور منافع خوروں کو پکڑنے کی بجائے سرکاری نرخ نامے میں قیمتیں بڑھا دیتی ہے۔اس دگرگوں صورتحال میں عوامی سطح پر حکومت اور اپوزیشن کے حوالے سے بے یقینی اور مایوسی میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے جو ہماری سیاسی قیادت اور ملکی ترقی واستحکام کے زمہ داروں کو بخوبی نظر آ رہا ہے مگر اس وقت سیاسی اور عسکری قیادت ترجیحات کے حوالے سے ایک پیج پر نظر نہیں آتی۔13رکنی حکومتی اتحاد اور 2رکنی اپوزیشن الائنس ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی دوڑ میں اس قدر مصروف نظر آتے ہیں کہ انہیں فی الحال عام پاکستانی کے مسائل سے کوئی لینا دینا نہیں۔خان صاحب حکومت پر عام انتخابات کیلئے دباؤ بڑھانے کیلئے اس حد تک آگے جا چکے ہیں کہ وہ موجودہ حکومت کو اقتدار سے باہر کرنے کیلئے ہر حد تک جانے کو تیار دکھائی دیتے ہیں۔ان حالات میں فوری طورپر گرینڈ قومی ڈائیلاگ ہی پاکستان کے موجودہ بحران کا واحد حل ہے اور یہ گرینڈ ڈائیلاگ کون کرا سکتا ہے ہم سب کو پتا ہے۔ بہتر ہو گا یہ پاکستان کی پہلی ترجیح قرار دیکر نیا سال شروع ہوتے ہی کرا لیا جائے ورنہ بہت دیر ہو جائے گی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button